شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے تضادات

شہبازشریف بنیادی طور پر مفاہمت کی سیاست کے حامی ہیں۔ وہ مزاحمتی سیاست کو ٹکرائو کی سیاست سے جوڑتے ہیں اور اُن کے بقول اُن کی جماعت کو مزاحمت سے زیادہ مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک بڑی سیاسی حقیقت سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ شہبازشریف کی حالیہ ضمانت پر بہت سے لوگ مختلف انداز میں سیاسی رنگ بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس تناظر میں تین تجزیے پیش کیے جارہے ہیں:
(1) شہبازشریف کی ضمانت پسِ پردہ قوتوں کی حمایت سے ممکن ہوئی ہے، اور اسٹیبلشمنٹ اور شہبازشریف کے درمیان کچھ طے ہوا ہے۔
(2) شہبازشریف کی رہائی کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) اب ٹکرائو کے بجائے مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھے گی اور حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کسی مہم جوئی سے گریز کرے گی۔
(3) مسلم لیگ (ن) میں وہ لوگ جو بلاوجہ ٹکرائو کا ماحول پیدا کررہے ہیں اُن کو پیچھے کرکے مفاہمتی سوچ رکھنے والے لوگوں کو آگے لایا جائے گا تاکہ ٹکرائو کی سیاست ختم کی جاسکے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا شہبازشریف اپنی مفاہمت کی سیاست سے مسلم لیگ (ن) کو ٹکرائو کی سیاست سے باہر نکال سکیں گے؟ کیونکہ شہبازشریف کے بقول ٹکرائو، اور اداروں سمیت ان کے سربراہان کے خلاف نوازشریف، مریم نواز اور دیگر مسلم لیگیوں کی سخت گفتگو نے مسلم لیگ (ن) اور اداروں کے درمیان ٹکرائو کا جو ماحول پیدا کیا ہے وہ پارٹی کے مفاد میں نہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شہبازشریف کی حالیہ ضمانت پر جو رہائی ہوئی ہے وہ کسی پسِ پردہ ڈیل کا نتیجہ ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کو اب عملی طور پر مزاحمت یا ٹکرائو کے مقابلے میں مفاہمت کی سیاست سے جوڑنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کوشش کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جو کچھ ماضی یا حال میں ہوا ہے اسے بھول کر مستقبل کی طرف دیکھا جائے۔
پہلے شہبازشریف کے معاملے میں اس نکتے کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی ضمانت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام مقدمات سے مکمل طور پر بری ہوگئے ہیں۔ شہبازشریف اور ان کے خاندان کو قانونی جنگ کا سامنا ہے، اور یہ مقدمات بدستور اُن کا اوراُن کے خاندان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ قانونی ماہرین کے بقول اُن پر جو الزامات ہیں وہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور خاصے شواہد ایسے ہیں جو اُن کے لیے سیاسی اور قانونی محاذ پر شدید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے شہبازشریف کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بدستور خود کوقانونی جنگ سے بچانا ہے، اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ کچھ لو اورکچھ دو کی سیاست میں وہ کوئی بڑا ریلیف لے سکیں۔ لیکن اس مقصد میں کامیابی کے لیے اُن کو سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے تناظر میں ٹکرائو کی سیاست کو مفاہمت کی سیاست میں تبدیل کرنا ہوگا، اورجو سیاسی ماحول براہِ راست نوازشریف، مریم نواز اور اُن کے بعض ساتھیوں نے اداروں اور ان کے سربراہان پر تنقید کرکے پیدا کررکھا ہے اسے تبدیل کرنا ہوگا، اور طاقت کے مراکز کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ مستقبل میں ہماری ٹکرائو یا تنازعات کی پالیسی نہیں ہوگی۔
شہبازشریف کو ایک سیاسی برتری یہ بھی حاصل ہے کہ اُن کی سوچ اور فکر کے حامل بہت سے لوگ پارٹی میں موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اداروں سے ٹکرائو سے ہمیں فائدہ کم اورنقصان زیادہ ہوا ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ ارکانِ اسمبلی ہیں جو شہبازشریف کی سیاسی حکمت عملی کے حامی ہیں۔ لیکن سوال سب سے بڑا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں کس کا سیاسی بیانیہ چلے گا؟ یہ سمجھنا کہ دونوں طرز کا بیانیہ یعنی مفاہمت اور مزاحمت ساتھ چل سکیں گے، ممکن نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو ایک بیانیے کی طرف رجوع کرنا ہے، اور اس سلسلے میں حتمی فیصلہ یقینی طور پر نوازشریف کو ہی کرنا ہے۔ لیکن کیا نوازشریف اورمریم نواز شہبازشریف کے بیانیے کی کھل کر حمایت کرکے اپنے سیاسی بیانیے پر خاموشی اختیار کرلیں گے؟ اس کا فوری جواب دینا مشکل ہوگا۔ بالخصوص مریم نواز سمجھتی ہیں کہ اگر وہ خود کو پیچھے لے جاتی ہیں اور اپنے سیاسی بیانیے میں نرمی یا کمزوری دکھاتی ہیں تو ان کی سیاسی اہمیت کم اور شہبازشریف کی بڑھ جائے گی۔ شہبازشریف کی یہ کوشش بھی ہوگی کہ اگرکسی طریقے سے مریم نواز کے باہر جانے کا ماحول بن جائے تو اس سے پارٹی پر ان کی سیاسی گرفت مضبوط ہوگی اور نوازشریف کے پاس واحد آپشن یہی ہوگا کہ وہ شہبازشریف کو تمام معاملات سونپ دیں۔ لیکن کیا مریم نواز سیاسی میدان چھوڑ کر باہر جاسکیں گی، یہ خود ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ ایسی صورت میں مریم سیاسی طور پر پیچھے چلی جائیں گے۔ مریم نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اب ہمارا ہدف عمران خان کی حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت اپنی سیاسی مدت پوری کرے اور لوگوں کو پتا چلے کہ یہ کتنی ناکام حکومت ہے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جو سیاسی مہم جوئی یا حکومت کے خاتمے کی تحریک وہ عملی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ہے۔
شہبازشریف کا بڑا چیلنج ہی نوازشریف کو سیاسی طور پر اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پارٹی کو ان کی سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر چلانے کی اجازت دیں تاکہ وہ طاقت کے مراکز میں اپنا راستہ نکال سکیں۔ نوازشریف کا چیلنج بھی مریم نواز ہیں، اوران کو راضی کرنا خود نوازشریف کے لیے بھی بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ چیلنج اس لئے بھی اہم ہے کہ اسے 2023ء کے انتخابات میں اپنے لئے محفوظ راستے کے لئے حالات کو معاون بنانا ہے۔ کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی دراصل شہبازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی ڈیل کا نتیجہ ہے اور مقصد اُن کو عمران خان کے متبادل کے طورپر پیش کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے، کیونکہ ابھی تو شہبازشریف کو اپنے داخلی تضادات سے خود کو بھی نکالنا ہے اور اپنی جماعت کو بھی۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر کسی سیاسی سودے بازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ابھی جو بھی لوگ شہبازشریف کی سیاست میں اقتدار کے رنگ بھرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کا تجزیہ قبل از وقت ہے۔ فی الحال شہبازشریف کو اپنے داخلی مسائل سے نمٹنا ہے، اس کے بعد ہی وہ آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں، اور بالخصوص اس پوری صورت حال میں نوازشریف کس حد تک شہبازشریف پر بھروسا کرتے ہیں اور ان کو کام کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ اس کے بغیر شہبازشریف بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہبازشریف بھی پیپلز پارٹی کی طرح موجودہ سیاسی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ فوری طور پر کسی بھی بڑی سیاسی مہم جوئی یا حکومتی تبدیلی سے ان کو کچھ نہیں مل سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف نے خود کو پی ڈی ایم کی عملی سیاست سے علیحدہ رکھا ہوا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا شہبازشریف کارڈ اُن کو اور اُن کی جماعت کو فوری طور پر اقتدار (باقی صفحہ 41پر)
کی سیاست میں بڑا فائدہ دے سکے گا؟ فوری طور پر اس کے امکانات کم ہیں، اور اس کا انحصار مسلم لیگ (ن) کی مجموعی سیاست پر ہے کہ وہ کیسے خود کو تضادات کی سیاست سے باہر نکالتی ہے۔ اس لیے شہبازشریف کے ضمانت پر باہر آنے کے بعد ان کے طرزعمل کو دیکھنا، پرکھنا اورسمجھنا ہوگا کہ اُن کی جیب میں کون سے کارڈ ہیں، اور ان کارڈز پر کیا وہ اپنے لیے، اور شریف خاندان سمیت پارٹی کے لیے کوئی بڑا سیاسی ریلیف حاصل کرسکیں گے؟ ، وہ کیسے خود کو نوازشریف یا مریم نواز کے سیاسی متبادل کے طور پر پیش کرسکتے ہیں، اورکیسے نوازشریف، مریم نواز اور ان کے حامی اُن کو ہی متبادل قیادت کے طورپر قبول کریں گے، یہی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔