خیال کہاں سے آتا ہے؟

خیال کہاں پیدا ہوتے ہیں، کدھر سے آتے ہیں، کِن روشن دماغوں میں بسیرا کرتے ہیں اور کیسے ان کی پرورش ہوتی ہے جن سے وہ ایک بڑے فلسفے، اہم ایجاد، قوی فن پارے یا کامیاب کاروباری خیال کی صورت سامنے آتے ہیں؟ ان سوالات پر دانش ور سراپا جستجو رہے ہیں۔ دلچسپ واقعات کی لڑی ہے جس میں رنگین قصّے دانہ دانہ موجود ہیں۔ خیال کی نمو کے لیے وقت بہت اہم ہے۔ یعنی اگر خیال اُس وقت پیش کیا جائے جب اس کی ضرورت ہو یا ضرورت کا امکان ہو تو وہ کامیاب ہوگا۔ علاوہ ازیں اس کے معاون عوامل موجود ہونا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ای کامرس کے امکان کے لیے کمپیوٹر اور ورلڈ وائڈ ویب(www) کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ہوائی جہاز کا خیال دو سو برس قبل بھی پیش کیا جا سکتا تھا مگر اس کے لیے پہلے انجن کی ایجاد ضروری تھی۔ اسی طرح یوٹیوب کو اگر تیس برس قبل متعارف کروا دیا جاتا تو یہ ناکام ہوجاتی، کیوں کہ اُس وقت نہ تو تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن تھے اور نہ وہ سافٹ ویئر موجود تھے جو ویڈیو دیکھنے میں معاون ہوتے۔ اہم تبدیلیاں لانے والا خیال ابتدا میں چھوٹا سا واہمہ یا قیاس ہوتا ہے، یہ نومولود ایک توانا خیال کی شکل بتدریج اختیار کرتا ہے۔ ڈارون کا کہنا ہے کہ اس کی مشہورِ زمانہ ’تھیوری آف نیچرل سلیکشن‘ (انتخاب فطری) مالتھس کی افزائشِ آبادی پر تحریریں پڑھتے وقت اُس کے دماغ میں پھُوٹ پڑی (مالتھس کی تحریریں عموماً وسائل اور خصوصاً خوراک کے وسائل کے آبادی کے ساتھ تعلق پر بحث کرتی ہیں)۔ ڈارون کی ڈائریوں اور نوٹ بکس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ درحقیقت اس موضوع پر وہ خاصے عرصے سے سوچ بچار کررہا تھا اور مذکورہ تھیوری کا خاکہ وہ قریب قریب تیار کرچکا تھا۔ یہ احساسِ ممکنات یا اندازہ ایک مکمل سوچی سمجھی تھیوری کی صورت میں وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوا۔ اتفاقی ملاپ یا جوڑ بھی نئے خیالات کو پیدا کرتے ہیں۔ اس کی دلچسپ مثال خوابوں میں آنے والے خیالات ہیں۔ ماہرین مطلع کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی امر یا منصوبے پر سوچتا ہوا سوجائے تو اس کا دماغ نیند میں بھی اس پر کام کرتا رہتا ہے۔ جرمن کیمیادان کیکولے نے خواب میں ایک اساطیری اژدھے کو دیکھا جو پلٹ کر اپنی ہی دُم کھا رہا تھا۔ اس خواب سے اُس کے دماغ میں یہ خیال بجلی کی طرح کوند گیا کہ کس طرح کاربن ایٹم ایک دائروی چھلے کی شکل میں بینزین کا سالمہ (مالیکیول) بنا سکتا ہے۔ ایک اور حیران کن واقعہ ہے۔ ایلیاس ہووے ایک امریکی موجد تھا جو سن 1800ء سے چلی آرہی فرسودہ سلائی مشین کا ڈیزائن زیادہ مؤثر بنانا چاہ رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں سلائی مشین کی سوئی کا ناکا اور سوراخ اُس کے سَر ہی میں رکھنے کا خیال تھا جیسا کہ آج کی عام سوئی میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اُسے ایک خواب نظر آیا۔ خواب میں چند وحشی آدم خور ہاتھوں میں نیزے لیے اُس کا پیچھا کررہے تھے۔ اُن کے نیزوں کی نوکوں میں سوراخ تھے۔ نیزوں کی نوکوں میں سوراخوں نے اُسے راہ سجھائی کہ سلائی مشین کی سوئیوں کی نوکوں میں سوراخ رکھ کر ان میں دھاگا ڈالا جائے۔ یوں جدید سلائی مشین کا خیال ایک خواب میں ایلیاس کو آیا۔ البتہ ایسے واقعات شاذ و نادر ہیں اور استثنیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک خیال سے نیا خیال برآمد ہونے کو جدید دور میں دیکھا جائے تو ٹوئٹر کو ایک معاشرتی رابطے کے نظام کے بجائے فقط ایس ایم ایس بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح سافٹ ویئر کی بنیاد پر بنے ’اوبر‘ اور ’کریم‘ کے سفری نظام کو دیکھ لیا جائے تو اس کا ابتدائی خیال دو دوستوں کے اس شکوے کی بنیاد پر وجود میں آیا کہ ٹیکسی حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ دوستوں کی ایک اور کہانی ہے۔ انہیں اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ ادا کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ انہی دنوں شہر میں ایک کانفرنس ہورہی تھی جس کی وجہ سے تمام ہوٹلوں کے کمرے بُک تھے۔ اُنہیں خیال آیا کہ کیوں نا وہ اپنے اپارٹمنٹ کی اضافی جگہ رات کے لیے کرائے پر دے دیں۔ نتیجتاً ملنے والی رقم سے نہ صرف اُنہیں اپارٹمنٹ کا کرایہ دینے میں آسانی ہوجائے گی بلکہ اضافی آمدنی بھی ہوجائے گی۔ یوں ایئر بی کا تصور سامنے آیا۔ بکنگ ڈاٹ کام بھی ایسے ہی ایک تصور کا نتیجہ ہے جسے استعمال کرکے روزانہ لاکھوں صارفین ہوٹلوں، موٹلوں، گیسٹ ہاؤسوں اور اقامتی مکانوں میں قیام کرتے ہیں۔ ٹِم برنرلی نے ورلڈ وائڈ ویب(www) کو محققین اور اسکالروں کے لیے بنایا تھا۔ بعدازاں یہ شاپنگ، معاشرتی تعلقات، صحت اور دیگر شعبوں تک رجوع کرنے کا اہم ترین نظام بن گیا۔ جی پی ایس (GPS) گلوبل پوزیشننگ سسٹم کو فوجی استعمال کے لیے بنایا گیا تھا۔ بعدازاں اس کا تجارتی استعمال اتنا بڑھ گیا کہ یہ گاڑیوں سے لے کر اشتہاری کمپنیوں تک کے استعمال میں ہے۔
(عامر خاکوانی۔ روزنامہ 92۔ 20اپریل2021ء)