پنجاب کا علاقہ جو ننکانہ صاحب کے نام سے معروف ہے، بعض وجوہ کی بنا پر اب بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہاں کی مقامی تنظیموں کے اشتراک سے ہونے والی ادبی کانفرنسوں اور پروگراموں کے علاوہ ان کے ’’سالانہ انٹرنیشنل ایوارڈ پروگرام‘‘ ہیں۔
ننکانہ کی ’’بھیل انٹرنیشنل ادبی سنگت‘‘ جو کہ زاہد اقبال بھیل کی صدارت، اور پروفیسر شبیر حسین زاہد کی سرپرستی میں کئی سال سے مستقل طور پر ادبی نشستوں کے انعقاد کے علاوہ پورے پاکستان کے قلم کاروں اور ادبی شخصیات کے لیے انعامات اور ایوارڈ دینے کا اہتمام کرتی ہے، پچھلے سال لاک ڈائون کی گمبھیر صورتِ حال کے پیش نظر پروگرام اپنے مخصوص اور منظم انداز میں نہ کرسکی تھی۔ لیکن اِس مرتبہ مارچ کے آخر میں ’’بھیل انٹرنیشنل ادبی سنگت‘‘ نے ’’کھرل ادبی سنگت‘‘، ’’شیر ربانی فائونڈیشن‘‘ اور ’’منگیرہ ادبی سنگت‘‘ کے تعاون و اشتراک اور مقامی حضرات سے مل کر ملکی حالات اور لاک ڈائون کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تیسرے سالانہ بھیل انٹرنیشنل ادبی ایوارڈ 2021ء کی رنگارنگ اور خوبصورت تقریب کا انعقاد پُرفضا کھیتوں کے درمیان کھلی جگہ پر کرنے کا اہتمام کیا، تاکہ ایس اوپیز کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔
تلاوتِ کلام پاک اور حمد و نعت کے بعد پاکستان کے دور دراز شہروں سے آئے ہوئے ملک کے معروف شعرا و ادبا کو ان کی نگارشات و تخلیقات پر ایوارڈ کے علاوہ مقامی تنظیموں کی طرف سے اسناد بھی پیش کی گئیں۔ وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ادبا، شعرا، قلم کاروں اور مدیران گرامی کو ان کی تخلیقات و نگارشات پر ایواڈ و اسناد کے علاوہ انعامات بھی دیے گئے۔ تخلیقی کتابوں کے مصنّفین کی چادر پوشی اور تاج پوشی بھی کی گئی۔
پروگرام کی صدارت جسٹس اصغر فہیم بھٹی (اوکاڑہ)، پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی (بھکر)، پروفیسر سیّد شبیر حسین زاہد (ننکانہ)، ڈاکٹر مشرف حسین انجم (سرگودھا)، علامہ زاہد حسین نعیمی (آزاد کشمیر) اور سیّد حامد شاہ بخاری نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں مجاہدِ ختمِ نبوت صادق علی زاہد ، معروف اشاریہ ساز اور محقق محمد شاہد حنیف، پنجابی شاعر فقیر اثر انصاری، پروفیسر اکبر علی غازی، احسان فیصل کنجاہی (فیصل آباد)، حکیم ناز جلالولی، محمد لطیف کھوکھر، ڈاکٹر عبدالماجد حمید المشرقی (چیئرمین کارِ خیر فائونڈیشن، گوجرانوالہ)، سعید اُلفت، ممتاز راشد لاہوری، ارشد علی ڈوگر (اقبال اکادمی پاکستان)، علامہ محمد یونس نوشاہی، ماسٹر عبدالغفار، پروفیسر محمود حسین (آزاد کشمیر)، علامہ قاری منیر احمد نوشاہی، ڈاکٹر عرفان احمد خان، متین کاشمیری، عبدالرشید شاہد ، عاشق علی فیصل، مقبول ذکی مقبول صاحبانِ علم و فضل شامل تھے۔
خواتین قلم کاروں میں رابیل رانی، ڈاکٹر رائو مسرت نورین، سعدیہ ثوبیہ، صائمہ یاسمین، عروج جہانگیر، خالدہ جمیل ، صائمہ محمد علی، کرن محمود، مہ جبین ملک، گل ر خ طوبیٰ، عائشہ لطیف کھوکھر اور نجمہ شاہین کو انعامات و اسناد کے علاوہ چادریں بھی پیش کی گئیں۔ سیالکوٹ کے معروف ادیب پروفیسر اکبر علی غازی کی طرف سے بعض تخلیقی خدمات پر نقد انعام بھی پیش کیا گیا۔
تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دو سو سے زائد حضرات و خواتین شریک ہوئے جن میں ننانوے فیصد دینی، ادبی، تحقیقی اور تخلیقی کتب کے مصنّفین اور پاکستان کے معروف ادبی رسائل کے مدیرانِ کرام شامل تھے، اور پروگرام سے ایک دن قبل ہی بہت سے لوگ پروگرام میں شرکت کے لیے ننکانہ پہنچ چکے تھے، جن کے قیام و طعام کا خاص بندوبست ڈیرا بھیلاں میں کرنے کے علاوہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی دی گئی۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض مجلہ ’’کاروانِ ادب‘‘ کے مدیر اور معروف پنجابی شاعر جناب عقیل شافی نے انجام دیے۔
تقریبِ تقسیم انعامات کے علاوہ اس پروگرام میں کتاب ’’ادبی ستارے‘‘ مصنف زاہد اقبال بھیل اور ننکانہ کے مجلہ ’’قلم و قرطاس‘‘ (2021ء) کے علاوہ پروفیسر شبیر حسین زاہد کی زیر ادارت تخلیقی اور ادبی مجلہ ’’حسنِ نظر‘‘ کے تازہ شمارے کی تقریب رونمائی بھی کی گئی اور تمام حاضرین و سامعین کو کتاب کے ساتھ یہ رسائل اعزازی طور پر فراہم کیے گئے۔
پروگرام کے اختتام پر بھیل انٹرنیشنل ادبی سنگت کے صدر زاہد اقبال بھیل نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کیا کہ جس کی توفیق سے اس کام کی سعادت ملی، اس کے بعد اس بین الاقوامی پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اس پروگرام کے لیے تعاون کرنے والے تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں ان تمام ساتھیوں اور تنظیموں کا ممنون ہوں جنھوں نے اس پروگرام کو ترتیب دینے سے لے کر آخر تک میرا ساتھ دیا۔ انھوں نے مہمانوں کا بھی خاص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں سب ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں کا ممنون ہوں جنھوں نے ان ملکی حالات میں خصوصی طور پر اس پروگرام کے لیے وقت نکالا اور پنجاب کے اس سرسبز خطے میں تشریف لاکر اس انٹرنیشنل ایوارڈ پروگرام کو رونق بخشی۔ نائب صدر رائے محمد اعظم نے حمد و ثنا کے بعد اپنے الوداعی خطاب میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔