ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی شخصیت و خدمات

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے یہ کتاب اپنے محبوب استاد جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی حفظہ اللہ کی خدمت میں محبت اور عقیدت کے ساتھ پیش کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اچھے استاد کا اچھا شاگرد کیسا ہونا چاہیے۔ جہاں تک ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تعلق ہے وہ ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے اللہ کی رحمت ہیں۔ وہ قومیں خوش قسمت ہوتی ہیں جن میں اللہ پاک ایسی نابغۂ روزگار شخصیات پیدا کرتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مجھے پسند ہیں، اور اس لیے پسند ہیں کہ وہ دن رات انہماک کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں اور علم و ادب کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ از سرتاپا علم و عمل کے آدمی ہیں۔ نہایت شریف النفس، وقت کے پابند اور روادار۔ رکھ رکھائو کے ساتھ بامقصد زندگی بسر کرنے کا بھی سلیقہ رکھتے ہیں اور اس لیے آج وہ سب کے محترم ہیں۔ ان کا طرزِعمل اور سوچنے کا انداز مثبت ہے اور اس زمانے میں یہ ایک ایسی چیز ہے جو کم یاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہے‘‘۔
مولانا ماہر القادری کی وقیع رائے ہے:
’’جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی انشا پردازی اصلاح و اخلاق کے دائرے میں گردش کرتی ہے۔ مقصود ملک و ملت اور خاص طور پر نئی نسل کی صحیح تربیت اور اصلاح و تعمیر ہے، یہ ان کی خیر پسندی اور سعادت کی دلیل ہے‘‘۔
’’میرے پیارے استادِ محترم‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سکندر حیات میکن تحریر فرماتے ہیں:
’’دنیا میں سب استاد محترم ہیں مگر پیارے، مخلص، عظیم انسان اور مشفق استاد کے مرتبے پر پہنچنے والے اساتذہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرے پیارے بھی ہیں اور محترم بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سب کے محترم ہیں۔ انہوں نے اپنا مقام اپنے کردار و علم و عمل سے منوایا ہے۔ ادب، اخلاق اور مروت کا پیکر یہ عظیم انسان (پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) عہدِ حاضر میں ہمارے لیے غنیمت ہے۔ وہ مردم بیزاری میں مردم شناسی کی ایک اہم علامت ہیں۔ پاکستان میں کھلنے والا یہ حسین پھول اپنی خوشبو سے پورے دیار کو معطر کرچکا ہے۔ اپنے سینے پر سبز پاکستانی پرچم سجائے، بندۂ مومن کی طرح ہردم متحرک، شاہین کی طرح پُرعزم، سخن دلنواز، نگہ بلند، سحر انگیزی اور ولولہ انگیزی سے راہِ زیست پر گامزن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہمارے لیے جدوجہد اور تحرک کی روشن مثال ہیں۔
آج مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ مجھے قلم پکڑنا ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے سکھایا ہے اور لکھنے لکھانے کی الف، ب سے بھی میری جانکاری انہی کی مرہونِ منت ہے۔ ہاشمی صاحب کا شمار اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جن پر شاگرد فخر کرتے ہیں۔ ان تلامذہ میں سے ایک نالائق شاگرد میں بھی ہوں۔ ہاں! مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میرا فخر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ظہور احمد، ڈاکٹر خالد ندیم، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اور ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا شمار بھی انہی تلامذہ میں ہوتا ہے جو اپنے استادِ محترم پر فخر کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنے استادِ محترم کے حضور کتابی صورت میں اپنا خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے جو تدوینی و ترتیبی صورت میں ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پر یہ پہلی باقاعدہ تصنیف ہے جس میں کسی ایک مصنف کی تحاریر شامل ہیں۔
اس کتاب ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: شخصیت و خدمات‘‘ کا خیال بہت سال پہلے آیا تھا جب میں نے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی مرتبہ ’’سوانح و کتابیات: رفیع الدین ہاشمی‘‘ کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ہاشمی کے بہت سے تخلیقی وعلمی کاموں کی طرف اشارہ تھا جو انہوں نے زمانۂ طالب علمی اور زمانۂ ملازمت کے ابتدائی ایام میں تخلیق کیے اور بعدازاں اپنی تحقیق و تنقید کا رخ اقبالیاتی ادب کی طرف موڑ لیا تھا۔
میری اس کتاب کی تخلیق کا مقصد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ایسے تخلیقی پہلوئوں کو روشناس کروانا ہے جو اس سے قبل قارئین کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ آج ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا معتبر حوالہ اقبال شناس کے طور پر ہے، لیکن اس کتاب میں پہلی مرتبہ اُن کو بطور افسانہ نگار، بطور انشائیہ نگار، بطور کالم نگار، بطور ممتحن متعارف کرایا جارہاہے۔ اسی طرح ان کی تخلیقی و علمی نثر بالخصوص سفرنامہ نگاری، مکتوب نگاری اور مکاتیب سے متعلق چند مطبوعہ کتب کے بارے میں مضامین سے بھی آگاہی حاصل ہوگی۔
’’اقبالیاتی ادب کا روشن ستارا‘‘ (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) کے عنوان سے بھی ایک مضمون شامل کیا گیا ہے اور اقبالیاتی ادب سے متعلق ان کی چار اہم تصانیف پر بھی تبصرہ پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کتاب کا مقصد ڈاکٹر ہاشمی کے دیگر پہلوئوں کو متعارف کرانا تھا جو ابھی تک مخفی تھے۔ اس کتاب کے ذریعے قارئین ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تخلیقی جہات کا ایک نیا روپ دیکھ سکیں گے۔
محبت اور عقیدت سے ’’شجرِسایہ دار: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ایک خاکہ بھی شامل ہے۔ یہ عنوان استادِ محترم کی شخصیت کے لیے سو فیصد موزوں ہے۔ میں نے ہمیشہ ان کے پاس پہنچ کر یہی کیفیت محسوس کی ہے جس طرح صحرا کی کڑی دھوپ میں چلتا ہوا مسافر جب کسی چھتنار درخت کے نیچے پہنچ کر راحت محسوس کرتا ہے، اسی طرح میں نے ہمیشہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ہاں پہنچ کر طمانیت محسوس کی ہے۔ وہ ہمیشہ ایک سائبان کی طرح ثابت ہوئے ہیں۔ وہ میرے مشفق، مربی اور پیارے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ میرے مرشد بھی ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ مثبت اور سیدھی راہوں کا سبق ازبر کرایا ہے۔
یہ کتاب دراصل ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے روپ میں اپنے استادِ محترم کو ایک نذرانہ ہے جو محبت و عقیدت کے جذبات میں گوندھ کر ایک شاگرد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے۔ ایک مشفق و مخلص استاد ہی اس کا سب سے بہتر استحقاق رکھتا ہے۔
’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: شخصیت و خدمات‘‘ دراصل ہاشمی صاحب کی علمی و تخلیقی نثر کا تعارف ہے جس میں ان کا کوائف نامہ اور بطور مشفق و مخلص استاد، بطور افسانہ نگار، بطور انشائیہ نگار، بطور مکتوب نگار، بطور سفرنامہ نگار، بطور ممتحن، بطور کالم نگار شامل ہیں۔ اس سے قبل ادبی دنیا ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو اقبال شناس کے حوالے سے جانتی تھی، مگر یہ کتاب ان کی ہشت پہلو ادبی شخصیت کا بھرپور اظہار ہے۔ ان مضامین سے ڈاکٹر ہاشمی کی تخلیقی جہتوں کے نئے زاویوں سے قارئین کو شناسائی ہوگی۔
ڈاکٹر ہاشمی سے متعلق اس سے قبل لکھی جانے والی تصانیف پر بھی فرداً فرداً روشنی ڈالی گئی ہے‘‘۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل ’’نابغۂ وقت‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:
’’ہر عہد اور ہر معاشرے میں کچھ نابغے بھی ضرور پیدا ہوتے ہیں جو اپنے اثرات سے اپنے معاشرے کی ایک جانب شناخت بنتے یا نمائندگی کرتے ہیں اور دوسری جانب اپنے معاشرے پر اپنے احساسات اور جذبات کے زیراثر اپنے شخصی و فکری اثرات بھی مرتسم کرتے ہیں۔ ایسے ہی نابغوں میں ایک نابغہ ہمارے عہد میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی ہیں، جن کا شعبۂ فضیلت و شہرت اگرچہ بنیادی طور پر اردو زبان و ادب کی تدریس ہے، لیکن دراصل ان کا امتیاز علم و ادب میں تصنیف و تحقیق ہے۔
بظاہر ڈاکٹر صاحب کی شناخت اور شہرت ’’اقبالیات‘‘ میں ان کی مثالی دلچسپی و خدمات کے سبب ہے، لیکن زبان و ادب اور ان کے مسائل و میلانات اور ان کا ارتقا و تاریخ… یہ سب بطور دلچسپی اور پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے ان کے مطالعات کے بنیادی موضوعات اور ان کے محرکات و نتائج بھی رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلام اور تحریک اسلامی کا مطالعہ بھی ان کے مخصوص دائرہ ذوق و شوق میں شامل رہا ہے۔ یوں گویا ان کی ساری زندگی تدریس اور مطالعہ و تحقیق میں اور علمی و تصنیفی اور تدریسی و تحقیقی اداروں سے وابستگی اور ان اداروں کے مقاصد کی ترویج و تکمیل میں گزری ہے، جو واقعتا ’’شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم‘‘ کے مصداق ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔ لیکن ان اعزازات اور حاصلات کے باوجود ڈاکٹر صاحب پر ان کی شخصی و فطری شائستگی اس حد تک حاوی ہے کہ وہ انہیں ان کی دلچسپی و پیشہ ورانہ وابستگی کے اداروں میں والہانہ ادائیگیِ فرائض کے باوجود بڑی حد تک گوشہ نشینی میں لے گئی ہے، جس کا ایک بے حد مثبت نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے بالخصوص ’’اقبالیات‘‘ میں ایسے ایسے بڑے کام انجام دیئے ہیں جو حوالہ جاتی نوعیت و اہمیت کے ہیں اور اب جن سے استفادہ کیے بغیر تحقیقی نوعیت و مزاج کا کوئی کام شاید ’’اقبالیات‘‘ میں انجام نہ دیا جاسکے۔
موضوعاتِ دلچسپی اور نقد و مطالعات میں علمی و ادبی اور مذہبی عنوانات شامل ہیں، لیکن حاوی موضوع ’’اقبالیات‘‘ ہی ہے، اور بلاشبہ، انتہائی نامور اور ممتاز و معروف ماہرینِ ’’اقبالیات‘‘ کے مقابلے میں بھی، ڈاکٹر صاحب کے کام ایسے ہیں جو کسی اور کی توجہ اور دلچسپی میں اس حد تک تخصیص حاصل نہ کرسکے کہ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کسی اور کا حوالہ دیا جاسکے یا مماثلت قائم کی جاسکے ۔ ’’اقبالیات‘‘ اور اس کے علاوہ جن دیگر موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے مطالعہ و نقد میں دلچسپی لی اور جس جس سطح کے کام کیے ہیں، زیر نظر مطالعے میں انہیں تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی گل افشانی درج ذیل ہے:
’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہمارے عہد کی ایک نہایت ہی باوقار علمی، ادبی اور تہذیبی شخصیت کا نام ہے۔ ان کی ذاتی زندگی ایسے اجلے اور پاکیزہ رویوں سے عبارت ہے کہ کم ہی لوگ اس معیار پر پورا اترتے ہوں گے۔ وہ سچے اور سُچے انسانی جذبوں کے علَم بردار بھی ہیں اور ان پر عمل پیرا بھی۔ ان کی شخصیت کے تمام تر جمالیاتی رنگ ان کے اخلاق اور کردار سے پھوٹے ہیں۔ ایک فرد کی حیثیت سے ان کی ذاتِ گرامی خیر اور برکت کی ایک عمدہ اور نادر مثال ہے۔ ان کا وجودِ مسعود اپنے قریب اور آس پاس بسنے والوں کے لیے رحمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ ان کی ذاتی زندگی سادگی اور سلامت روی سے عبارت ہے۔ انہیں تصنع اور بناوٹ سے کچھ علاقہ نہیں۔ وہ توکل اور قناعت کی دولت سے بہرہ مند ہیں۔ درویشی اور فقر ان کی زندگی کا وقار بھی ہے اور معیار بھی۔ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل بھی ہیں اور ان پر عامل بھی۔ صداقتِ اظہار ان کی زندگی کا طرۂ امتیاز بھی ہے اور ان کے شخصی رویوں کا آئینہ دار بھی۔ وہ اسلامی روایت اور تہذیب کے علَم بردار ہیں اور اس کے فکر و فرہنگ کے ترجمان بھی۔ زندگی کی ساری خوش رنگ اقدار ان کے حسنِ عمل میں ڈھل کر ان کی باوقار اور بابرکت شخصیت کا اظہاریہ بن گئی ہیں۔ وہ عملاً صوفی ہیں۔ اپنی خانقاہ کے کسی حجرے میں چلہ کش اور علم و عرفان کے ریاض میں مگن۔ صوفیانہ طرزِ احساس کی جمالیات کے ترجمان اور اسی حسنِ اظہار کے رنگوں سے مزین۔
ان کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوب صورت ہے!
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے معاصرین کی ان کے متعلق آرا کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ہمارے ملک کے اُن ممتاز مصنّفین اور اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، جنہیں علمی لگن کی نادر مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ اللہ والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اپنی ایک سانس کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔ ان کی ہر سانس کی آمدوشد اسی ذاتِ بابرکات کے پُرجلال نام کے ورد سے عبارت ہوتی ہے، اس کا نام پاسِ انفاس ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے علم اور تحقیق کے میدان میں انہی صوفیہ کی سی خُوبُو پائی ہے‘‘۔
جناب شفیع عقیل کی رائے ہے:
’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پاکستان کی معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں، جن کی تصانیف کی طویل فہرست ہے اور آپ کا خاص موضوع اقبالیات ہے، چوں کہ ان کا شعبہ تحقیق و تلاش ہے، اس لیے ان کا دیگر محققین سے بھی مکالمہ و مباحثہ جاری رہتا ہے، ان سے جن دانش وروں اور ادیبوں کی خط کتابت رہی ہے اور ہے اس میں بھی علمی و ادبی مسائل پر اظہارِ خیال ہوتا ہے‘‘۔
پروفیسر جگن ناتھ آزاد… مقبوضہ جموں کشمیر:
’’ہاشمی صاحب بطور انسان انتہائی شریف النفس، ہمدرد، ہر ایک کی مدد کرنے والے، کتابوں کا مطالعہ گہرائی کے ساتھ کرنے والے۔ میرا خیال ہے سارا وقت پڑھانے کے علاوہ پڑھنے اور لکھنے میں گزارا ہے‘‘۔
پروفیسر عبدالحق (دہلی) رقم طراز ہیں:
’’پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دانائے اقبال ہیں، وہ اقبالیاتی ادب کے رازدانوں کے درمیان ایک امتیاز کے مالک ہی نہیں اقبال کے احوال و مقام کے نگہ دار بھی ہیں۔ اقبال فکر و دانش کے ساتھ ساتھ سخن وری کے سالار ہیں اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قافلۂ اقبال کے حدی خواں۔ اقبال ملی نشاۃ ثانیہ کے نغمہ نوبہار تھے۔ ڈاکٹر ہاشمی تفہیم اقبال کے رہبرِ فرزانہ کی بلندی و بزرگی پر فائز ہیں‘‘۔
پروفیسر سویامانے یاسر (جاپان) تحریر فرماتے ہیں:
’’ہاشمی کی یادداشت حیران کن ہے۔ مگر اس کمال کے پس پردہ، صرف قدرت کی فیاضی ہی نہیں، ہاشمی صاحب کی محنت کو بھی دخل ہے، ہاشمی صاحب ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر رفیع الدین ایسے عالم و فاضل کی اولادِ نرینہ میں دو بیٹے ہیں، ایک جہادِ افغانستان میں شہید ہوکر جنت کو سدھارے، دوسرے سات آٹھ مہینے پہلے اٹھا لیے گئے، اب تک مفقود الخبر ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے قارئین سے دعا کی درخواست ہے۔
کتاب خوب صورت طبع کی گئی ہے، رنگین سرورق سے مزین ہے، مجلّد ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لیے ایک نظم
…ارشد محمودناشاد…
پیکرِ صدق و صفا منبع الطاف و کرم
چشمۂ فیض و عطا، وارثِ قرطاس و قلم
تجھ سے قائم ہے مرے عہد میں دانش کا وجود
تجھ سے باقی ہے مرے عہد میں حکمت کا بھرم
بے امانوں کے لیے تُو ہے حصارِ شفقت
خستہ حالوں کے لیے تُو ہے نوید ِ مرہم
تجھ سے درماندہ مسافر کو ملا ذوقِ سفر
تُو نے بھٹکے ہوئے آہو کو دکھایا ہے حرم
تُو کڑی دھوپ میں چھتنار شجر کی صورت
جس کے سائے میں ہوا میرا زمانہ خوش دم
عجز ملبوس ترا، صدق ہے دستار تری
تیرا کردار ترا طرزِ عمل ہے ریشم
فکرِ اقبال کی توضیح وظیفہ ہے ترا
موجۂ آبِ رواں ہے ترا رہوارِ قلم