پاکستان پر چار مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر بھٹو فیملی نے حکومت کی، ایشین ٹائیگر بنانے اور معاشی انقلاب لانے کے دعووں کے ساتھ تین بار شریف خاندان اقتدار میں آیا، اصلاحات و احتساب کے نام پر چار فوجی جنرلوں نے من مانے فیصلے کیے۔ جب یہ تینوں گروہ ناکام رہے تو 100 دن میں تبدیلی کا خواب دکھا کر چوتھا گروہ پرانے چہروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے نام سے حکومت میں آیا۔ صرف ڈھائی سال بعد ہی وزیراعظم کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ تبدیلی 100 دن میں نہیں آتی بلکہ 15 یا 20 سال درکار ہوتے ہیں۔
1958ء سے ملک پر حکومت کرتے ان تین یا چار گروہوں کی ناکامی کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ جنگ اخبار کے کالم نگار یاسر پیرزادہ عوام کی توجہ ”صالحین کے گروہ“ کی جانب مبذول کراتے۔ یاسر پیرزادہ عوام کو یہ بتاتے کہ تمام سابقہ تجربات ناکام ہوئے، اب ووٹرز سے گزارش ہے کہ اگلے پانچ سال کے لیے ”صالحین کے گروہ“ کو موقع دیا جائے، اس لیے کہ یہ گروہ نہایت منظم ہے، موروثیت سے پاک ہے، جمہوریت پسند ہے، تاحال کرپشن کا کوئی داغ نہیں، نیب کا کوئی کیس نہیں، اعتدال پسند ہے، جاگیرداروں، وڈیروں اور برادریوں کے زیراثر نہیں، الیکٹ ایبلز کی یہاں گنجائش نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد اس کے لیڈرز اور ورکرز ہیں، خواتین ونگ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے زیادہ متحرک و فعال ہے، 2005؎ئ کا زلزلہ ہو، 2010ء کا سیلاب ہو، یا 2020ء کا کورونا لاک ڈاؤن، ہر بحران میں ”صالحین کے گروہ“ نے ریاستی اداروں سے بڑھ کر خدمات انجام دیں، کورونا وبا کے دوران مندر اور چرچ سمیت اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو ڈس انفیکٹ کیا، صالحین کا یہ گروہ الخدمت کے پلیٹ فارم سے 14 ہزار کے قریب یتیم بچوں کی کفالت کررہا ہے، ملک بھر میں ہزاروں اسکولوں کے ذریعے لاکھوں بچوں کو معیاری تعلیم اور 40 بڑے اسپتالوں کے ذریعے ہر سال ہزاروں مریضوں کو سستا علاج فراہم کرتا ہے۔ تنظیم، دیانت، مہارت اور خدمت میں کوئی دوسرا سیاسی گروہ اس کی ٹکر کا نہیں۔۔۔ مگر بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ نے ایسی کوئی تجویز یا تجزیہ قارئین کے سامنے رکھنے کی زحمت نہ کی، بلکہ ”صالحین کے گروہ“ سے متعلق مفروضوں پر مبنی اپنے آرٹیکل سے قارئین کو گمراہ کیا۔
یاسر پیرزادہ نے اپنے آرٹیکل میں کچھ سوالات اٹھائے، پھر خود ہی ان کے جواب دیے اور آخر میں نتیجہ اخذ کرلیا۔ یوں تو پورا کالم ہی پوسٹ مارٹم کے لائق ہے، مگر ہم صرف تین بنیادی نکات تک اپنی بات محدود رکھیں گے۔ یہ تین نکات درج ذیل ہیں:
1۔ یاسر پیرزادہ نے آرٹیکل میں حکومت کا نظام سنبھالنے والے صالحین کے گروہ کی یہ صفات گنوائی ہیں: نیک، مخلص، دیانت دار، متقی، پرہیزگار اور درویش صفت بندے، جنہیں مال و دولت، نمود و نمائش اور طاقت و اقتدار کی کوئی خواہش نہیں، مگر بڑی مشکل سے عنان اقتدار سنبھالنے پر راضی کیا گیا ہے۔
2۔ یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں ”ہمارے صالحین کا مثالی گروہ اپنے اقتدار کے پہلے سو دنوں میں جو فوری اقدامات کرے گا اُن میں شرح سود کو صفر پر لانا، مخلوط تعلیم اور خواتین کے بے پردہ گھر سے باہر نکلنے اور عورت مارچ پر پابندی لگانا شامل ہوگا۔ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ صالحین کے گروہ نے ملک کے طول و عرض میں یہ پابندیاں لگا دی ہیں۔ پھر کیا ہوگا؟ کیا اِس کے نتیجے میں ہمارے تمام پیچیدہ معاشی اور سماجی، مقامی اور بین الاقوامی مسائل حل ہوجائیں گے؟“
3۔ یاسر پیرزادہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: ”یہ لوگ گورننس کا ایسا کون سا خاکہ پیش کریں گے جس کی بدولت وہ ملک کے مسائل حل کردیں گے؟“
آئندہ سطروں میں ہم یاسر پیرزادہ کے خیالات کا ترتیب وار جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
1- صالحین کے گروہ کی خصوصیات :
پہلے نکتے میں یاسر پیرزادہ نے صالحین کے گروہ سے متعلق اپنی مرضی کا نقشہ (نیک، مخلص، دیانت دار، متقی، پرہیزگار اور درویش صفت بندے) کھینچا ہے۔ یقیناً بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے صالحیت پر بہت زور دیا ہے، مگر مولانا نے صلاحیت، لیاقت اور تجربے پر بھی اتنا ہی زور دیا ہے۔ ریاست کا نظام چلانے والے افراد میں کیا صفات ہونی چاہئیں؟ آئیے مولانا مودودیؒ سے رجوع کرتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ”ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمام کار فساق و فجار کے ہاتھوں سے نکلے اور مومنین صالحین کے ہاتھوں میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ خیر و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ، نہ صرف اپنے اخلاص میں صالح و پاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ اُن تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں، اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کارفرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کردے۔“ (تحریکِ اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)
مولانا مودودیؒ مزید لکھتے ہیں: ”اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعووں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی توفیق تو اللہ کی توفیق سے ”علم“ اور ”تجربہ“ ہر وقت رفع کرسکتا ہے، لیکن ”صلاحیت“ اور ”صالحیت کا فقدان“ سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا، اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔“ (تحریکِ اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)
سید مودودیؒ نے عشروں پہلے یہ بتایا تھا کہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے والا مسلمان لیڈر کن صفات کا مالک ہوگا۔ مولانا مودودیؒ تصورِ امام مہدی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ”میرا اندازہ یہ ہے کہ آنے والا اپنے زمانے میں بالکل جدید ترین طرز کا لیڈر ہوگا۔ وقت کے تمام علومِ جدیدہ پر اس کو مجتہدانہ بصیرت حاصل ہوگی۔ زندگی کے سارے مسائل کو وہ خوب سمجھتا ہوگا۔ عقلی و ذہنی ریاست، سیاسی تدبر اور جنگی مہارت کے اعتبار سے وہ تمام دنیا پر اپنا سکہ جمادے گا اور وقت کے تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ثابت ہوگا۔“ (تجدید و احیائے دین)
مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نظام حکومت چلانے کے لیے انہوں نے یاسر پیزادہ کی طرح صرف تقویٰ، درویشی، اخلاص و دیانت داری پر زور نہیں دیا بلکہ واضح طور پر بتایا ہے کہ جو لوگ نظام حکومت سنبھالیں اُن میں کم از کم درج ذیل صفات ہونی چاہئیں:
1-ایمان میں پختہ
2-اسلام میں مخلص
3۔تعمیری صلاحیت
4۔صالح انفرای سیرت
5۔ثابت شدہ قابلیت، مہارت و تجربہ
6- علوم جدیدہ پر مجتہدانہ بصیرت
7-زندگی کے تمام مسائل کی مکمل سمجھ
ان صفات پر مشتمل گروہ یا فرد جو ریاست قائم کرے گا وہ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں:
”ایسا زبردست اسلامی اسٹیٹ ہوگا جس میں ایک طرف اسلام کی پوری روح کارفرما ہوگی، اور دوسری طرف سائنٹفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔“ (تجدید و احیائے دین)
خاص بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف فردِ واحد میں درج بالا صفات کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ انہوں نے پوری ٹیم یا گروہ تشکیل دینے کی بات کی جو صالحیت و صلاحیت میں معاشرے کے بہترین افراد پر مشتمل ہو۔ کیا مولانا مودودیؒ ایسا گروہ تشکیل دینے میں کامیاب رہے؟ اس سوال کا جواب ہم آئندہ سطروں میں دیں گے۔
2-صالحین کا نسخہ حکمرانی:
یہ ترتیب (شرح سود صفر ہوجائے گی، فحاشی، مخلوط تعلیمی نظام اور عورت مارچ ختم ہوجائیں گے) اور سو دن کی حد یاسر پیرزادہ نے خود مقرر کی ہے۔ ایسی کوئی بھی ترتیب صالحین کے گروہ کی حکمت عملی میں موجود نہیں۔ جہاں تک شرح سود صفر پر لانے کا تعلق ہے تو اب دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک بھی اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں… بلکہ اب منفی شرح سود کی پالیسی بھی مقبول ہورہی ہے۔ خود پاکستان میں جب کبھی بھی اقتصادی ترقی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا تو وہ کم شرح سود کے ساتھ ہی ممکن ہوا۔ یاسر پیرزادہ گوگل کرلیں، ان کے سامنے زیرو یا منفی شرح سود والے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست آجائے گی۔ اگر پاکستان میں صالحین کا گروہ شرح سود صفر کرے گا تو یہ کوئی انوکھا کام نہیں ہوگا بلکہ اس سے اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔
یاسر پیرزادہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ صالحین کا یہ خوفِ خدا رکھنے والا گروہ دنیاوی و مالی مفادات میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتا اور مخلص و دیانت دار بھی ہے۔ اس لیے ہم یاسر پیرزادہ کو یہ بتاتے چلیں کہ یہ گروہ اقتدار سنبھال کر آئین کی حکمرانی قائم کرے گا، عدالتوں کو حکومتی دباؤ سے آزاد کرے گا، قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کرے گا، قومی اداروں میں اقربا پروری کے بجائے میرٹ پر تقرریاں کرے گا، کیونکہ اس گروہ میں جاگیرداروں، وڈیروں اور اے ٹی ایم مشینوں کی نمائندگی نہیں، اس لیے مفادات کا ٹکراؤ ختم ہوجائے گا اور مافیاز کی کمر ٹوٹ جائے گی، وزارتیں جاگیرداروں، صنعت کاروں اور امپورٹڈ ٹیکنوکریٹس کو نہیں بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دیانت دار افراد کو ملیں گی۔ صالحین کا گروہ اپنی پالیسیاں ارب پتی دوستوں، اور رئیل اسٹیٹ و شوگر مافیا کے بجائے عوام کے مفاد میں بنائے گا، اربوں کے ٹھیکے اپنے بچوں اور بھائیوں کی کمپنیوں کے بجائے باقاعدہ ٹینڈر کے ذریعے میرٹ پر دیے جائیں گے (کراچی میں جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایسا کرکے دکھا چکے ہیں)، یہ گروہ جرائم سے پاک ہے اس لیے پولیس میں سیاسی تقرریاں ختم کرکے افسران کو بااختیار کرے گا، اراضی اصلاحات کی جائیں گی، ترقی یافتہ ممالک کی طرح سائنٹفک طریقے اختیار کرکے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا، یوں نہ صرف مہنگائی میں نمایاں کمی آئے گی بلکہ ملک ایک بار پھر کپاس، گندم اور شکر برآمد کرکے زرمبادلہ حاصل کرے گا، نئے ٹیکس لگانے کے بجائے ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا، سیلز ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی ختم کردی جائے گی، یوں مہنگائی مزید کم ہوگی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ صالحین کا یہ گروہ اپنے منشور کے مطابق متناسب نمائندگی کی بنیاد پر اگلا الیکشن کرائے گا، نتیجے میں الیکٹ ایبلز کی سیاست دم توڑ جائے گی، طلبہ یونین بحال کرے گا، اس طرح مراعات یافتہ طبقے کے بجائے غریبوں کے بچے بھی پڑھ لکھ کر سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے، نئے صوبے بنائے جائیں گے اور بااختیار بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے گا۔ جب یونین کونسل سے ضلعی کونسل تک صالح، دیانت دار اور باصلاحیت ناظمین کام کریں گے اور ہر ضلع کو ملنے والا اربوں کا بجٹ دیانت داری سے خرچ ہوگا تو صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں انقلاب برپا ہوگا، آئی ٹی ایکسپورٹ اور ہائر ایجوکیشن پر یہ گروہ خصوصی توجہ دے گا تاکہ بہترین افرادی قوت تیار کی جاسکے جو ملک کا اثاثہ ثابت ہو۔ 700 ارب کے قریب کا سالانہ وفاقی ترقیاتی بجٹ پوری دیانت داری کے ساتھ غیر ضروری منصوبوں کے بجائے اہم منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا، ان منصوبوں پر کمیشن لینے اور دینے کا سلسلہ بند ہوگا (سابق سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے اپنے دور میں 6 ارب80 کروڑ کا K-3 واٹر پروجیکٹ 6ارب میں مکمل کرکے جنرل پرویزمشرف اور گورنر سندھ عشرت العباد کو حیران کردیا تھا)۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں معاشی شرح نمو اور ریونیو میں نمایاں اضافہ ہوگا، مہنگائی میں خاطرخواہ کمی ہوگی، روپے کی قدر میں استحکام آئے گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
ڈنڈے کا استعمال کب؟
جہاں تک معاشرے میں رائج برائیوں کے خاتمے اور ڈنڈے کے استعمال کا تعلق ہے تو اس بارے میں صالحین کے گروہ کے امام سید مودودیؒ نے جو ترتیب بیان کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
”اسلام پہلے لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے، پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے، پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط رائے عامہ تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں، پھر وہ معاشرتی اور معاشی اور سیاسی نظام ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے۔ وہ اُن تمام دروازوں کو بند کرتا ہے جن سے فواحش و جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔“ (تصریحات)
3۔صالحین اور گورننس
اب آیئے یاسر پیرزادہ کے تیسرے سوال یعنی گورننس کی طرف۔۔۔ ہمارے نزدیک گڈ گورننس کے لیے ضروری ہے کہ ایک منتظم کو مسائل و چیلنجز کا بالکل درست اندازہ ہونا چاہیے، ان مسائل کے حل کے لیے اس کے پاس قابلِ عمل منصوبہ اور پلان ہونا چاہیے، اور پھر صالح اور باصلاحیت افراد پر مشتمل ٹیم ہونی چاہیے جو اس پلان اور وژن پر پوری دیانت داری اور جانفشانی کے ساتھ عمل کرسکے۔ اب ہم چند مثالوں سے یاسر پیرزادہ کو بتائیں گے کہ جب کبھی بھی صالحین کے گروہ کو کسی بھی سطح پر گورننس کا موقع ملا تو انہوں نے کس طرح ”امپورٹڈ ماہرین“ کی مدد کے بغیر اپنے وژن اور پلاننگ سے تعمیر و ترقی کے عمل کو تیز کیا۔
میئر کراچی عبدالستار افغانی
جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی 1979ء کے بلدیاتی ایکٹ کے تحت میئر کراچی منتخب ہوئے تھے۔ گویا ان کے پاس اتنے ہی اختیارات تھے جو سابق میئر کراچی وسیم اختر کے پاس تھے، مگر کارکردگی کی بات کی جائے تو عبدالستار افغانی بابائے کراچی کہلائے اور وسیم اختر کراچی کے ناکام ترین میئر ٹھیرے۔ محدود اختیارات اور کم وسائل کے باوجود افغانی صاحب کے دور کا کراچی صاف ستھرا اور روشنیوں کا شہر تھا۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے میں کراچی کی ایک نمایاں شناخت اور پہچان تھی۔ کراچی میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا پورا نظام موجود تھا۔ عبدالستار افغانی نے شہر بھر میں چلڈرن پارک، پردہ باغ، تعلیمی باغ اور شپ پارک جیسے منصوبے بنائے۔ ہر علاقے میں نوجوانوں کو کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کے میدان دیے۔ محلوں میں فٹ پاتھ بنائے گئے۔ اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب کا کام بڑے پیمانے پر ہوا۔ کے ایم سی کے ماتحت عباسی شہید اسپتال، کراچی کے معیاری اسپتالوں میں سے ایک تھا۔ شہر کو حب ڈیم سے پانی کی فراہمی کا آغاز آپ کے ہی دور میں ہوا۔ بڑھتی ضروریات کے پیش نظر واٹر بورڈ کا ادارہ تشکیل دیا گیا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سرکاری کالج اور سرکاری اسکول تعمیر ہوئے۔ کے ایم سی کے ماتحت سرکاری اسکول بچوں کو تقریباً مفت اور معیاری تعلیم فراہم کررہے تھے جو والدین کے لیے بہت بڑا ریلیف تھا۔ ٹریفک حادثات کے خاتمے کے لیے مصروف شاہراہوں پر پیڈسٹرین برج نصب کیے گئے۔ اصول پسند افغانی صاحب نے بطور میئر کراچی کے حقوق کی جنگ لڑی۔ جب آپ نے موٹر وہیکل اور پراپرٹی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی بلدیہ عظمیٰ کو منتقل کرنے کے حق میں ریلی نکالی، تب صدر جنرل ضیاء الحق کے لاڈلے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے بلدیہ عظمیٰ توڑ کر آپ کو گرفتار کرلیا۔ افغانی صاحب آٹھ سال کراچی کے میئر رہے مگر میئر ہاؤس میں رہنے کے بجائے لیاری میں اپنے دو کمروں کے فلیٹ میں رہائش برقرار رکھی۔ تب کمشنر کراچی شاہد عزیز صدیقی نے آپ کی وفات پر کہا تھا: ”عبدالستار افغانی ایک بہت شریف آدمی اور شائستہ انسان تھے۔ جب ان سے میئر شپ چھینی گئی تو مجھے بہت تکلیف ہوئی“۔ 2007ء میں وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم تعزیت کے لیے آپ کے گھر گئے اور خود چوتھی منزل پر جاکر دو کمروں کا فلیٹ دیکھا تو کہا: ”میں عبادت کو بھی جانتا ہوں اور سیاست کو بھی، مگر سیاست میں ایسی عبادت کبھی نہیں دیکھی“۔ عبدالستار افغانی کو 1987ء میں برطرف تو کردیا گیا مگر اس کے ساتھ ہی کراچی میں وہ خونیں کھیل شروع ہوا جس کی نذر شہر کے ہزاروں نوجوان ہوئے، سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا آغاز ہوا، سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی تباہی شروع ہوئی، صاف ستھرا کراچی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرنے لگا، روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان
کراچی کی قسمت دوبارہ اُس وقت جاگی جب جماعت اسلامی کے ہی نعمت اللہ خان 2001ء میں 4 سال کے لیے کراچی کے سٹی ناظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ حلف اٹھایا اور عبدالستار افغانی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ذاتی رہائش گاہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ نعمت اللہ خان نے انتہائی نامساعد حالات میں دیانت داری، محنت اور وژن کی بدولت چار سال میں کراچی کا بجٹ 6 ارب سے 42ارب روپے تک پہنچا دیا، 364 بڑی اور آرام دہ بسیں چلائیں، 100ملین گیلن پانی کے منصوبے K-3 کے ذریعے شہر میں پانی کے بحران پر قابو پایا، ایف بی ایریا میں امراض قلب کا جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال تعمیر کیا، 32نئے کالج بنائے۔ افغانی صاحب کے دور کے بعد جو پارک اجڑ چکے تھے اور لینڈ مافیا ان پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اُن پارکوں کو اصل حالت میں بحال کیا اور ماڈل پارک بنائے۔ نعمت اللہ خان نے انفرااسٹرکچر میں بہتری کی فوری ضرورت کو سمجھتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومت سے کراچی کے لیے 20ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا، صدر جنرل پرویزمشرف نے جواب میں لینڈ سے ریونیو جمع کرنے کی ہدایت کی، نعمت اللہ خان نے کوئی نیا ٹیکس لگانے سے انکار کردیا اور پرویزمشرف کے سامنے متبادل منصوبہ پیش کرکے انہیں حیران کردیا۔ نعمت اللہ خان نے تجویز دی کہ بے شک وفاقی حکومت پیکیج مت دے مگر کراچی میں کے پی ٹی، پورٹ قاسم، پاکستان اسٹیل، ایکسپورٹ پروموشن بیورو اور پی آئی اے جیسے وفاقی ادارے موجود ہیں جو کراچی کے وسائل کا استعمال کرتے ہیں مگر شہر پر ایک روپیہ خرچ نہیں کرتے، شہری حکومت کے پاس انفرااسٹرکچر مسائل کے حل کے لیے منصوبے موجود ہیں، وفاقی حکومت ان اداروں کو فنڈز دینے کا پابند کرے۔ جنرل پرویزمشرف کو یہ اچھوتا آئیڈیا بہت پسند آیا۔ نعمت اللہ خان نے صدر پاکستان اور وفاقی اداروں کے سربراہان کو تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ اگست 2003ء میں شہر کے لیے 29ارب کا پیکیج منظور ہوا اور شہر میں ترقیاتی کاموں کا سیلاب آگیا۔ ڈان اخبار کے مطابق دسمبر 2004ء میں صدر پرویزمشرف نے ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ نعمت اللہ خان کو دیتے ہوئے کہا:
The president told the gathering that the original idea of Karachi Package was put forward by Naimatullah Khan. “Let me put the record straight, Naimatullah Saheb had suggested that there is a way of doing this,” he said.
General Musharraf said then he thought of coming to Karachi and convening a meeting of all the stakeholders like Karachi Port Trust, Pakistan Steel Mills, Export Promotion Bureau and bankers etc.
نعمت اللہ خان کی خدمات کا چرچا عالمی سطح پر بھی ہوا اور وہ پورے جنوبی ایشیا کے واحد میئر تھے جنہیں بہترین میئر کے عالمی مقابلے کے لی9ے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ نعمت اللہ خان کے بعد سیکولر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے کراچی کا جو حشر کیا وہ پورے ملک کے سامنے ہے۔ بے چارے وسیم اختر اور مراد علی شاہ شہر کا کچرا تک صاف نہیں کرسکے۔
صالحین کے پی کے حکومت میں
2013ء سے2018ء تک پی ٹی آئی کی خیبر پختون خوا حکومت کا بڑا چرچا رہا۔ جماعت اسلامی کے پاس اس حکومت میں پانچ سال تک خزانہ اور بلدیات کی اہم ترین وزارتیں رہیں۔ عمران خان نے جو جلد عہدے اور وزارتیں تبدیل کرنے کے ماہر ہیں ایک بار بھی جماعت اسلامی کے کسی وزیر کی طرف انگلی نہ اٹھائی اور نہ وزارت تبدیل کی۔ عمران خان نے ٹوئٹ کیا: جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزرا کا رویہ مثالی رہا ہے اور ہم کرپشن کے خلاف اُن کی کمٹمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن
الخدمت فاؤنڈیشن آج ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صحت، تعلیم، صاف پانی، مائیکرو فنانس اور کفالت یتامیٰ کے شعبوں میں کام کرنے والا وہ مثالی ادارہ ہے جس کی خدمات کا اعتراف ریاست پاکستان بار بار کرچکی ہے۔ یہ صالحین کی گڈگورننس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ 2005ء کا خوفناک زلزلہ آیا تو حکومتی ادارے ابھی نقصانات کا تخمینہ لگانے میں مصروف تھے جبکہ الخدمت نے زلزلہ متاثرین کو ملبے سے نکالنے، کھانا فراہم کرنے اور خیموں میں ٹھیرانے کا کام شروع کردیا تھا۔ متاثرہ علاقوں میں فیلڈ اسپتال بنائے گئے، اور بچوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ فوری شروع کردیا گیا۔ 2005ء کے زلزلے میں الخدمت کی خدمات اس قدر وسیع تھیں کہ بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز بھی دنگ رہ گئیں۔۔ 2020ء کے کورونا لاک ڈاون میں ایک بار پھر جماعت اسلامی کا فلاحی ادارہ الخدمت ایک جانب متاثرہ افراد کو راشن پہنچا رہا تھا، دوسری طرف صرف 3 ہزار روپے میں سستا ترین کورونا ٹیسٹ کررہا تھا، تیسری طرف اس کے رضاکار سرکاری و نجی اداروں اور مساجد و عبادت گاہوں کو ڈس انفیکٹ کررہے تھے۔ الخدمت نے بیک وقت کئی محاذوں پر کام کیا۔ یہ تو صرف ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں صالحین کے گروہ کی مہارت تھی، اگر الخدمت کے مستقل سیٹ اپ پر نظر ڈالی جائے تو کام کی وسعت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ صحت کے شعبے میں 40 اسپتال اور 53 میڈیکل سینٹر فعال ہیں، الخدمت 14ہزار کے قریب یتیم بچوں کی کفالت کررہی ہے، سہولیات سے آراستہ 14آغوش سینٹر میں ایک ہزار سے زائد بچے مقیم ہیں، 10آغوش سینٹر زیر تعمیر ہیں، پانی کی فراہمی کے لیے مختلف شہروں میں 140فلٹریشن پلانٹ اور7ہزار سے زائد ہینڈ پمپ نصب کیے گئے، 2ہزار سے زائد کنویں کھودے گئے، 7ہزار کے قریب افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے مواخات پروگرام کے ذریعے قرض فراہم کیے گئے.. غرض الخدمت کی خدمات کا دائرئہ کار بے حد وسیع ہے۔
خاتمہ کلام
ہم آخر میں لبرل یاسر پیرزادہ کو یہ مشورہ دیں گے کہ اگر وہ واقعی ملک و قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو سیکولر جماعتوں پر زور دیں کہ وہ جماعت اسلامی کی طرح جمہوری روایات کا احترام کرنا سیکھیں، اپنی جماعتوں میں موروثیت کا خاتمہ کریں اور الیکشن کا رواج ڈالیں۔ جب سیاسی جماعتیں جمہوری انداز میں کام کریں گی، ان کے اندر احتساب کا نظام ہوگا تو ملک میں بھی جمہوریت مستحکم ہوگی اور آئین کی حکمرانی ہوگی۔