دبئی پلان میں کشمیر کہاں ہے؟

متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں مقیم سفیر نے کچھ دن پہلے انکشاف کیا تھا کہ یواے ای پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کام کررہا ہے، اور دونوں ملک اچھے دوست نہ بھی بنے تو دونوں میں نارمل تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔ اس سے پہلے سعودی عرب کے سفارتی ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیامِ امن کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطوں کی کہانی کے کئی پہلو سامنے آنے لگے تھے۔ اب لگتا ہے کہ یہ معاملہ خاصی حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔ سرِدست پاکستان کے سفارتی نمائندے اور اعلیٰ حکام بھارتیوں کے ساتھ کیمروں کے آگے اور پردے کے سامنے مذاکرات یا ملاقات کرنے کو تیار نہیں۔ استنبول میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں بھی پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ موجود تھے مگر دونوں کے درمیان براہِ راست ملاقات کی کوئی اطلاع نہ ملی، بلکہ فوٹو سیشن کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ فاصلے پر کھڑے رہے، اور کیمروں کی موجودگی میں جب شاہ محمود قریشی کی ایس جے شنکر سے نظریں چار ہوئیں تو انہوں نے ہلکا سا سر ہلا کر ہیلو کہا، جس کے جواب میں جے شنکر نے بھی سر ہلا دیا۔ اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک ایسے وقت میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کررہے ہیں جب وہاں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھی موجود ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک انداز میں بھارت کے ساتھ کسی بھی براہِ راست رابطے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت نہیں ہورہی، اگر بھارت پانچ اگست کے اقدامات واپس لے لے تو مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کا اپنایا گیا اصولی مؤقف ہے، اور ابھی تک حکومتی اور سیاسی سطح پر باضابطہ رابطوں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا، مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اس کام میں جُت گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کی اپنی کاوش نہیں بلکہ امریکہ نے انہیں جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ملکوں کے درمیان تعلقات کو نارمل کرنے کے مشکل ترین مشن پر مامور کیا ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ دبئی میں دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان عرب ملکوں کے نمائندوں نے شٹل ڈپلومیسی کی ہو۔
متحدہ عرب امارات میں پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور انہیں نارمل سطح پر لانے کے لیے کوئی نہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ اس دیگ میں کشمیر کہاں ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کے پاس بھارت کو دینے کو کچھ نہیں۔ بھارت نے کشمیر جیسے دیرینہ تنازعے پر یک طرفہ فیصلے کرکے پاکستان کو بیچ چوراہے کے لاکھڑا کیا ہے، اب پاکستان کے پاس اس فیصلے کی مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
یہ ایک تلخ اور دل خراش حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پانچ اگست کے بعد کی صورتِ حال میںکشمیر اور پاکستان کے حوالے سے زیادہ متوازن اور بہتر سہولت کار اور ثالث نہیں رہے۔ اس بحران میں دونوں ملکوں کا واضح جھکائو بھارت کی طرف رہا ہے۔ عملی طور پر نہ سہی مگر بیانات کی حد تک ان ملکوں نے پاکستان سے ایک فاصلہ بنائے رکھا۔ اب اگر یہی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی اور سہولت کاری کررہے ہیں تو اس میں کوئی زیادہ خوش کن پہلو نہیں۔ یہ ممالک پاکستان کو پانچ اگست کا کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ کررہے ہوں گے۔ اس سے کشمیری عوام اور محب ِکشمیر پاکستانی قوتوں میں تشویش پیدا ہونا فطری ہے۔ کشمیر کے زمینی حالات بھی بھارت کے رویّے میں کسی تبدیلی کا پتا نہیں دے رہے۔ اِس وقت تک بھارتی حکومت نے ایک سو کے قریب ایسے قوانین بنائے ہیں جن سے کشمیر میں مقامی نمائندوں کا اختیار کم ہوتا اور بھارت کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ اس کا منطقی اثر کشمیر میں آبادی کے تناسب اور کشمیر کی مسلم شناخت پر پڑنا لازمی ہے۔ کشمیر میں روزانہ نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے، گھروں کو بارود لگا کر اُڑایا جا رہا ہے، کشمیر کے قیدی ریاست کی حدود سے دور بھارت کی دور دراز جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی کشمیر کی موجودہ اور آمدہ صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں اپنائے جانے والے نئے قوانین تشویش ناک ہیں۔ اسٹیٹ سبجیکٹ کا قانون ختم کرنے کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی تمام اکائیاں کشمیری، بودھ، ڈوگرے سب اس خوف کا اظہار کررہے ہیں کہ بھارت کے سرمایہ کار ان کی زمینیں خریدنے آئیں گے اور شہریت حاصل کرکے نوکریوں پر بھی قابض ہوجائیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہریت کے نئے قوانین جموں و کشمیر کی زبان، آبادی کی شناخت،ثقافت اور مذہبی حقو ق کو متاثر کرنے کا باعث بنیں گے جن کے تحفظ کا بھارت نے دستور میں وعدہ کیا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ چھوٹے سے علاقے میں فوج کی بھاری تعداد میں موجودگی سے انسانی حقوق کی صورتِ حال متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے سیکرٹریٹ میں جموں وکشمیر کی سب سے بڑی اکائی مسلمانوں کا ایک بھی نمائندہ موجود نہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگست 2019ء کے بعد کئی رپورٹوں میں کشمیر میں مسلمان آبادی کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب بھارت کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے مگر بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ظاہر کیے جانے والے خدشات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کا مؤقف محض تصوراتی یا متعصبانہ نہیں بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات اور جواز ہے۔ اس سارے ماحول میں بھارت سے تعلقات نارمل کرنا بھارت کو تازہ دم ہونے اور اپنی ظالم کی شبیہ بدلنے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ عرب دوستوں کو جس نے بھی اس کام پر مامور کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ پاکستان کی معاشی مجبوریاں اسے عرب ملکوں کے دبائو کو قبول کرنے پر آمادہ کرتی رہی ہیں۔ پاکستان اس دبائو کا شکار اب بھی ہے۔ اگر سارے دبائو کا مرکز اور نشانہ پاکستان کو ہی بننا ہے تو پھر ایسے مذاکرات کا قطعی کوئی فائدہ نہیں، اُلٹا نقصان ہی ہے۔ اگر عرب ممالک منصفانہ انداز میں فریقین کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرتے ہیں تو یہ ایک بڑا بریک تھرو کہلائے گا۔ فی الحال سب نظریں متحدہ عرب امارات میں پکنے والی کھچڑی اور دیگ پر متجسس انداز میں لگی ہوئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا کیا ہے؟