فاتح سندھ ، محمد بن قاسمؒ کو زیرو اور راجا داہر کو ہیرو بنانے والی قلمی لڑائی

مولانا رومؒ کا شعر ہے:
آنکہ دید نش ہمیشہ بیخود اند
بے خودانہ برسبو، سنگے زدند
اے از غیرت سبو، سنگے زدہ
وآں شکست خود، درستی آمدہ
(جنہوں نے حقیقت کے سمندر میں غوطہ زنی کی ہے، وہ محبوب کے حسن پر فریفتہ ہیں۔ جنہوں نے گھر توڑ دیا انہیں مالک نے اپنے دامنِ پناہ میں لے لیا اور وہ ساحلِ مراد جاپہنچے) شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اسی شعر کے میدان میں سندھی میں طبع آزمائی فرمائی:
جیئن ڈٹھوموں، سوجے ڈِسو جیڈیوں
گھر ورن سیں ھوند، گھڑو سبھ گھڑا کھٹیں
یہ کوئی 1967ء کا سال تھا۔ ہم مکتب میں زیر تعلیم تھے۔ محمد یوسف آفندی ہمارے مکتب کے مہتمم تھے۔ میرا پہلا مضمون روزنامہ ’’مہران‘‘ میں چھپا تھا، نوک پلک استاد آفندی صاحب نے درست کی تھی۔ مجھے مولانا خیر محمد نظامانی کا طویل 22 قسطوں پر مشتمل مضمون جو روزنامہ ’’کاروان‘‘ اخبار میں اشاعت کے زیور سے آراستہ ہوا تھا، پڑھنے کے لیے دیا۔ پھر معلوم ہوا کہ جی ایم سید صاحب کون ہیں۔ انہوں نے بھٹائی سرکار کی مذکورہ بالا بیت سے کتاب کا عنوان ادھار لیا تھا۔ سب سے پہلے مولانا نور محمد سجاولیؒ (جن کے اُس وقت لوئر سندھ میں 110 اقامتی مدارس ’’اصلاح المدارس‘‘ کے نظم تلے چل رہے ہیں) نے علما کی کورٹ تشکیل دی۔ پہلا فتویٰ سندھی میں ’’جہان سومرو‘‘ جو ٹنڈو محمد خان سے بلڑی شاہ کریم کے راستے میں پڑتا ہے، سے جاری ہوا۔ انہی دنوں میں ہمارے استاد مولانا خلیل اللہ ربانیؒ کے برادر مولانا رشید احمد لدھیانوی نے اردو میں اس کتاب پر فتویٰ جاری کیا جو ’’احسن الفتاویٰ‘‘ میں 56 سال پہلے شائع ہوا تھا۔ یہی دور تھا جب مولانا جان محمد عباسیؒ نے سندھ میں لادینی فکر کا علمی محاسبہ کرنے کے لیے ادارے قائم کرنا شروع کیے۔ جے یو آئی سندھ کے امیر مولانا سید محمد شاہ امروٹیؒ سے ملے۔ امروٹی صاحب نے کتاب پر ’’چھاڈٹھو آھے تو…‘‘ نامی کتاب لکھی، اور عباسی صاحب نے والس روڈ سکھر سے ’’ٹیڈی ڈِسے ٹے‘‘ (بھیلی آنکھ ایک کے بجائے تین دیکھا کرتی ہے) نامی کتاب چھاپی۔ سندھ جماعت کے امیر نے پیر سید شاہ مردان شاہ (پیرسائیں پاگارا) سے ملاقات کی اور اُن کا سندھی اخبار ’’مہران‘‘ سندھودیشی فکر کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہوگیا۔ سید سردار علی شاہ ذاکر جیسے کہنہ مشق صحافی اور نامور ادیب اس اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے بیدار مورائی، حافظ ابن سبیل، پروفیسر میر محمد بھیو، ڈاکٹر شیخ محمد ابراہیم خلیل، معمور یوسفانی، رشید احمد لاشاری، پروفیسر اسد اللہ بھٹو، شیخ محمد سومار، شیخ عبدالرزاق راز، سید علی میر شاہ اور پروفیسر کریم بخش نظامانی جیسے بیسیوں اہلِ قلم کے سیکڑوں مضامین چھاپے۔ اسی طرح آگے چل کر حافظ محمد موسیٰ بھٹو نے یہ محاذ سندھ نیشنل اکیڈمی کے بینر تلے سنبھالا۔ ادھر ’’تنظیم فکر و نظر‘‘کیپٹن ایس ایم یوسف کی نگرانی اور پروفیسر اسد اللہ بھٹو کی سیادت و قیادت میں کام کرنے لگی۔ مجھے ’’محمد بن قاسم ادبی سوسائٹی‘‘ اور اسلامی جمعیت طلبہ کی سندھی مطبوعات میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ہم سندھی ڈائجسٹ، شاگرد اور ’’ادیوں‘‘ نامی خواتین، نوجوانوں اور بڑوں کے لیے رسائل نکالنے لگے۔ ادھر پیر حافظ محمد ہاشم جان سرہندی مجددی خانقاہِ عالیہ ٹنڈو سائیں داد والے میدان اترے اور ممتاز عالم، ادیب، اسکالر اور جہاندیدہ بزرگ جو حضرت حافظ صاحب کے بھانجے تھے (خواجہ پیر محمد ابراہیم جان سرہندیؒ) نے ‘‘سندھ سونہاری‘‘ کے نام سے مبسوط کتاب لکھی جو پورے سندھ میں جماعت اسلامی نے تقسیم کی۔ صرف مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ صاحب نے پانچ ہزار کاپیاں اپنے خرچ سے تقسیم کیں۔ پرسوں اُس کتاب کے ناشر مولانا محمد صالح راہو سے ملاقات ہوئی۔ وہ ساٹھ سال سے اپنے مرشد کے ’’مے خانہ‘‘ میں، ’’حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔ گلزار جلیل نامی یہ درگاہ عمر کوٹ کے تعلقہ سامارو میں بنی سرنہر کے کنارے موجود ہے۔
رئیس احمد خان نظامانی نے اپنا لطیف آباد 6 نمبر والا بنگلہ بلاکرایہ سوسائٹی کے حوالے کیا۔ پروفیسر عبداللہ تنیو، ایوب انصاری، مولانا سلیمان طاہر، اللہ رکھیو نعیم ’ملاح‘‘، مشتاق پٹھان اور پروفیسر ثاقب آریسر جیسے سیکڑوں اہلِ قلم اس تسبیح کے دانے بنے۔ جیکب آباد کے قطب الدین تابؔ اوستو سے لے کر لاڑکانہ کے حاجی علی بخش جمالی… نواب شاہ کے الحاج رحیم بخش قمر سے لے کر پروفیسر ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی… حافظ حبیب سندھی سے شکارپور کے قاری نثار احمد (حافظ سندھی)… عبدالوحید مویارنی سے لے کر محمود یوسفانی تک… یہ قافلہ اس سرعت سے منظم ہوا جس نے رشید احمد لاشاری کی قیادت میں محققین کی ایک کمیٹی قائم کی۔ قربان بگٹی، عابد لغاری اور قلندر لکیاری نے لادین عناصر کی کتابوں کے عکس حاصل کرکے ادب کی آڑ میں ’’نامی قرطاس ابیض‘‘ مرتب کیا، جسے پریس کانفرنس کے ذریعے اوپن کیا گیا۔ رئیس غلام مصطفیٰ جتوئی سندھ کے وزیراعلیٰ تھے، حافظ محمد ہاشم جان سرہندی کے وہ مرید بھی تھے اور غیرت مند مسلمان۔ انہوں نے سندھودیشی فکر کے حاملین کی کتب کا جائزہ لینے کے لیے قاضی محمد اکبر چیف ایڈیٹر روزنامہ عبرت کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا، نتیجے کے طور پر دو سو کتابوں پر پابندی لگی۔ سیکریٹری داخلہ محمد خان جونیجو کے آنسو تھم نہیں رہے تھے، کہ مجھ جیسے سیاہ کار کے دستخط کے ساتھ خیر کا کام ہورہا ہے۔ نواب شاہ میں کانفرنس ہورہی ہے تو سردار عبدالقیوم خان صدر آزاد کشمیر تشریف لارہے ہیں۔ کراچی میں ایڈمرل ارشد سے لے کر حکیم محمد سعید، اے کے بروہی اور خالد اسحاق سرپرستی کررہے ہیں۔ ننگرپارکر سے لے کر ٹھل تک، اور کیٹی بندر سے لے کر کشمور تک وادی مہران میں جوش و خروش پیدا ہوا اور بیسیوں کتابیں شائع ہوئیں، سنھاں بھان ء مہ سپ، جی ایم سید ء آئرں کمیونسٹ پدھرناموں، ترقی پسند ادب جو تنقیدی جائزو، کنگ بچارو کیر؟ ڈاھر مثنوی، مئی ہاتھی مامرو، بگھن مچھی من، مشہور ترانہ
سندھڑی تے سرکیر نہ ڈیندو
کے جواب میں سنیاسی پبلی کیشن کے سربراہ منصور ویراگی نے
’’سندھڑی تے تو سر چھور نہ ڈنو‘‘
نامی جواب دیا۔ جواب الجواب میں اردو میں پیروڈی کے طور پر یہ شعر یوں پڑھا جاتا تھا:
’’مہرانیوں‘‘ کی غیرتِ دین کا ہے علاج
مُلا کو اس کے ’’مھین جودڑو‘‘ سے نکال دو
آج کل ایک مرتبہ پھر سندھ میں راجا داہر کے راجے مہاراجے پر پکھیڑ رہے ہیں، لیکن نہ تو پیر سائیں شاہ مردان شاہؒ ہیں، نہ سید سردار علی شاہ ذاکر۔ نہ پیر حافظ ہاشم جان ہیں اور نہ ہی خلیل سرہندیؒ۔ نہ مولانا سید محمد شاہ امروٹیؒ ہیں ور نہ (باقی صفحہ 41پر)
ہی مولانا جان محمد عباسیؒ۔ قوموں کو خوش قسمت افراد کی قیادت متحرک کرتی ہے۔ آج کل پروفیسر عبدالخالق سہریانی، پروفیسر اصغر مجاہد مہر، پروفیسر ثاقب آریسر، حافظ محمد موسیٰ بھٹو، پروفیسر عبدالرحمٰن جتوئی، پروفیسر مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور حزب اللہ سومرو جیسے بزرگ بھی غنیمت ہیں۔ لیکن سراج الحق صاحب، مفتی منیب الرحمٰن صاحب، پروفیسر ساجد میر صاحب اور دوسرے قائدین کو بھی چاہیے کہ اس موضوع پر اپنی اپنی شوریٰ کے سامنے صورت حال پر بحث کریں اور اسلام دشمنوں اور ملک دشمنوں کے افکار کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے متقدمین کے نقش قدم پر چل کر موزوں حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں، ورنہ تاریخ میں آپ ’’کتمانِ حق‘‘ کے کہیں مرتکب نہ بن جائیں۔