زیر تبصرہ کتاب دراصل ایک شاہکار ہے اور اپنی نوعیت کی ایک ایسی شاندار، بہترین، منفرد اور پُراز معلومات کتاب ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ صوری اور معنوی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ اس بے مثال کتاب کی اشاعت پر ڈائریکٹر مہران اکیڈمی پروفیسر قمر میمن ہر لحاظ سے بجاطور پر شکریے، تحسین اور تبریک کے سزاوار ٹھیرتے ہیں۔ یہ کتاب درحقیقت آٹھ برس کی محنتِ شاقہ کا ایک بیش بہا اور شیریں ثمر ہے، جس کے باعث اعلیٰ لوازمے پر مبنی یہ کتاب منصۂ شہود پر آسکی ہے، اور اب صاحبِ ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے پیش خدمت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالشہید نعمانی زیر تبصرہ کتاب میں شامل کردہ تحقیقی جائزے میں راقم طراز ہیں:
’’چودہویں صدی کے اختتام اور پندرہویں صدی کے آغاز پر پورے عالم اسلام میں تقریبات کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوا۔ ان تقریبات کی مناسبت سے بعض اہلِ علم و دانش نے ایک مستحسن فیصلہ یہ کیا کہ اس موقع کو مسلمانوں کے تاریخی، تمدنی، ثقافتی اور علمی ورثے کے احیا کے لیے استعمال کیا جائے، اور قدماء کی اہم تالیفات کو بلند پایہ محققین کی تحقیق و تعلیق کے ساتھ شائع کیا جائے۔ ریاض سعودی عرب کے ’’مکتب التربیتہ العربی لدول الخلیج‘‘ نے بھی اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مغازی کے موضوع پر جلیل القدر تابعی حضرت عروہ بن زبیر کی کتاب ’’مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعروۃ بن الزبیر بروایہ ابی الاسود عنہ‘‘ کی اشاعت کا فیصلہ کیا۔ اس کتاب کا شمار سیرت و مغازی کی اوّلین کتابوں میں ہے، اور اس اہم علمی خدمت کے لیے ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی کا انتخاب کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت محنت، توجہ اور انتہائی عرق ریزی کے ساتھ حضرت عروہ بن الزبیر کی روایت کردہ سیرت و مغازی کے موضوع پر روایات کی جمع و تدوین کا اہتمام کیا، البتہ حضرت عروہ بن الزبیر کے دیگر شاگردوں کی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے ایک نمایاں شاگرد امام محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل بن الاسود المدنی جو ’’یتیم الاسود‘‘ کے لقب سے معروف ہیں، کی روایات پر اکتفا کیا اور نہایت محنت سے تحقیق و تعلیق اور جمع و تدوین کے بعد اس پر فاضلانہ مقدمہ تحریر کیا، جس میں سیرت و مغازی کے ابتدائی اور ارتقائی منازل پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت عروہ بن الزبیر اور ’’ابولاسود یتیم عروہ‘‘ کے مفصل حالات بھی تحریر کیے۔
عربی میں کتاب ہذا کے مؤلف، محقق اور مرتب ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی کا شمار عالم اسلام کے ممتاز اور نامور محققین میں ہوتا ہے۔ ’’جامعتہ الریاض‘‘ سعودی عرب میں حدیث کے استاذ کی حیثیت سے آپ نے ایک طویل عرصے تک خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ کی تصنیفات کی ایک طویل فہرست ہے۔ سنتِ نبویہ کے میدان میں آپ کی تحقیقی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو ’’جائزۃ الملک فیصل العالمیہ‘‘ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
سیرت النبیؐ کے بارے میں دستیاب اس پہلی کتاب کے بزبانِ سندھی مترجم اور شارح سندھ کے نامور عالم، ادیب اور لطیفؒ شناس جناب پروفیسر اسرار احمد علوی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، جنہوں نے اس کتاب کی وقعت اور اہمیت کے پیش نظر کتاب کا نہ صرف سندھی زبان میں رواں دواں اور بامحاورہ ترجمہ کیا ہے بلکہ حسبِ ضرورت و مواقع تحقیقی و تفصیلی حواشی بھی تحریر کیے ہیں، جس کی وجہ سے ترجمے میں سچ مچ چار چاند لگ گئے ہیں۔
یہ کتاب کُل تین ابواب پر مشتمل ہے، اور ہر باب کے بہت سارے ذیلی عناوین بھی الگ سے باندھے گئے ہیں۔ سندھ کے نامور اور یگانۂ روزگار علمائے دین فقیر مفتی محمد رحیم سکندری، ڈاکٹر محمد ادریس السندی، پروفیسر ڈاکٹر عبدالشہید نعمانی (بزبانِ اردو)، پروفیسر ڈاکٹر ثنا اللہ بھٹو اور پروفیسر اسرار احمد علوی نے کتاب ہذا کے بارے میں جو وقیع اور گراں قدر تحقیقی مقالہ جات قلم بند کیے ہیں ان کے مطالعے سے قارئین ازخود بھی اس کتاب کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ بہ خوبی کرسکیں گے۔ ان تحقیقی مقالوں کے پڑھنے سے علم و آگہی اور عرفان کے نئے در وا ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ کے مصداق قارئین کی علمی اور تحقیقی ضرورت کے پیش نظر شرح کی فہرست بھی کتاب کے آخر میں دی گئی ہے، نیز اصحابِ بدر کے اسمائے مقدسہ کی فہرست بہ اعتبارِ حروفِ تہجی بھی شامل ہے۔ یقینِ واثق ہے کہ اِن شا اللہ یہ کتاب سندھی زبان میں سیرت النبیؐ کے عنوان پر ایک یادگار، بے مثال اور شاہکار کتاب ثابت ہوگی۔