فیصلے کا وقت آپہنچا

خالد بن ولیدؓ نے ایرانیوں کو لکھا تھا: ہم ایسے لوگ ہیں، جو موت کو زندگی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ جناب حسان بن ثابتؓ کا ایک شعر یہ ہے ’’کالی سانڈنیوں پر سوار ہمارے لشکر بادلوں کی طرح بھاگے چلے جاتے ہیں/ اور ان کے پہلوؤں پہ پیاسے نیزے رکھے ہیں۔ ہمارے واعظ ان کی سچی تصویر پیش نہیں کرتے۔ بے حد مہذب مگر نہایت ہی بے ساختہ لوگ تھے۔ ایک نجیب الطرفین اسپ کی طرح جوش و جذبے سے بھرے ہوئے، لیکن ان کے ہاتھ میں ہمیشہ دلیل کی تلوار ہوتی اور دلیل ہی کی ڈھال۔ جب وہ چڑھ دوڑنے پر تلے ہوں لیکن قرآنِ کریم کی کوئی آیت سنا دی جاتی، یا رسولِ اکرمﷺ کا قولِ مبارک، تو وہیں رک جاتے۔ ستون کی طرح جم کر کھڑے ہوجاتے۔ سرِمو انحراف نہ کرتے۔ ہمارا واسطہ اب لوگوں سے ہے، جو بات ریاستِ مدینہ کی کرتے ہیں اور جن میں سے بعض کے کردار عبداللہ بن ابی کے پیروکاروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی کے سب سے بڑے فلسفی برٹرینڈرسل نے کہا تھا: اخلاقیات دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں، اور ایک وہ جس پہ ہم عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کیسی ہی گئی گزری ہو، کیسی ہی ناقص ہو، ریاست محترم ہے۔ اس لیے کہ وہ محافظ اور نگہبان ہے۔ جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا اس کے سوا کوئی طریق تاریخ نے کبھی نہیں تراشا۔ ہر حال میں اسے محترم رہنا چاہیے، اگرچہ یہ عدل کے فروغ اور قانون کی پاس داری ہی سے ممکن ہے۔ امتحان کا وقت آپہنچا۔ ریاست کے لیے اور اس حکمران کے لیے بھی، جو خود کو برگزیدہ سمجھتا ہے۔ یہ مگر اسے معلوم نہیں کہ کاروبارِ حکومت مشورے سے چلایا جاتا ہے۔ مشورہ اُن سے جو مخلص اور ماہر ہوں۔ اُن سے نہیں، جو درباری آداب کے خوگر ہوں۔ حکمرانوں کے لیے مہلت اب دراز نہیں ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں، یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
یوں تو درجنوں ہیں لیکن عثمان بزدار، شیخ رشید اور علی زیدی جیسے لوگ اس بات کے مستحق نہیں کہ خلقِ خدا پہ حکم چلائیں اور اس کے باب میں فیصلے صادر کریں۔ رہنما نہیں، یہ نہایت معمولی لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کو فیصلے کا اختیار جب دے دیا جاتاہے تو تباہی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ کپتان کی ناکامی کا فیصلہ اسی وقت ہوگیا تھا، جب عثمان بزدار کو انہوں نے وزیرِاعلیٰ نامزد کیا تھا۔ وہ آدمی جو تونسہ کی ٹاؤن کمیٹی کا ناظم تھا تو جعلی ملازمین کی فوج بھرتی کررکھی تھی۔ ایک ایسا لشکر، جس کا وجود ہی نہ تھا مگر جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے۔ جس کا خاندان آج بھی اس خطے میں دندناتا پھرتا ہے۔ بات چیت یا کچھ اور؟ کپتان کی حکومت کیا امن بحال کرنے میں کامیاب رہے گی؟ اس کا فیصلہ ابھی ہوا جاتا ہے۔ اسی پر اس کے باقی و برقرار رہنے یا فنا ہوجانے کا انحصار ہے۔
(ہارون رشید۔ روزنامہ 92۔ 20اپریل2021ء)