کیا حکومت واقعی بند گلی میں داخل ہوچکی ہے، اور اب اُس کے لیے پسپائی اور جگ ہنسائی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو لاہور اور اسلام آباد کے سیاسی اور باخبر حلقوں میں ایک عرصے سے گردش کررہا تھا، لیکن لاہور میں تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی بلاوجہ گرفتاری، انتہائی عجلت میں تحریک کو کالعدم قرار دینے، مسجد رحمت اللعالمین میں آپریشن کے ذریعے درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد اُسی کالعدم تنظیم سے کامیاب مذاکرات کے دعووں، اور اب اس تیسرے معاہدے سے بھی پھرنے کی حکومتی تیاریوں نے اس سوال کو زیادہ شدت کے ساتھ اٹھا دیا ہے۔ اگرچہ حکومت اس کے برعکس دعوے کررہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، اور باقی جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ وزیراعظم دعویٰ کررہے ہیں کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم آچکی ہے۔ حکومتی سقراط اسد عمر کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، ترسیلاتِ زر بڑھی ہیں، ٹیکس نیٹ کا حجم زیادہ ہوا ہے، نیب نے بھی خاصی ریکوریاں کی ہیں۔ لیکن عام آدمی کا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومتی دعوے درست ہیں تو ان کا اظہار مارکیٹ کے اشاریوں میں کیوں نہیں ہورہا ہے؟ اور اس کے ثمرات عام پاکستانیوں تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ یا تو یہ دعوے جھوٹے ہیں، یا پھر کرپشن کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ بہتر اشاریے اُس کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ گئے ہیں، یا پھر حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اگر کوئی تھوڑی بہت تیزی آئی ہے تو غیر ترقیاتی اخراجات کا جن اسے چٹ کر گیا ہے۔ ویسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹیں، اکنامک سروے اور دوسرے انڈی کیٹرز حکومتی دعووں کی تصدیق نہیں کررہے، جب کہ اپوزیشن کے الزامات تو یہاں تک ہیں کہ اس حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب اسے لانے والے سلیکٹرز بھی پریشان ہیں، اور کوئی نئی راہ تلاش کرنا چاہ رہے ہیں۔ جب کہ حکومتی عہدیداروں کا غیر اعلانیہ مؤقف یہ ہے کہ سلیکٹرز اُن سے ناخوش نہیں ہیں بلکہ حکومت اُن کی مشاورت سے اپنا کام چلا رہی ہے۔ جب کہ ناقدین کا خیال ہے کہ اگرچہ اتنے فرماں بردار حکمران پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو میسر آئے ہیں جو بلاچوں و چرا ہر معاملے میں سرِ تسلیم خم کرتے جاتے ہیں بلکہ اس تابعداری میں اپنی مجبوریاں بھی بھول جاتے ہیں۔ اس لیے بظاہر تو یہ سلیکٹرز کے لیے تاحال قبول ہیں، لیکن ان کی کارکردگی ایسی نہیں ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکون و اطمینان کا باعث بن سکے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بند گلی میں داخل ہونے کی بات سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد سے زیادہ شد و مد سے کی جارہی ہے۔ اگرچہ پی ڈی ایم کا قیام حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا، لیکن بہت جلد توڑ پھوڑ کا شکار ہونے والی پی ڈی ایم کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ کسی کا کیا بگاڑ پائے گی! پی ڈی ایم میں شامل ایک دو جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرچکیں، باقی تیار بیٹھی ہیں، لیکن حکومت کو پہلا بڑا دھچکہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی سینیٹ میں شکست سے ہوا، جسے اپوزیشن نے حکومت پر عدم اعتماد قرار دے کر عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کردیا۔ لیکن اسلام آباد ہی سے خواتین کی واحد نشست پر تحریک انصاف کی زیادہ ووٹوں سے کامیابی اور پھر چیئرمین سینیٹ کی سیٹ پر صادق سنجرانی کی کامیابی نے تحریک انصاف کو کچھ حوصلہ دیا۔ دراصل اس دوران اسٹیبلشمنٹ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی تھی، یا اپنے مہروں کو کھلا رہی تھی۔ لیکن تحریک لبیک کے ساتھ حالیہ معاملہ لگتا ہے کہ حکومت کو بند گلی میں لے آیا ہے۔ اس کی کارکردگی پہلے ہی صفر ہے، عوامی جذبات کا اظہار ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں حکومتی شکست سے ہوچکا۔ تحریک لبیک نہ صرف عوامی سطح پر مقبول اور اپنا اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتی ہے بلکہ خود حکومت کے اندر بہت سے لوگ اُس سے جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ وہ اپنی طاقت کا بار بار مظاہرہ کرچکی ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تحریک انصاف کے ایسے بہت سے امیدوار جو اگلے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حاصل نہیں کرپائیں گے وہ تحریک لبیک (یا مستقبل میں نئے نام سے وجود میں آنے والی پارٹی) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے۔ باقی امیدوار بھی اپنے حلقوں میں تحریک لبیک کی مدد کے خواہش مند ہوں گے۔ لیکن حکومت تحریک لبیک کے ساتھ دو معاہدے کرنے کے باوجود اُن پر عمل درآمد میں ٹال مٹول کررہی تھی، جس پر تحریک لبیک نے 20اپریل کو ڈیڈ لائن ختم ہونے پر دھرنے اور احتجاج کا اعلان کیا، جس پر حکومت نے انتہائی عجلت میں تحریک کے سربراہ سعد رضوی کو ایک نمازِ جنازہ سے واپس آتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلتی رہیں کہ کالم نگار اوریا مقبول جان حکومت اور سعد رضوی کے درمیان مذاکرات کرا رہے تھے۔ سعد رضوی جنازے کے بعد اوریا مقبول کے ہاں ہی جارہے تھے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اُن کی گرفتاری پر مظاہرین کے خلاف نہ صرف تشدد آمیز پالیسی اپنائی گئی بلکہ اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم بھی چلادی گئی، اس پر مستزاد حکومت نے تحریک پر ہی پابندی لگادی اور مسجد رحمت اللعالمین کے باہر بڑا آپریشن کرکے درجنوں افراد کو ہلاک و زخمی کردیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے کئی ارکان پابندی اور آپریشن کے خلاف تھے لیکن حکومت نے یہ کام کر ڈالے، معاہدہ بھی کرلیا اور اب اُس پر بھی عمل درآمد میں لیت و لعل کررہی ہے۔ دوسری جانب جہانگیر ترین خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ہیں۔ اس وقت اُن کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلی کے جتنے ارکان نظر آرہے ہیں اگر وہ ترین کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور کوئی حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں تو تحریک انصاف کو وفاق اور پنجاب دونوں میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس بار اسٹیبلشمنٹ صرف وزیراعظم تبدیل کرنا چاہے گی (ماضی کی طرح)، یا پھر پوری حکومت ہی کا بوریا بستر گول کردے گی۔ تاہم ایک بات کا خطرہ سب کے لیے پریشان کن ہے کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نکل آئے تو پہلے سے الزامات کی زد میں آئی ہوئی منہ زور اسٹیبلشمنٹ خود پریشانی کا شکار ہوسکتی ہے۔