موسمی تبدیلی کے بارے میں یہ دو ہندسے ہیں، تمہیں جنہیں جان لینا چاہیے۔ پہلا 51 ارب ہے۔ دوسرا 0 ہے۔ اکاون ارب ٹن گرین ہاؤسز گیس ہر سال ماحولیات کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ یہ شرح سال بہ سال کم زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن عام طور پر اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ ہے موجود صورت حال، کہ جس میں ہم گھرے ہوئے ہیں۔
صفر وہ ہدف ہے جسے ہمیں حاصل کرنا ہے۔ حدت کے خاتمے اور ماحولیات کی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے انسانوں کوگرین ہاؤسزگیس کا راستہ روکنا ہوگا، آب و ہوا کوکاربن گیسز سے پاک کرنا ہوگا۔
یہ مشکل لگتا ہے، کیونکہ یہ مشکل ہی ہوگا۔ دنیا نے اس ضمن میں اس سے پہلے اتنا بڑا کام کبھی نہیں کیا۔ ہر ملک کے لیے ضروری ہوگا کہ اپنے اطوار بدلے۔ درحقیقت تمدنِ جدید کی ہر ہر سرگرمی بدل کر رہ جائے گی… اشیاء کی پیداوار، اشیاء کی تیاری، جگہ جگہ گرین ہاؤسز گیس کا گھٹاؤ… اور جوں جوں وقت گزرے گا، لوگ اس نئی طرزِ زندگی کے عادی ہوجائیں گے۔ یہ بہت اچھا ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی زندگی بہتر ہوجائے گی۔ لیکن اگر کچھ بھی نہ بدلا تو گرین ہاؤسزگیس کا اخراج ہوتا رہے گا، آب و ہوا بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی، اور انسان بدترین تباہی سے دوچار ہوجائیں گے۔
لیکن ’’اگر کچھ نہیں بدلا؟‘‘ یہ ایک بہت بڑا ’’اگر‘‘ ہے۔ مجھے یقین ہے چیزیں بدلی جاسکتی ہیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی سے کئی ایسے آلات موجود ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ دیگر کئی آلات کہ جن کی ہمیں ضرورت ہے، اُن کے بارے میں مَیں بہت کچھ سیکھ چکا ہوں۔ ماحولیات کے مطالعے اور تحقیق کے بعد میں کافی پُرامید ہوں، ہم اس معاملے میں ٹیکنالوجی سے بہت کچھ کام لے سکتے ہیں، نئی چیزیں بنا سکتے ہیں، نئی ایجادات کرسکتے ہیں۔ یہ کام جتنی تیزی سے ہوگا، بدلتے ماحول کی آفت سے بچ سکتے ہیں۔
دودہائی قبل کتاب لکھنا تودور کی بات، میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن موسمی تبدیلی پر لوگوں سے گفتگو کروں گا۔ میرا پس منظر سوفٹ وئیرمیں ہے۔ ماحولیاتی سائنس میرا موضوع ہی نہ تھا۔ میں اس جانب بالواسطہ طور پر اچانک آگیا ہوں۔ اس کا سبب’’توانائی کی غربت‘‘ کا مسئلہ بنا۔ دوہزار کی دہائی میں، کہ جب ہماری گیٹس فاؤنڈیشن کی شروعات ہوئی تھی، میں افریقی صحرائی اور جنوبی ایشیائی ملکوں کے سفر پر تھا، اس کا مقصد ان خطوں میں بچوں کی شرح اموات، ایچ آئی وی اور دیگر امراض کی صورتِ حال کا جائزہ لینا تھا۔
جب میں جہاز کی کھڑکی سے نیچے بڑے بڑے شہروں پر نظر ڈالتا تھا تو ہرطرف اندھیرا اور غربت دکھائی دیتی تھی۔ جب میں لاگوس نائیجریا میں اُترا تو ہرجانب گلی کوچوں میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، لوگ پرانے تیل کے پیپوں میں آگ جلاکر اردگرد بیٹھے تھے۔ دیہات میں میلنڈا اور میں ایسی خواتین سے ملے جو سارا دن لکڑیاں جمع کرنے میں گزارتی تھیں، تاکہ رات کا کھانا وغیرہ پکایا جاسکے۔ ہم بچوں سے ملے جو موم بتیوں کی روشنی میں اسکول کا ہوم ورک کررہے تھے، کیونکہ اُن کے گھروں میں بجلی موجود نہ تھی۔
میں نے یہ جانا کہ دنیا بھر کے ایک ارب انسان بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، اور ان کا نصف صحرائی افریقہ میں بستا ہے۔ مجھے اپنی فاؤنڈیشن کے اس اصول کا خیال آیا کہ ’’ہر کسی کوصحت مند اور خوشحال زندگی گزارنے کا حق ہے‘‘۔ لیکن کیسے صحت مند رہا جاسکتا ہے کہ جب میڈیکل اسٹور میں ویکسین ذخیرہ کرنے کے لیے ریفریجریٹر فعال نہ ہو؟ کہ جب تم مطالعہ کرو اور روشنی پاس نہ ہو تو زندگی کیسے نشوونما پاسکتی ہے؟ اور جب آپ کے کارخانوں، دفاتر، اور کال سینٹرز میں بجلی موجود نہ ہو تو کیسے معیشت مستحکم کی جاسکتی ہے؟ یہ ناممکن ہے!
اسی دوران آنجہانی سائنس دان ڈیوڈ میکے نے جوکیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر تھے، مجھ سے ایک ایسا گراف شیئر کیا جوآمدنی اور توانائی کے استعمال میں تعلق واضح کررہا تھا۔ ایک ملک میں فی فرد آمدن اور بجلی کی وہ مقدار، جو وہاں کے لوگ استعمال کرتے ہیں، اس گراف کی مدد سے سمجھ میں آرہی تھی۔ اس میں موجود چارٹ کا ایک حصہ ملکوں کی فی کس آمدنی پرمبنی تھا، جبکہ دوسرے حصے میں توانائی کا استعمال درج تھا، جو واضح کررہا تھا کہ دونوں کس طرح ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
جیسے جیسے میں معلومات میں ڈوبتا گیا، یہ خیال ابھرتا چلا گیا کہ توانائی کوکس طرح غریب آدمی کے لیے سستا اور معیاری بنایا جاسکتا ہے۔ مجھے یہ مسئلہ اپنی فاؤنڈیشن کی دسترس سے باہر محسوس ہوا، لیکن میں نے اپنے موجد دوستوں کے ساتھ مل کر نئے نئے خیالات پرکام شروع کردیا۔ اس موضوع پر مزید گہرائی سے مطالعہ شروع کردیا۔ معروف سائنس دان اور مؤرخ ویکلیو اسمل (Vaclav Smil)کی کئی کتابوں نے میری آنکھیں کھول دیں، مجھے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ تہذیبِ جدید کی بقا کے لیے توانائی کس قدر ضروری ہے۔
اُس وقت تک میں یہ بات نہیں سمجھا تھا کہ ہمیں ’’صفر‘‘ پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔ وہ امیر ممالک جوگیس اخراج کے سب سے زیادہ ذمے دار تھے، انہوں نے موسمی تبدیلی پرتوجہ دینی شروع کردی تھی، یہ میرے لیے کافی تھا۔ میرا یقین تھا کہ میرے لیے اتنا کافی ہوگا کہ توانائی کے پائیدار سستے ذرائع کی پیداوار میں ہر ممکن مدد کروں۔ کیونکہ غریبوں کے لیے سستی توانائی کا مطلب بہت کچھ تھا، اُن کی راتیں روشن ہوجاتیں، کھیتی باڑی آسان ہوجاتی، اور سیمنٹ سے مکان مضبوط ہوجاتے۔ اور جب بات موسمی تبدیلی کی آجائے تو سب سے زیادہ نقصان غریبوں کا ہی ہے۔ ان کی اکثریت کسانوں پر مشتمل ہے، جن کی زندگیاں پہلے ہی کنارے پر لگی ہیں، اور کسی طور قحط اور سیلاب برداشت نہیں کرسکتے۔
میرے لیے 2006ء میں چیزیں اُس وقت بدلیں، جب میری ملاقات مائیکروسوفٹ کے دو پرانے ساتھیوں سے ہوئی۔ وہ ماحولیات اور توانائی پر غیر منافع بخش پراجیکٹس شروع کررہے تھے۔ وہ اپنے ساتھ دو ماہرینِ موسمیات لائے تھے، یہ لوگ ان معاملات سے بخوبی واقف تھے۔ ان چاروں نے مجھے وہ ڈیٹا دکھایا جو موسمی تبدیلیوں اور گرین ہاؤسز گیسوں کے بارے میں تھا۔ میں جانتا تھا کہ گرین ہاؤسز گیسیں درجہ حرارت بڑھا رہی تھیں، مگر میرا خیال تھا کہ مختلف تبدیلیاں اور دیگر عوامل فطری طور پرموسمی تباہی میں مانع ہورہے ہیں۔ یہ قبول کرنا مشکل تھا کہ کاربن اخراج کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔ میں ان لوگوں کے پاس کئی بار گیا، اور بعد میں درپیش سوالوں کے جواب حاصل کیے۔ یہ معلوم ہوا کہ دنیا کو مزید توانائی کی ضرورت ہے تاکہ غربت کا خاتمہ ہو، لیکن یہ توانائی مزید کسی کاربن اخراج کے بغیر پیدا کرنی ہوگی۔ اس نکتے پر پہنچ کر یہ مسئلہ اور بھی مشکل لگنے لگا۔
کیونکہ معیاری اور پائیدار توانائی کی پیداوار ہی ممکن نہیں بنانی، بلکہ اسے آلودگی سے پاک بھی بنانا ہے۔
موسمی تبدیلیوں کے بارے میں جو کچھ میں جان سکتا تھا، میں نے اُس کی تحصیل جاری رکھی۔ میں ماحولیات، زراعت، سمندروں، گلیشیئرز، اور توانائی کے ماہرین سے ملاقاتیں کرتا رہا۔ میں نے اس موضوع پر IPCCکی رپورٹوں کا مطالعہ بھی کیا۔ میں نے Earth Changing Climateپر لیکچرز کی پوری سیریز دیکھی، پروفیسر رچرڈ وولفسن سے مسلسل فیض حاصل کرتا رہا، اور بہت کچھ سیکھا۔
میں نے موسم پرWeather for dummiesجیسی شاندار کتاب پڑھی۔ ایک بات جو مجھ پر واضح ہوئی، وہ یہ کہ توانائی کی ازسرنو پیداوار کے موجودہ ذرائع… ہوا اور سورج کی روشنی ہمارے مسائل حل کرنے میں بڑے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں، مگرہم ان کے استعمال کے لیے کافی کچھ کوشش نہیں کررہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کیوں یہ سب کوششیں صفر تک لے جانے کے لیے کافی نہیں۔ ہوا ہمیشہ تیز نہیں چلتی اور نہ ہی سورج ہمیشہ تیز روشنی دیتا ہے۔ ہمارے پاس ایسی طاقت ور بیٹریاں بھی نہیں کہ شہر بھر کے لیے ہوا یا روشنی سے مطلوبہ توانائی کشید کرسکیں۔ اگر ہم بہت طاقت ور بیٹریاں بھی بنالیں، اور اُن سے بھرپور کام بھی لے لیں تو صرف 27 فیصد توانائی کی ضرورت شاید پوری کرسکیں، باقی 73فیصد توانائی کہاں سے آئے گی؟
چند برسوں میں، مَیں تین باتوں کا قائل ہوگیا:
1) موسمی تباہی سے بچنے کے لیے صفر کاربن تک پہنچنا ہوگا۔
2) ہمیں جلد از جلد مؤثر انداز میں ہوا اور روشنی جیسے ذرائع زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے ہوں گے۔
3) ہمیں ایسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، جو ہمیں ہماری منزل تک پہنچا سکے۔
صفرکا معاملہ ناگزیر ہے۔ جب تک ہم کاربن اخراج صفر نہیں کرتے، عالمی درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔ یہاں ایک تمثیل یہ سمجھنے میں مددگار ہوگی: موسم ایک باتھ ٹب کی مانند ہے جس میں پانی بھررہا ہے۔ خواہ ہم پانی کی رفتار قطرہ قطرہ بھی کردیں، ایک دن اُس ٹب کو بھر جانا ہے اور چھلک جانا ہے۔ موسمی تباہی بھی ایسی ہی ہے کہ جس سے بچاؤ ممکن نہیں، اِلاّ یہ کہ ہم پانی کوصفر پر لائیں۔ یہی وہ تباہی ہے ہمیں جسے روکنا ہے۔
جب میں نے یہ سب جان لیا، اُس وقت میں دیگر بہت سے کاموں میں مصروف رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے دیگر لوگوں نے بھی موسمی تبدیلی کا معاملہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔ اگرچہ میں اس معاملے میں زیادہ ہی دلچسپی لے رہا تھا، لیکن یہ میری اوّلین ترجیح نہ تھی۔ جب جتنا موقع ملا، اس بارے میں پڑھا اور ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔ چند ’’آلودگی سے پاک توانائی‘‘ کمپنیوں پر سرمایہ کاری کی۔ کئی سو ملین ڈالر سے ایسی کمپنی شروع کی جو اگلی نسل کے لیے ایسا نیوکلیئر پلانٹ ڈیزائن کرے، جو ’’صاف ستھری توانائی‘‘ پیدا کرے، اور بہت ہی کم نیوکلیئر فضلہ خارج کرے۔ تاہم میری زیادہ ترتوجہ گیٹس فاؤنڈیشن کے کاموں پر مرکوز رہی۔
تب، 2015 ء کے موسم بہار میں، مَیں نے فیصلہ کیا کہ مجھے مزید بہت کچھ کرنے اور کہنے کی ضرورت ہے۔ میں نے دنیا بھر میں اپنے سفرکو یاد کیا، مثال کے طور پر ہندوستان کا سفر کہ جس کی آبادی ایک اعشاریہ چار ارب کے لگ بھگ ہے، اور جہاں کے غریب دنیا کے غریب ترین لوگوں میں شامل ہیں، اور جن سے یہ کہنا مناسب نہ لگتا تھا کہ اُن کے بچے بجلی کی کمی کی وجہ سے پڑھ نہیں سکیں گے، اور ہیٹ ویوز سے مرجائیں گے، کیونکہ ائیرکنڈیشنرز ماحولیات کے لیے بُرے ہیں۔ واحد حل جو میں متصور کرسکتا تھا، وہ یہی ہے کہ ’’آلودگی سے پاک اور سستی توانائی‘‘ پیدا کی جائے تاکہ ہر ملک قدرتی ایندھن سے جان چھڑا سکے، اور صاف ستھری توانائی استعمال کرے۔
یہاں ایک اور حقیقت راہ میں حائل نظرآئی کہ بدلتے موسم کا رخ بدلنا تنہا ممکن نہیں۔ غریب ملکوں کی مدد بھی مشکل کام ہے۔ جب کہ سیاسی ادارے پر معاشی دباؤ بھی شدید ہوگا۔ دنیا کے ’’توانائی نظام‘‘ کو یکسر تبدیل کرنا بچوں کا کھیل نہ ہوگا۔ جدید معاشی نظام میں سے سالانہ پانچ کھرب ڈالر کا جھٹکا، کہ جو قدرتی ایندھن پیدا کرنے والی صنعت کے اسٹاک بیچنے سے لگے گا، آسان نہ ہوگا۔ میں اس صنعت کے اسٹاک نہیں لیتا کیونکہ میں صفر کاربن کے سفر پر ہوں، اور کسی طور اس میں اضافے کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ سال 2019ء میں، مَیں نے تیل اور گیس کی صنعت سے اپنی ساری سرمایہ کاری نکال لی تھی۔ یہ میرا ذاتی انتخاب ہے۔ ایسے فیصلے کی سہولت ہر کسی کو میسر نہیں۔ میری یہ کوشش کاربن اخراج کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتی۔ صفر تک کے سفر کے لیے بڑے پیمانے پرکوششیں درکار ہوں گی۔ حکومتوں کی پالیسیاں، جدید ٹیکنالوجی، نئی ایجادات، اور نجی منڈیوں کی وہ صلاحیت جو فوراً زیادہ سے زیادہ لوگوں تک انہیں منتقل کرسکے۔
تاہم صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی توانائی پر تحقیق میں سرمایہ کاری بہت کم ہے، یہ صحت اور دفاع جتنی اہم ہے مگراس کی فنڈنگ دونوں سے بہت کم ہے۔ گو کہ بہت سے ملکوں میں توانائی پر تحقیق کا دائرۂ کار بڑھایا جارہا ہے، مگر یہ بھی ابھی خاصا محدود ہے۔ یہ سب دراصل سرمایہ نہیں لگانا چاہتے، بلکہ چاہتے یہ ہیں کہ کسی نجی ادارے کی جانب سے ایسی ایجادات اور ٹیکنالوجی تیار کرلی جائے کہ معاملہ حل ہوجائے۔ مگر سال 2015ء تک ہوا یہ کہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری سرد پڑنے لگی۔ گرین ٹیکنالوجی سے پیسہ نکالا جانے لگا، کیونکہ زیادہ منافع ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ یہ لوگ بائیو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے عادی تھے، جہاں کامیابی تیزی سے قدم چومتی ہے، اور سرکاری قوانین کی بندشیں بھی زیادہ نہیں ہیں۔ جبکہ ’’صاف ستھری توانائی‘‘ پر سرمایہ کاری بے مصرف معلوم ہوتی تھی۔
واضح طورپر ہمیں ایسی ٹیکنالوجی اور طریقہ کار متعارف کروانا تھا، جوپُرکشش ہو۔ میں نے دو درجن سرمایہ کاروں کو ای میل کیں۔ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ توانائی پر تحقیق میں پیسہ لگائیں۔ یہ طویل عرصے پر محیط سرمایہ کاری ہوگی کیونکہ اس ’’توانائی‘‘ کی کامیابی میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ انہیں یہ طویل انتظاربرداشت کرنا ہوگا۔ اس بڑے کام میں ناکامی سے بچنے کے لیے میں نے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دینے کا عزم کیا، تاکہ وہ کمپنیوں کی رہنمائی کرسکیں کہ کس طرح توانائی کی صنعت میں پیش رفت کی جائے۔
مجھے سرمایہ کاروں کے ردعمل سے خوشی ہوئی۔پہلے سرمایہ کار نے چار گھنٹوں کے اندر ’’ہاں‘‘ کردی۔ دو ماہ کے اندر مزید چھبیس سرمایہ کار ہمارے ساتھ شامل ہوچکے تھے۔ ہم نے اس گروپ کو Breakthrough Energy Coalition کا نام دیا۔ آج اس تنظیم کے کئی پروگرام چل رہے ہیں، چالیس کمپنیوں میں نجی فنڈز کے ذریعے نئے آئیڈیاز فروغ دیے جارہے ہیں۔
کئی حکومتیں بھی اس کام میں آگے آگئیں۔ پیرس میں بیس ملکوں کے سربراہان جمع ہوئے، موسمی تبدیلی پر تحقیق کی فنڈنگ دگنی کردی گئی۔ 4,6 ارب ڈالر سالانہ فنڈنگ کا سلسلہ جار ی ہوا۔ چند ہی سال میں پچاس فیصد فنڈنگ میں اضافہ بڑی خوشی کی بات تھی۔ اس کام میں فرانس، امریکہ اور ہندوستان نے معاون کردار اد اکیا۔
سال 2020ء میں ایک نئے وائرس کووڈ19 نے ساری دنیا میں ہلچل مچادی۔ ہر وہ شخص جو وباؤں کی تاریخ سے واقف ہے، اُس کے لیے کووڈ 19 کے اثرات چونکا دینے والے نہ تھے۔ میں پہلے ہی اس بات پر گہرے دکھ میں رہا تھا کہ 1918ء میں جب فلو کی وبا پھیلی تھی، اسپین میں لاکھوں لوگ مرگئے تھے، اور کوئی کچھ نہ کرسکا تھا۔ 2015ء میں، مَیں نے کئی انٹرویوز میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے، جووباؤں کا راستہ پیشگی روک سکے۔ مگر بدقسمتی سے دنیا نے اس کے لیے کچھ نہ کیا۔ چنانچہ جب کورونا وبا پھیلی، بڑا جانی نقصان ہوا۔ وہ مالی و معاشی بحران آیا کہ کسی نے گریٹ ڈپریشن کے بعد دیکھا نہ تھا۔ اگرچہ ہم موسمی تبدیلی پر کام کررہے تھے مگر گیٹس فاؤنڈیشن کی اوّلین ترجیح اب کورونا وائرس کا ’’علاج ‘‘ ڈھونڈناتھا۔ نومبر 2020ء تک ہم نے اس بیماری سے لڑنے کے لیے 445ملین ڈالر اکٹھے کرلیے تھے۔
کورونا وبا سے از خود حالات یہ ہوئے کہ اُس سال کاربن کے اخراج میں پانچ فیصد کمی آئی۔ صنعتی سرگرمیوں اورکاربن کا اخراج 51 ارب سے 48 ارب ٹن گیس تک گھٹ گیا۔ یہ بڑی زبردست کمی تھی۔ اگر ہم اسے جاری رکھ سکیں توکیا ہی بات ہو! مگر ہم ایسا نہیں کرسکتے۔
سوچیے، اس پانچ فیصد کمی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ لاکھوں لوگ مرگئے۔ کروڑوں بے روزگارہوئے۔ سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی یہ صورت حال برداشت نہیں کرسکتا، کوئی نہیں چاہے گا کہ یہ حالات پھرسے آئیں۔ کاربن اخراج میں اس ذرا سی کمی سے اتنا بڑا بھونچال آگیا! کاربن کے اس ذرا سے اخراج کی کمی سے ثابت ہوا کہ صفر تک کا سفرممکن نہیں! ہمیں وباؤں اور موسمی آفتوں سے نمٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے۔
صفر کاربن تک کے سفر میں ایک اور بھی مشکل درپیش ہے، جو سائنسی یا فنڈ ریزنگ سے متعلق نہیں، بلکہ سیاسی نوعیت کی ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں یہ مسئلہ سیاست کی وجہ سے ایک طرف کردیا گیا ہے۔ ایک موقع پر امید دم توڑتی سی محسوس ہوئی۔ مگر میں ایک ماہرِ سیاسیات نہیں ہوں۔ میں انجینئرکی طرح سوچتا ہوں۔ میرے پاس ’’موسمی تبدیلی‘‘ پر سیاست کا کوئی حل نہیں ہے۔ میں اپنی امیدیں صرف اُس غوروفکر پرلگانا چاہتا ہوں جو’’صفر‘‘ کے سفر میں مددگار ہو۔ ہمیں دنیا کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا اور ساری سائنسی ذہانت ’’صاف ستھری توانائی‘‘ کی تیاری کے طریقوں پر صرف کرنی ہوگی۔ کسی بھی طرح گرین ہاؤس گیسز کا اخراج روکنا ہے تاکہ ماحولیات کا تحفظ ہوسکے۔
میں جانتا ہوں کہ ’’موسمی تبدیلی‘‘ پر دنیا تک پیغام رسانی کے لیے میں ایک غیرموزوں آدمی ہوں۔ دنیا میں ایسے امیر افراد کی کمی نہیں جن کے پاس نئے خیالات کی کمی نہیں، اور جو دوسروں کے شعبوں میں دلچسپی لیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کوئی بھی مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ میرے پاس بڑے بڑے گھر ہیں اور میں ذاتی طیاروں میں سفر کرتا رہتا ہوں۔ پیرس ’موسمیاتی تبدیلی‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھی میں ذاتی طیارے پر گیا تھا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اس موضوع پر لیکچر دینے کا استحقاق حاصل ہوگیا؟
یقیناً میں ان بنیادوں پر ایسا سمجھنے میں حق بہ جانب نہیں ہوں!
اس سے انکار ممکن نہیں کہ میں ایک ایسا امیر شخص ہوں جس کے پاس ایک آئیڈیا بھی ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ آئیڈیا معلومات کی بنیاد پر ہے، اور میں مزید سیکھتا رہتا ہوں۔
میں ایک ٹیکنوفائل بھی ہوں۔ کوئی مسئلہ درپیش ہو، میں فوراً اُسے ٹیکنالوجی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب بات ’موسمی تبدیلی‘ کی ہو، صرف ٹیکنالوجی سے ضرورت پوری نہیں ہوگی۔ تکنیکی حل کافی نہیں مگر ضروری ہیں۔
میں نے ایک کمپنی کے ذریعے ہوا سے کاربن کی صفائی کے کام کا آغاز کیا ہے۔ میں ایک ایسا غیرمنافع بخش پراجیکٹ بھی چلا رہا ہوں، جس کے تحت شکاگو میں ایسے ہاؤسنگ یونٹس بنائے گئے ہیں، جو ’’آلودگی سے پاک توانائی‘‘ سے چل رہے ہیں۔ جہاں جہاں مجھ سے ممکن ہے، کاربن کا خاتمہ کررہا ہوں۔ میں زیرو کاربن ٹیکنالوجی پر بھی سرمایہ کاری کررہا ہوں۔ میں اب تک ایک ارب ڈالرسے زائد پیسہ اُن کوششوں پر صرف کرچکا ہوں، جودنیا کوکسی طرح بھی ’صفر کاربن‘ تک پہنچا سکیں۔ اس میں سستی اور صاف توانائی کی تیاری شامل ہے۔ سیمنٹ، فولاد، اور دیگر اشیاء کی تیاری میں اخراج کم سے کم کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ میرے علم میں اور کوئی فرد ایسا نہیں جو ہوا سے براہِ راست کاربن کی صفائی کی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہو۔ مگر یہ کسی ایک فرد کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ یہ ’’موسمی آفتیں‘‘ سب کے لیے ہیں، سب ہی کو اس سے گریز کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
میں ابتدائی مرحلے میں صاف توانائی کی تحقیق کی حمایت کررہا ہوں۔ ایسی پالیسیوں کی وکالت کررہا ہوں جو اس کام میں مددگار ہوں۔ ایسے لوگوں کی حمایت کررہا ہوں جو اس کام کے لیے اپنے ذرائع کام میں لائیں۔
کلیدی نکتہ یہ ہے: ساری دنیا کاربن اخراج کم سے کم کرے، اور زیرو کاربن توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ ’موسمی تبدیلی‘ سے نمٹنے کے لیے صاف ستھری توانائی کو قدرتی ایندھن جتنا سستا اور معیاری بنانا ہوگا۔
یہ کتاب قدم بہ قدم رہنمائی کرتی ہے کہ کس طرح موسمی آفتوں سے بچا جائے۔ اس کے پانچ حصے ہیں، جو بارہ ابواب پر پھیلے ہیں۔
پہلا حصہ یہ واضح کرتا ہے کہ آخر ہمیں کیوں کاربن صفر کا ہدف پورا کرنا ہے۔
دوسرا حصہ بتاتا ہے کہ صفر تک کا یہ سفر کتنا دشوار گزار ہے۔
تیسرا حصہ کہتا ہے کہ اس معاملے میں مفید اور معلوماتی گفتگوکیا ہوسکتی ہے۔
چوتھا حصہ یہ خوش خبری دیتا ہے کہ ہاں ہم یہ کرسکتے ہیں۔
پانچواں حصہ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سے اقدامات ہیں جو ہم ابھی اٹھا سکتے ہیں۔
آئیے کتاب شروع کرتے ہیں!