جام کمال کی حکومت انحصار پر کھڑی ہے، ورنہ تو ان میں اتنا کمال نہیں کہ چند دن بھی اپنی حکومت کا تحفظ کرسکیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے بھانت بھانت کے لوگ اپنی اپنی ترجیحات کے تحت وابستہ ہیں۔ اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور ایک دو دوسری جماعتوں کے ارکان بھی حلقۂ انتخاب اور جماعتی مفادات کو مقدم سمجھتے ہیں۔ جام کمال کی ذات میں کئی خصوصیات اور کئی خوبیاں موجود ہیں۔ اپنی جماعت اور اتحادیوں کو بے شک ساتھ لے کر چلیں، مگر جہاں صاف صاف اصول و میرٹ کی پامالی ہو وہاں مصلحتوں کے اسیر نہ بنیں۔ اپنی نیک نامی کسی کے لیے دائو پر نہ لگائیں۔ سول بیورو کریسی میں خامیاں ہوں گی، مگر زیر عتاب اسے بھی رکھا گیا ہے۔ حکومت کسی کو عہدے پر ٹکنے نہیں دیتی۔ ظاہر ہے اس میں جام کمال کی منشا بھی ہوتی ہے۔ پارٹی و اراکینِ اسمبلی اور اتحادیوں کے مطالبے کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جام کمال نے اپنی اَنا کے تحت ایڈیشنل چیف سیکریٹری عبدالرحمان بزدار کو عہدے سے ہٹاکر عبدالصبور کاکڑ کو اُن کی جگہ اس عہدے پر بٹھایا۔ جب انہوں نے بعض وزراء کے دیے گئے منصوبوں کے ریوژن یعنی دوبارہ ٹینڈر کرنے کے احکامات نہ مانے تو دو ماہ کے اندر ہی انہیں منصب سے ہٹادیا گیا۔ صوبائی حکومت کا یہ طرزعمل اب عام ہے، سول بیوروکریسی کی تضحیک جیسے یہ اپنا حق سمجھتی ہے۔ چناں چہ وزیراعلیٰ کارکردگی اور صوبے کی بیوروکریسی پر توجہ دیں۔ جن کی بے جا فرمائشیں مانی جاتی ہیں وہ قبلہ تبدیل کرنے میں مہارت رکھنے والے لوگ ہیں۔ جام کمال مشکلات سے خود کو نکالنے کا ہنر سیکھیں۔ اس میں انہیں دھکیلنے والے ان کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ ملازمین کا دھرنا کم الجھا ہوا معاملہ ہرگز نہ تھا۔ لہٰذا ملازمین کا مسئلہ عدالتِ عالیہ میں جانے سے پہلے سلجھاتے تو اچھا ہوتا۔ جام کمال خان اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ڈھائی سال کی حکومت میں17985لوگوں کو مختلف محکموں میں ملازمتیں دی ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ صوبے کی ترقی اور عوام کی بہبود کے اقدامات پوشیدہ نہیں رہیں گے۔
گرینڈ الائنس کا 29 مارچ سے 9 اپریل تک کا طویل دھرنا جام حکومت کے اعصاب پر کم بھاری نہ تھا کہ اب درمیان میں عدالتِ عالیہ بلوچستان آچکی ہے جس کی ہدایت پر دھرنا مؤخر کیا گیا ہے۔ یعنی اگر بات نہ بنی تو پھر سے سڑکوں پر ڈیرے ڈالے جاسکتے ہیں۔ وکلا نے عدالت سے رجوع کیا، جن کی درخواست کی سماعت عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران مندوخیل نے کی۔ عدالت میں 8 اور 9 اپریل کو گرینڈ الائنس اور سرکاری نمائندے پیش ہوئے۔ حکومتی سطح پر دو کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ سیکریٹریز پر مشتمل کمیٹی ملازمین کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ عدالت کو پوری صورت حال سے آگاہ کیا جاتا رہے گا۔ ملازمین کے جائز مسائل حل ہوں گے تو فائدہ ان سے وابستہ لاکھوں افراد کا ہوگا۔ 12اپریل کی سماعت میں حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ گرینڈ الائنس اور حکومتی کمیٹی کے درمیان 19نکات میں سے 9نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔ گرینڈ الائنس میں شامل ملازمین تنظیموں کا پہلا مطالبہ تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا ہے۔ عدالت نے حکومتی کمیٹی اور گرینڈ الائنس کے درمیان طے پانے والے نکات کا نوٹیفکیشن اگلی سماعت پر طلب کیا۔ عدالت نے ملازمین کی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ گورنر ہائوس، وزیراعلیٰ ہائوس اور سول سیکریٹریٹ سمیت اضافی الائونسز حاصل کرنے والے 4 محکموں کے ملازمین اور بلوچستان میں خدمات دینے والے دیگر صوبوں کے افسران کو اضافی مراعات دینے کی تفصیل بھی مانگ لی ہے۔گویا اب معاملہ عدالت کے ذریعے حل کی طرف جائے گا۔جام کمال کے پیش نظر کوئلے کی صنعت کی مشکلات بھی رہنی چاہئیں۔ کوئٹہ، کچھی، ہرنائی وغیرہ میں کوئلہ کان مالکان اور مزدور گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں ۔ مالکان کہتے ہیں کہ سیکورٹی وجوہات کی بناء پر مزدور کام پر نہیں آتے، شدت پسندوں کی الگ الگ تنظیمیں ان سے فی ٹن بھتہ وصول کرتی ہیں، جبکہ سیکورٹی کے نام پر ایف سی کو بھی رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود ان کے کاروبار شدید بحران سے دوچار ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں بھتہ یا جبری ٹیکس کھلے عام وصول کرتی ہیں۔ کوئلہ کان کنی بلوچستان کی اہم صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہ ہزاروں افراد کے براہِ راست اور لاکھوں افراد کے بالواسطہ روزگار کا ذریعہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ یا تو وہ کوئلے کی صنعت کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، یا اس صنعت سے وابستہ افراد کے تحفظ اور کاروبار کی بحالی کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرے۔