نواب بگٹی بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے اور بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں مقیم تھے۔ ان کا دورِ حکومت (5 دسمبر 1989ء سے 7 اگست 1990ء) تھا۔ ایک دن نواب بگٹی کو ایک مہربان نے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور دیا۔ نواب بگٹی نے رسالے کی ٹائٹل اسٹوری کا ایک جملہ دیکھا تو غصے سے بپھر گئے اور رسالے کو پڑھے بغیر دیوار پر دے مارا۔ یہ بات مجھے ایک دوست نے بتائی جو وہاں موجود تھے۔ بعد میں نواب نے رسالے کے اندر کی کہانی پڑھی۔ ان کے بیٹے سلیم بگٹی نے بھی مضمون پڑھا۔ یہ میرا مضمون ،بلکہ سیاسی تجزیہ تھا۔ نواب بگٹی سے جو دوستانہ اور سیاسی یارانہ جنوری 1974ء سے تھا وہ لمحوں میں بکھرتا ہوا نظر آیا۔ نواب بگٹی کا اتنا شدید ردعمل میرے لیے پریشانی کا سبب بن گیا اور میں حیران تھا کہ اس مشکل سے کیسے نکلا جائے، نواب صاحب کو کیسے مطمئن کیا جائے، اور تعلقات میں جو دراڑ آگئی ہے اس کو کیسے پاٹا جائے؟ میری پریشانی بڑھ رہی تھی، ساتھ ہی بے چینی بھی تھی۔ نواب صاحب کا ردعمل خطرناک بھی ہوسکتا تھا۔ وقت گزر رہا تھا۔ اخبار میں خبر تھی کہ نواب بگٹی کوئٹہ پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران میں نے یہ رسالہ وزیراعلیٰ نواب بگٹی کے سیکریٹری عزیز بگٹی کو دیا، جو میرے زمانہ طالب علمی کے دوست تھے، اور ان سے کہاکہ اس کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس تجزیے میں کوئی ایسی بات تو نہیں ہے جس سے نواب بگٹی کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ انہوں نے بڑے غور سے پڑھا اور بتایا کہ نہیں، اس میں کوئی ایسا مواد نہیں ہے جو نواب کی ناراضی کا سبب بنا ہو۔ اس کے بعد ان سے کہاکہ یہ رسالہ نواب بگٹی کی بیٹی کو دیں تاکہ وہ مطالعہ کرے اور دیکھے کہ اس میں کوئی پہلو ایسا تو نہیں ہے جس سے نواب بگٹی پر کوئی حرف آتا ہو۔ نواب صاحب کی یہ صاحبزادی نواب زادہ جمیل بگٹی کی بہن اور میر ہمایوں مری کی اہلیہ ہیں۔ میر ہمایوں مری نواب خیر بخش خان کے بھتیجے ہیں اور بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ (8جولائی1990 تا 17نومبر1990) رہے ہیں۔ عزیز بگٹی نے بتایا کہ انہوں نے اس کو پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس سے نواب بگٹی کی توہین ہوتی ہو۔ اس دوران نواب بگٹی کوئٹہ پہنچ گئے۔ علی احمد کرد اور سخی سلطان کے ساتھ جناح روڈ کوئٹہ پر واقع اسلام آباد ہوٹل میں چائے پینا ہمارا معمول تھا۔ ایک شام ڈھلے ہم تینوں چائے پی رہے تھے، اس دوران دونوں نے کہاکہ بگٹی ہائوس چلتے ہیں اور نواب صاحب سے ملتے ہیں۔ ان سے کہا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں نہیں جا سکوں گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم زیادہ دیر نہیں بیٹھیں گے۔ مجبوراً ساتھ دینا پڑا۔ بڑی مشکل سے بگٹی ہائوس پہنچے تو بگٹی ہائوس کے باہر سلیم بگٹی اپنے گارڈز کے ہمراہ کھڑے تھے۔ انہوں نے میری طرف بڑے غصے سے دیکھا۔ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مضمون لکھنے کے بعد اس کو کیسے جرأت ہوئی کہ بگٹی ہائوس آگیا! ہم تینوں کمرے میں داخل ہوئے تو نواب صاحب موجود تھے۔ وہ کھڑے ہوگئے، انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر غصہ نظر آرہا تھا اور آنکھوں میں اس کی جھلک نمایاں تھی۔ میں نے جب ہاتھ ملایا تو انہوں نے اپنے ہاتھ کو ملاتے ہوئے کھینچ لیا۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا کہ نواب صاحب انتہائی غصے میں ہیں۔ اس رات کھانے پر مہمان کم تھے اور نواب کھانے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ ہم بھی جلدی اٹھ گئے۔ باہر نکلے تو سخی سلطان نے کہاکہ نواب صاحب نے آج تم سے کوئی بات نہیں کی، کیوں؟ ان سے کہاکہ نواب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے شاید اس لیے وہ خاموش تھے۔ اس پورے عرصے میں میری ایک سانس آرہی تھی تو دوسری جارہی تھی۔ یہ لمحات بڑے مشکل تھے۔ ایک طاقتور نواب کا غصہ میرے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا تھا۔
اس دوران جمہوری وطن پارٹی کا یوم تاسیس آگیا۔ امان کنرانی جنرل سیکریٹری تھے، انہوں نے مجھے دعوت نامہ دیا۔ پروگرام کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں تھا۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ نواب صاحب کو کیسے مطمئن اور راضی کیا جائے تاکہ اس مضمون سے جو ناراضی پیدا ہوئی ہے اسے دور کیا جاسکے۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اور کالم لکھا۔ نواب صاحب نے کالم دیکھا اور وہ میری تحریر کی گرفت میں آگئے۔ ایک دوست نے بتایا کہ نواب بگٹی صاحب نے بھری محفل میں آپ کے کالم کا ذکر اور تعریف کی، مجھے اطمینان ہوگیا کہ نواب صاحب کا غصہ ختم ہوگیا اور میرے لیے نرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہوگیا۔ اس طرح ذہن پُرسکون ہوگیا۔ جب ہوٹل پہنچا تو سلیم بگٹی اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ وہاں کھڑے تھے، مجھے غصے سے دیکھا اور میری طرف آئے، میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دینے کے بجائے مجھ سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے گھوم رہے ہیں، آپ کیسے آئے؟ میرے پاس دعوت نامہ تھا، ان کو دکھایا کہ اس کی وجہ سے آیا ہوں۔ چونکہ رش بہت زیادہ تھا اس لیے مجبوراً خاموش ہوگئے اور چلے گئے۔ مجھے اطمینان اس لیے تھا کہ نواب صاحب خوش تھے اور ان کی ناراضی اب خوشگوار تعلقات میں بدل گئی تھی۔ اس دن تک میرے دو کالم چھپ چکے تھے۔ نواب صاحب ہال میں داخل ہوئے تو ہم تمام صحافی ایک ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب سے ہاتھ ملا رہے تھے، میرے پاس آئے تو میں ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ ملایا تو ان کی آنکھوں میں خوشی جھلک رہی تھی اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ تم نے تو کمال کردیا، کیا زبردست کالم لکھا ہے۔ وہ بہت خوش تھے، لیکن سلیم بگٹی کا جاہ و جلال اپنی جگہ قائم تھا، ان کا غصہ کم نہیں ہوا تھا، وہ موقع کی تلاش میں تھے اور اپنے غصے کے اظہار کا موقع تلاش کررہے تھے۔ ایک دن اسمبلی کے اجلاس میں پہنچا۔ اجلاس کے بعد صحافی حضرات نواب صاحب سے ملنے گئے تو میرا جانا بھی ضروری تھا۔ نواب بگٹی کے علاوہ کمرے میں سردار عطا اللہ مینگل، مولانا محمد خان شیرانی اور دوسرے وزرا بیٹھے ہوئے تھے۔ نواب زادہ سلیم بگٹی بھی وہاں موجود تھے۔ ان سب کو سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ سلیم بگٹی کو دیکھا تو غصہ ان کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔ مجھے غصے سے دیکھا اور پھٹ پڑے، کہاکہ تم جو کچھ چاہتے ہو لکھ دیتے ہو اور کسی کا خیال نہیں کرتے۔ سب حیران تھے کہ سلیم بگٹی اتنے برہم کیوں ہیں اور غصے میں کیوں بول رہے ہیں؟ نواب بگٹی کو اندازہ ہوگیا کہ صورت حال کشیدہ ہورہی ہے تو انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ تم جب پنڈی میں تھے تو کس کے مہمان تھے؟ نواب بگٹی بڑی خوب صورتی سے موضوع کو دوسری طرف لے گئے اور بات چیت کا رخ موڑ دیا۔ انہوں نے بڑے اچھے انداز سے ماحول کو بدل دیا۔ مجھے اس دن اندازہ ہوگیا کہ نواب صاحب ایک باصلاحیت رہنما اور واقعی ایک نواب ہیں۔ بعد میں سلیم بگٹی کو اندازہ ہوگیا کہ نواب صاحب کی ناراضی ختم ہوگئی ہے تو انہوں نے بھی اپنا رویہ بدل دیا۔
نواب صاحب میرے کالم بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ ایک دن ان سے شام کو ملنے گیا تو مجھ سے کہاکہ آج میں نے تمہارا کالم پڑھا۔ انہوں نے کابینہ کے جو وزرا اور پارٹی کے عہدیدار موجود تھے ان سے پوچھا کہ آج آپ نے شادیزئی کا کالم پڑھا ہے؟ تو انہوں نے کہاکہ ہاں پڑھا ہے۔ نواب صاحب نے کہاکہ کیا آپ لوگوں نے سمجھا ہے کہ کیا لکھا ہے؟ اس پر وہ سب خاموش تھے، جواب نہیں دیا۔ نواب صاحب نے مجھے بتایا کہ تمہارا کالم ایک دفعہ نہیں بلکہ دو تین بار پڑھتا ہوں اور بعض نئے پہلو میرے سامنے آتے ہیں۔ نواب صاحب جہاں میری تقریر سے متاثر تھے وہیں میرے کالموں کو بھی پسند کرتے تھے۔ ہفت روزہ زندگی کے مدیر مجیب الرحمٰن شامی تھے، میرے ایک مضمون کی انہوں نے جو سرخی نکالی وہ میری زندگی کے خاتمے کا سبب بن سکتی تھی، مضمون میں وہ بات موجود نہ تھی۔ سرخی نکالنے میں مجیب الرحمٰن شامی کا کوئی مدمقابل نہیں۔ میں نے بھی مضمون سے سرخی نکالنے کا ڈھنگ اُن سے سیکھا ہے۔ جو سرخی انہوں نے نکالی تھی اب بھی اس کو لکھنا مشکل لگتا ہے۔
(جاری ہے)