بجٹ کی آمد اور تباہ حال معیشت

نئے پاکستان میں ان دنوں عجیب و غریب حالات و واقعات رونما ہوتے نظر آرہے ہیں، ملکی معیشت ہو یا روزگار… تعلیم ہو یاصحت، انصاف اور امن و امان… تمام شعبوں میں خوشنما حکومتی دعوے ہیں مگر کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ سرکاری سچ پر کان نہ دھریں تو ہر شے حالتِ نزع میں آخری سانسیں لیتی نظر آرہی ہے۔ کورونا کی حالیہ لہر میں حکومت کی بوکھلاہٹ اور نظام صحت کی ناکامی پر میڈیا بات نہ کرے تو بھی آوازِ خلق نقارئہ خدا بن کرحقیقت کھول کھول کر بیان کررہی ہے۔ نگاہِ بینا سے جانچنے کی کوشش کی جائے تو عام پاکستانی کو ان دِگرگوں حالات تک جس طبقے نے پہنچایا ہے، وہ اشرافیہ ہے جو ملکی وسائل و ذرائع کے تمام سرچشموں پر قابض ہے۔ چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ جو بیوروکریسی، پولیس، سیاست دانوں اور بعض دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل ہے، کے لیے یہ ملک جنت سے کم نہیں۔ پاکستان میں آبادی کی اکثریت اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، یہ طبقہ جو کماتا ہے وہ بھاری یوٹیلٹی بلز اور ان کے ذریعے مسلط بے شمار قسم کے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کرا دیتا ہے۔ تحریک انصاف نے بہت دعوے کیے تھے مگر آج تین سال کی میزان بتارہی ہے کہ حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے باعث پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکومتی کنٹرول سے آزاد کرنے جیسے اقدامات نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اسٹیل مل سمیت کئی سرکاری ادارے، موٹر وے اور کئی اہم شاہراہیں، حتیٰ کہ ائیرپورٹس تک گروی رکھے جاچکے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں کی روش نے ملکی معیشت کا بھرم کھول کر رکھ دیاہے، عام آدمی کے لیے جینا اور مرنا بھی مشکل ہورہا ہے، مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ جب یہ شمارہ قاری کے ہاتھ میں ہوگا تو اگلے روز ملک میں مزدور ڈے منایا جائے گا، ملک کے مزدور کی حالت یہ ہے کہ تن ڈھانپنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں بچا، اور سفید پوش طبقہ غربت اور افلاس کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ تین سال میں اسے پارلیمنٹ سے کوئی ڈھنگ کا وزیرِ خزانہ یا مشیر خزانہ نہیں ملا۔ جس حکومت میں تین سال میں تین چار بار وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات اور وزیر خزانہ تبدیل ہورہے ہوں، اور پنجاب میں چیف سیکرٹری سمیت بے شمار افسر عہدے کا چارج سنبھال کر پہلا سانس بھی نہ لے پائیں اور تبدیل کردیے جائیں، اس حکومت سے بہتری اور پالیسی کو مستحکم کرنے کی توقع کرنا عبث ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے لیے سی پیک ایک شاندار منصوبہ تھا، مگر یہ انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی کے پیچھے جہاں بھاری بھرکم ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی غیر معمولی گراوٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
گزشتہ ہفتے قومی اقتصادی مشاورتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہ ڈالنے کی ہدایت فرمائی کہ مزید ٹیکس لگانے کے بجائے ریلیف کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ تین سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وزیراعظم نے غریبوں کے لیے اصل فورم پر بات کی۔ امکان ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کو بھی ریلیف ملے گا۔ آنے والے بجٹ کی تزویراتی دستاویزات کی منظوری دی جا چکی ہے۔ بجٹ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ریلیف بہت معمولی ہوگا، کیونکہ حکومت کے بڑے اخراجات غیر ملکی قرضے اور ان پر سود کی واپسی ہے۔ وزیراعظم متعدد بار یہ بات کرچکے ہیں کہ مافیا کی وجہ سے حکومت آگے نہیں بڑھ رہی، مگر دوسری جانب تعمیراتی شعبے کے مافیا کو ریلیف بھی دے رہی ہے۔ یہ شعبہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس سے ملک کی چالیس دیگر صنعتیں وابستہ ہیں، جب کہ حقائق یہ ہیں کہ زراعت اس سے زیادہ اہمیت کا حامل شعبہ ہے جسے مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ زراعت کی ایک فصل کپاس سے ملک کی کپڑے، دھاگے، گارمنٹس سمیت ستّر سے زائد صنعتیں کام کرتی ہیں۔ تعمیراتی شعبہ تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، اس کا منافع تو مافیا کی جیب میں جاتا ہے، جبکہ زراعت سے کھیت سے منڈی تک کی ہر صنعت حرکت میں آتی ہے۔ مگر کڑا سچ یہ ہے کہ زراعت میں بھی ایک مافیا ہے جو صرف بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کے لیے کام کرتا ہے، اور اس نے ابھی حال ہی میں فوڈ سیکورٹی کے وفاقی وزیر فخر امام کو وزارت سے بے دخل کرانے کے لیے بھرپور وار کیا اور وزیراعظم فخر امام کی وزارت تبدیل کرنے پر آمادہ بھی دکھائی دیے، مگر بعد میں اپنا فیصلہ خود ہی تبدیل کرلیا، یوں اس مافیا کا وار ناکام ہوگیا۔ جس حکومت میں اس قدر کھینچا تانی ہو وہاں ان حالات میں بے روزگاری اور غربت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ پالیسیوں اور فیصلوں میں عدم استحکام کے باعث ہی ملک میں تیل کا بحران کھڑا ہوا تھا، قومی خزانے کو ہوش رُبا مالی نقصان پہنچانے کا باعث بننے والے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم اور سیکرٹری پیٹرولیم اگرچہ عہدوں سے الگ کیے گئے ہیں مگر اس نااہلی اور بددیانتی کی سزا کسے ملی؟ دو کمپنیوں PPL اور OGDCLکاآڈٹ کرایا جائے تو خوفناک حقائق مل سکتے ہیں۔ ان دونوں اداروں میں من پسند افراد کی تعیناتی معمول ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن کی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے چار لاکھ روپے تک ہر میٹنگ کے لیے ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ رقم بلا امتیاز سب ڈائریکٹروں کو ادا کی جاتی ہے۔ ہر کمپنی ایک ماہ میں ایک بورڈ میٹنگ اور دو سب کمیٹی میٹنگ رکھتی ہے۔ اس طرح پیٹرولیم ڈویژن کے آفیسرز سرکاری سرمائے میں سے کم و بیش ایک کروڑ روپیہ اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جاتے ہیں۔ یہ رقم تنخواہ اور مراعات کے علاوہ ہے جو انہیں ملتی ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کے زیرانتظام و انصرام اور زیرِ کنٹرول کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر پیٹرولیم ڈویژن کے افسران کی تعیناتی میں بنیادی نقص مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔ سیکرٹری پیٹرولیم بہ لحاظِ عہدہ PARCOکا کنٹرولر اور منتظم بھی ہے اور وہ PARCO کا چیئرمین بھی ہے۔ تیل کے حالیہ بحران میں پیٹرولیم ڈویژن نے تمام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور PARCO کو صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھیرایا اور ان پر جرمانے بھی عائد کیے۔ سیکرٹری پیٹرولیم نے اس کمپنی پر جرمانہ عائد کردیا جس کے کہ وہ خود ہی چیئرمین بھی ہیں۔ صورتِ حال کی اصلاح کے لیے محض معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم اور سیکرٹری پیٹرولیم کی ان کے عہدوں سے برخواستگی اور برطرفی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن کے اُن تمام افسروں کو، جو پیٹرولیم ڈویژن کی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر تعینات ہیں اُن کی ذمہ داریوں سے الگ کردیا جائے اور جائزہ لیا جائے کہ سیکرٹری پیٹرولیم کی تعیناتی کے آغاز سے لے کر اختتام تک کے عرصے میں گردشی قرضے کی کیا صورتِ حال رہی؟ accounted For Gas un کا کتنانقصان ہوا، پروڈکشن آف آئل کی یومیہ پیداوار کی کیا صورت حال رہی، پیٹرولیم اسٹوریج کے لیے کوئی کام ہوا یا نہیں؟ PPL میں جون 2018ء سے لے کر اب تک کوئی مستقل ایم ڈی نہیں ہے، عارضی تعیناتی ہے۔ جب کہ SECP رولز کے مطابق ایسی اسامی تین ماہ سے زیادہ خالی نہیں رکھی جا سکتی۔ لیکن یہ اسامی تین سال سے پُر نہیں ہوئی، یہی سب سوالات برطرف معاونِ خصوصی برائے پیٹرولیم سے بھی پوچھے جائیں۔ اب حکومت نے ایک اور غلطی کی ہے کہ صوبائی حکومتوں کی نمائندگی کے بغیر تیل و گیس کی تلاش کے 6 بلاکس کمپنیوں کو دے دیے ہیں، یہ6 بلاکس سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی نمائندگی کے بغیر دیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی نمائندگی کے بغیر بلاکس دینے کا وفاقی حکومت کا اقدام آئین میں دی گئی رہنمائی کے برعکس ہے۔ یوں وفاقی حکومت این ایف سی پر عمل نہ کرکے صوبوں کو ان کے حقوق سے محروم کررہی ہے، بلکہ آئندہ بجٹ ایک ایسے این ایف سی ایوراڈ کے تحت دیا جائے گا جو 11 سال پرانا ہے۔