ماہِ رمضان کے روزے اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’’الطب النبوی‘‘ میں لکھا ہے : ’’روزہ روح، دل اور بدن کی بیماریوں سے بچانے کے لیے ڈھال ہے۔ اس کے فائدے بے حد و بے شمار ہیں۔ روزوں کا حفظانِ صحت پر عجیب اثر پڑتا ہے۔ روزے سے مضرت رساں فضلات اڑ جاتے ہیں اور انسانی نفس اذیت سے محفوظ ہوجاتا ہے‘‘۔
بلاشبہ روزے صحت کے لیے بہت مفید ہیں۔ بڑے بڑے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ روزہ صحت پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو بعض مخصوص امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، روزے ان کے لیے نفع بخش ثابت ہوتے ہیں اور وہ ان امراض سے نجات پا جاتے ہیں، جیسے بلڈ پریشر، ہاضمے کی خرابیاں، دل کی تکلیفیں وغیرہ۔
ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں۔ اس کا بہترین ثبوت اسپتالوں کے وہ رجسٹر ہیں، جن میں مریضوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ ان مریضوں پر، ان کے دوا دارو اور علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوجاتے ہیں، جنہیں ہم انسانی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ گویا روزہ اقتصادی فائدے کا باعث بھی ہے۔
پروفیسر لولوہ صالح اپنی کتاب ’’الوقایۃ الصحۃ علی ضو، الکتاب والسۃ‘‘ (کتاب و سنت کی روشنی میں صحت و پرہیز) میں لکھتی ہیں: ’’روزہ رکھنے کے فائدے جو صحت اور تندرستی کے حوالے سے حاصل ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب تو ایک عام شخص بھی اس حقیقت کو جانتا ہے اور اس کے نتائج کو محسوس کرتا ہے۔ وہ روزوں کے عمدہ صحت بخش فوائد کا اعتراف کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر جمعہ کہتے ہیں: ’’روزے سے ہائی بلڈ پریشر نارمل ہوجاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں بلڈ پریشر کے کلینک اور اسپتالوں کے متعلقہ شعبوں میں اس مرض کے مریضوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔‘‘
نظامِ انہضام کو روزوں کی بدولت بہت فائدہ ہوتا ہے۔ جب انسان کو روحانی ماحول، خاموشی اور تزکیہ پرور آسودگی میسر ہوتی ہے تو اس کا اثر ہاضمے کے نظام پر بھی براہِ راست پڑتا ہے۔ نظامِ انہضام ایک طویل مدت تک بدہضمی سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ پروٹین اور نشاستہ پر مشتمل غذا سے آنتوں اور انتڑیوں کو پہنچنے والی تکالیف کا علاج کرنے میں روزہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وے وال فرڈ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے اور فاقہ کشی سے انسان کی عمر طویل ہوجاتی ہے، کیوں کہ روزہ صحت کو بہتر بناتا ہے اور بدن کو مضرت رساں فضلوں سے پاک کرتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز اسماعیل کہتے ہیں: ’’طبی لحاظ سے روزہ بہت سے مواقع پر اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ اکثر اوقات میں پرہیز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ بہت سے حالات میں روزہ ہی واحد علاج ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مائیک فیڈن کہتے ہیں: ’’ہر شخص روزہ رکھنے کا محتاج ہے اگرچہ وہ بیمار نہ بھی ہو، کیوں کہ جسمِ انسانی میں غذائوں، دوائوں اور تمباکو نوشی کے زہر اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور انسان کو مریض بنا دیتے ہیں۔ اسے سست اور کم متحرک بنا دیتے ہیں‘‘ (ان کا یہ پیغام عام مریضوں کے لیے بالعموم اور تمباکو نوش خواتین و حضرات کے لیے بالخصوص بہت اہم ہے)۔
بہت سی طبی تحقیقات اور مطالعات نے واضح کردیا ہے کہ تمباکو کا دھواں ایک زہر ہے۔ بدقسمتی سے تمباکو کا نشہ بہت سے ممالک میں عام ہوچکا ہے۔ مشرق و مغرب کے کروڑوں لوگ اس نشے کے عادی ہیں۔ تمباکو نوشی کے نتیجے میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اب تو تمباکو نوشی کے صحت کے لیے مضر اثرات ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکے ہیں۔ ان نقصانات سے کسی کو بھی انکار نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات انسان کے پورے جسم کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ نظامِ انہضام، اعصابی نظام، دورانِ خون کے نظام، گردوں کے نظام، جنسی تعلق، بچوں، حتیٰ کہ رحمِ مادر میں پرورش پانے والے جنین کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
امریکن سرجن اریگارٹس گراہم کہتے ہیں: ’’یہ ایک بالکل واضح حقیقت ہے کہ تمباکو نوشی، کینسر کی بیماری کو 20 گنا زیادہ بڑھا دیتی ہے۔‘‘
تمباکو نوشی سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں مطالعات، حقائق، اعداد و شمار اور جائزے بہت مرعوب کن اور خوف ناک ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ملک میں تقریباً 20 ہزار افراد کا انتقال دل کی بیماریوں کی وجہ سے ہوا، 15 ہزار پھیپھڑوں کے امراض کی وجہ سے جاں بحق ہوئے، اور 33 ہزار کینسر کے مرض کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہ سب کچھ ایک سال میں ہوا۔
سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر آندرے سویپران کہتی ہیں: ’’حفظانِ صحت کے اصولوں کا تقاضا ہے کہ تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ تمباکو کے دھویں سے آلودہ مقامات سے دور رہا جائے۔‘‘
رمضان کا مہینہ اس کے لیے بہترین موقع ہے۔ بقول ڈاکٹر رابرٹ بارٹلر: ’’اس میں شک نہیں کہ روزہ جراثیم سے نجات پانے کے لیے ایک فعال ذریعہ ہے۔
یہاں روزوں سے متعلق حفظانِ صحت کے کچھ قواعد اور حقائق عرض کیے جاتے ہیں:
اولاً: ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’شرعی روزہ رکھنے سے صحت کی حفاظت ہوتی ہے، (باقی صفحہ 41پر)
بدن اور نفس کی ریاضت و مشق ہوتی ہے۔ کوئی بھی صحیح الفطرت انسان اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔‘‘
ثانیاً: ’’ایک مغربی ڈاکٹر کہتا ہے: ’’سال میں ایک ماہ روزے رکھنے سے بدن میں ایک سال کے دوران جمع ہونے والے تمام فاسد و مُردہ مادے ختم ہوجاتے ہیں۔‘‘
ثالثاً: ایک عمر رسیدہ خاتون ’’میثیل انجلو‘‘ کہتی ہیں: ’’میں اپنی صحت، قوت اور اپنی بڑی عمر میں چستی و توانائی کی حفاظت کرنے پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ اس عمر میں صحت و توانائی کا راز یہ ہے کہ میں وقتاً فوقتاً روزے رکھتی ہوں۔ میں ہر سال ایک ماہ روزے رکھتی ہوں، ہر مہینے میں ایک ہفتہ روزے رکھتی ہوں، اور ہر ہفتے ایک دن روزہ رکھتی ہوں۔‘‘
رابعاً: ایک شخص 11 دن مسلسل روزے رکھے تو اس کا وزن 11 کلو گرام کم ہوسکتا ہے اور معدہ صحیح اور قوی۔ دوسرے ہفتے کے روزے مکمل کرنے کے بعد اس کے بدن سے وہ تمام نمکیات نکل گئے جو اس کی عرق النسا (ران سے شروع ہونے والا جوڑوں کا درد) بیماری کا سبب تھے۔
(ترجمان القرآن، مئی 2017ء)