ذہن اجالا

جناب ارشد احمد بیگ نے ’’ذہن اجالا‘‘ کے نام سے زندگی کا رُخ متعین کرنے والی یہ شاہکار کتاب تصنیف کی ہے۔ ان کی یہ تحریر اسلامی ادبی روایت سے جڑی اسلامی اخلاقیات اور انسانی رویوں کو متعین کرنے والی اور صلاح و فلاح کے پیغام کا ایک عمدہ لائحہ عمل ہے۔ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ اسلامی ادب میں حکایت و واقعات کی مدد سے بات سمجھانے کا اسلوب ایک معروف طریقہ ہے جس کا شروع قرآن حکیم فرقانِ حمید سے ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے مبارک نام سے پوری سورت قرآن مجید میں موجود ہے۔ انبیائے کرام کے حوالے سے معروف کی تبلیغ اور منکر کی اطلاع اور قباحت کی وضاحت کی گئی۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی کثرت سے یہ اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہماری چچی پنجابی زبان میں منظوم جنگ نامہ کربلا محرم میں روزانہ پڑھا کرتی تھیں اور مستورات سنا کرتی تھیں۔ مولوی غلام رسول کی منظوم یوسف زلیخا پڑھی جاتی تھی۔ اسی طرح سب اسلامی زبانوں میں اسی اسلوب میں اخلاق سنوارنے والے قصے منظوم تھے۔ فارسی میں ہر بچے کو کریما، گلستان و بوستان سعدی پڑھائی جاتی تھی جس سے ہر فرد کی اخلاقی بنیادیں استوار کی جاتی تھیں۔ یہ دورِ جدید ہے، اس میں بہت کچھ بدل گیا ہے، یہ تبدیلی اچھائی سے برائی کی طرف زیادہ ہے۔ بہرحال ارشد احمد بیگ صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے یہ مفید کتاب تیار کی ہے۔ جناب طارق محمود تحریر فرماتے ہیں:
’’زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو باتوں باتوں میں بیان کرنا اور سمجھنا سمجھانا بھی ایک فن ہے۔ جناب ارشد احمد بیگ صاحب کی کتاب ’’ذہن اجالا‘‘ میں یہ فن اپنے جوبن پہ نظر آتا ہے، جسے پڑھ کر ذہن میں تو اجالا ہوتا ہی ہے، قلب میں بھی اجالا ہوجاتا ہے۔ موصوف کی بیشتر زندگی درس و تدریس میں گزری ہے، ابھی بھی تعلیم و تعلم سے وابستہ ہیں۔ اس وقت رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ملک بھر میں ان کے ٹریننگ سیشنز بھی ہوتے ہیں۔ وہ معروف سے زیادہ مقبول ٹرینر ہیں کہ ان کی باتیں دل سے نکلتی ہیں اور دل پہ اثر کرتی ہیں۔ یہ کتاب بھی ان کی بیس سالہ شبانہ روز محنت، مشاہدات، تجربات اور تعلیم و تعلم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کتاب میں کُل 66 مضامین ہیں اور ہر مضمون انسانی زندگی سے جڑے ہوئے کسی مسئلے کا حل ہے۔
وہ باتوں سے زیادہ عمل پہ یقین رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی عمل سے عبارت ہے۔ انہی اعمال میں سے کچھ منتخب اعمال کو انہوں نے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔ اس کتاب میں کئی ایک مضامین ایسے ہیں جنہیں مصنف نے گزشتہ چند برسوں میں اپنے ٹریننگ سیشنز میں بنیادی متن کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہر مضمون میں ایک تحریک، ایک پیغام، ایک درد اور ایک عزم موجود ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے بیگ صاحب کے تدبر، تفکر اور مشاہدے کا اندازہ باآسانی ہوجاتا ہے۔ یہ مضامین دردِ دل سے لکھے گئے ہیں۔ لکھتے وقت قبولیت کی دعائیں بھی مصنف نے بہت اہتمام سے کی ہیں۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ’انٹرٹینمنٹ‘ سے زیادہ ’ٹرانسفارمیشن‘ کی کتاب ہوگی، ان شاء اللہ۔
میں نے پوری کتاب پڑھی ہے۔ اگر پڑھے بغیر لکھتا تو شاید آسانی ہوتی، لیکن پڑھنے کے بعد ایک مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ وہ مشکل کیا ہے، اسے سمجھنے کے لیے کتاب میں سے ہی اس اقتباس کو پڑھ لیجیے:
’’قارئین محترم! ہم کوئی تحریر لکھیں یا تقریر کریں، اس کے مؤثر ہونے کا تعلق الفاظ کی روانی سے کم اور فکر کی پختگی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اصل خیال مضبوط ہو اور وہ سوچ و فکر کے مراحل سے گزرا ہو تو پھر الفاظ کا چنائو اور اس کی روانی بھی حسن پیدا کرے گی، ورنہ محض لفّاظی سے سامنے والا سر تو دُھن سکتا ہے، قائل نہیں ہوسکتا۔ قائل ہونے کے لیے دلیل چاہیے، اور دلیل اس کے پاس ہوتی ہے جس کے پاس فکر کی پختگی ہو۔ گویا پیغام کے اصل جوہر کا درست ابلاغ اسی وقت ممکن ہے جب ہم نے خود اسے کسی درجے شعور کی منزلوں سے گزارا ہو اور نقد و پرکھ کی ہو۔‘‘
مصنف مزید لکھتے ہیں: ’’اس خاکسار کی عادت ہے کہ کسی اہم کتاب کے اہم جملوں کو دورانِ مطالعہ ہائی لائٹر سے نمایاں کرلیا جائے تاکہ بعد میں نوٹس بنائے جاسکیں۔ مختار مسعود صاحب کی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ میں یہی کام کرنے بیٹھا تو سمجھ نہیں آیا کہ کیا چھوڑا جائے اور کس پر ہائی لائٹر چلایا جائے۔ ہر چند سطروں بعد اہم نکتے، اچھوتے خیال، رہنما اصول… اندازہ ہوا کہ کچھ ہی صفحات میں یہ ہائی لائٹر جواب دے جائے گا، چنانچہ عافیت اسی میں ہے کہ پوری کتاب کے سارے مندرجات کو ہی لائق توجہ اور اہم سمجھا جائے۔‘‘
ہائی لائٹر میرے ہاتھ میں بھی تھا اور مجھے بھی اسی کیفیت سے گزرنا پڑا، اس لیے میں بھی عافیت اسی میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب سے پہلے کتاب کے صفحہ نمبر 281 پر موجود مضمون ’جذب و بیان‘ کو غور سے پڑھ لیں اور پھر اس مضمون میں بیان کی جانے والی اسپرٹ سے لکھی جانے والی اس پوری کتاب کے ہر ہر صفحے کو اور ہر ہر لفظ کو پڑھیں۔ ہائی لائٹر ساتھ رکھنے کی زحمت نہ کریں کہ اس کتاب کے بھی سارے مندرجات پڑھنے، سمجھنے اور اپنانے کے لائق ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مصنف کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور ہم سب کو اس سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)‘‘
جناب ارشد احمد بیگ ’’پہلے اسے پڑھ لیجیے‘‘ عنوان سے لکھتے ہیں:
’’-1 کتاب ’’ذہن اجالا‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس میں کُل 66 مضامین ہیں۔
-2 یہ مضامین جیتی جاگتی زندگی سے عبارت ہیں اور اس کی مختلف پرتوں کو کھولتے ہیں۔ اس میں حقیقی واقعات ہیں، مشاہدات ہیں، تمثیلات ہیں، یوں کہہ لیں کہ کہیں آپ بیتی ہے اور کہیں جگ بیتی۔ کوئی فکشن نہیں ہے، سب کچھ اصل اور حقیقی زندگی پر مبنی اور اسی کا ماحصل ہے۔
-3 یہ مضامین بیس سال کی تعلیم و تعلم کا حاصل ہیں۔ ہر مضمون اک خیال، اک پیغام اور اک عزم ہے، شاہراہِ زندگی پر خوش گوار سفر کے لیے زادِ راہ لیے ہوئے۔
-4 کچھ مضامین مختصر اور چند ایک موضوع کی مناسبت سے طویل بھی ہیں۔ یہ کتاب کی اسکیم کا حصہ ہی ہے۔ کچھ مکالموں کے انداز میں، کچھ علمی مقالے کی صورت میں، بعض تقریری اسلوب میں اور چند ایک تاثراتی لہجے میں۔
-5 لکھاری اور قاری کا بھی ایک تعلق ہوتا ہے، راقم نے اس کتاب کی تیاری کے پورے عرصے میں اپنے لیے اور اپنے قارئین کے لیے بھی دعائوں کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمارے لیے دنیا و آخرت کی حسنات کا باعث بنائے، آمین۔
-6 ان مضامین کا اصل مقصد علمِ نافع کی تفہیم ہے، تعمیرِ کردار ہے، تہذیبِ نفس ہے، تطہیرِ افکار ہے۔ ہاں اصلاح کا سب سے بڑا امیدوار راقم اپنے آپ کو ہی سمجھتا ہے۔
-7 زندگی میں کسی بھی لمحے آپ نے اس کتاب کو نافع اور مفید پایا ہو، کوئی الجھن دور ہوئی، کوئی نکتہ مل گیا، کوئی اصول وضع ہوگیا تو اس خاکسار کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیے گا کہ یہ اس کا محتاج ہے۔‘‘
کتاب پر اہل اصحاب کی آرا بھی دی گئی ہیں، وہ بھی ہم درج کرتے ہیں۔ جناب قاسم علی شاہ معروف استاد، مصنف اور مقرر ہیں، اس کے ساتھ چیئرمین قاسم علی شاہ فائونڈیشن بھی ہیں، وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’کتاب ایک ایسا رفیقِ زندگی ہے جو آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو عجائباتِ زمانہ دکھاتا ہے اور قسم قسم کے راز آپ پر افشا کرتا ہے۔ کتاب اگر اپنے قاری کو فہم نہ دے، نئی سوچ نہ دے اور اس کے علم و عمل میں اضافہ نہ کرے تو اس کی حیثیت تاثیر سے خالی الفاظ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
’’ذہن اجالا‘‘ کتاب کا مسودہ موصول ہوا جس کو پڑھ کر میں حیران رہ گیا، کیوں کہ ایک کتاب میں انسانی زندگی سے متعلق ہر نوع کے موضوعات کو بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ انسان دنیا کو جس قدر گہری نظر سے دیکھتا ہے اور حالات و واقعات کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے اتنا ہی اس کی بات چیت اور تحریر میں تاثیر بھی بڑھتی ہے، کیوں کہ تجربہ عقل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
’’ذہن اجالا‘‘ بھی محترم ارشد احمد بیگ صاحب کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ایک بہترین کتاب ہے، اس میں جہاں زندگی گزارنے کے اصول بتائے گئے ہیں، وہیں دل چسپ واقعات سے پُراثر اسباق بھی قاری کو دیے گئے ہیں۔ کتاب میں کہیں ادبی رنگ نظر آتا ہے، کہیں معاشرتی کمزوریوں پر اصلاحی وعظ و نصیحت… کہیں مغربی مفکرین کے طرز زندگی اور ان سے حاصل شدہ سبق، کہیں سیلف ہیلپ کے رہنما اصول، تو کہیں اسلام کی اصل فطرت و روح کو دل نشین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کا طرزِ تحریر آسان فہم اور دل چسپ ہے۔ ضرورت سے زیادہ تفصیل سے پرہیز کیا گیا ہے جو کہ میرے خیال میں کسی بھی تحریر کو معیاری بنانے کے لیے لازمی امر ہے۔ ہر موضوع کے ساتھ ایک ٹیگ لائن اور صفحے کے اطراف میں اسی مضمون سے ایک بہترین جملہ لگاکر کتاب کے حُسن میں اضافہ کیا گیا ہے۔
’’ذہن اجالا‘‘ ایک بہترین اور کارآمد کتاب ہے اور میرے خیال میں ہر صاحبِ علم اور کچھ پا لینے کی جستجو رکھنے والے افراد کو یہ ضرور پڑھنی چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشد احمد بیگ صاحب کے علم و قلم میں مزید برکت عطا فرمائے، آمین۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کی رائے ہے:
’’ادب اور انسانی زندگی میں روح اور جسم کا سا تعلق ہے اور زندگی رشتوں کا نام ہے۔ یہ رشتے طبعی ہوں، روحانی ہوں، اخلاقی ہوں یا قانونی، ان کے بغیر زندگی کا اپنا وجود مشتبہ ہوجاتا ہے۔ الہامی ہدایات ادبِ عالیہ کی کامل ترین شکل میں انسان کی زندگی کو غذا فراہم کرتی ہیں۔ قرآن کریم کا نزول ایک ایسی قوم میں ہوا جسے اپنے ادب پر ناز تھا۔ قرآن کریم کا یہ عالمی اثر ہر اُس زبان پر پڑا جسے قرآن پر ایمان لانے والے افہام و تفہیم کے لیے استعمال کررہے تھے۔ اردو نے یہ اثر ایسا قبول کیا کہ یہی اس کا تشخص بن گیا۔
خالقِ کائنات کس طرح ایک بظاہر مشکل کو آسانی میں تبدیل کردیتا ہے۔ انسان عقل و دانش کے باوجود اکثر کتنی محدود بصارت رکھتا ہے۔ اللہ جو صرف رحم، رحمت، عفو و درگزر اور شفقت اور فضل و کرم ہے، اپنے بندوں کی کوتاہیوں کے باوجود ان پر کتنا مہربان و شفیق رہتا ہے۔ اس کا تعلق ان روزمرہ کے بظاہر معمولی واقعات سے ہے جن پر ہم سرسری طور پر گزرجاتے ہیں۔ اگر ان میں سے سب واقعات پر نہیں صرف ایک آدھ کے کسی ایک پہلو پر ایک لمحے کے لیے غور کرلیا جائے تو ایک ایک رمق میں ایک پوری کائنات کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔
برادرم ارشد احمد بیگ کے یہ مختصر انشائیے نثر میں سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں جن میں سلاستِ بیان، فکر کی گہرائی، پیغام کا جوش اور ایک مصلح کی فکر جھلکتی ہے۔ یہ انشائیے اپنی اثر انگیزی کے سبب ذہنوں کو جِلا بخشنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ کتاب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہے، ابھرتے نوجوانوں کے لیے، ڈھلتی عمر کے پختہ ذہنوں کے لیے، گھریلو خواتین اور پروفیشنل افراد کے لیے، اور اُن کے لیے بھی جو اب سفید ریش ہوکر سامانِ سفر سمیٹ رہے ہیں… اک پیغام، اک لائحہ عمل، اک عزم لیے ہوئے۔
میں دعاگو ہوں کہ یہ تعمیری ادب نوجوان نسل کو شعور و آگہی دینے میں مددگار ہو۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔‘‘
کتاب اس قابل ہے کہ ہر گھر میں موجود ہو، پڑھی جائے اور اس کے مضامین سے استفادہ کیا جائے، اور ان میں پیش کیے گئے مثبت خیالات کو اپنے اخلاق و کردار کا حصہ بنایا جائے۔
کتاب کی پیش کش بھی بڑی عمدہ ہے۔ سفید کاغذ پر حسین و جمیل طبع کی گئی ہے، رنگین لیکن سادہ سرورق سے آراستہ ہے۔