”قبائلی دہشت گردی اور اُجڑے ہوئے خاندان“

بروز پیر 12 اپریل 2021ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر کالم نگار سکندر بوزدار نے سندھ میں آئے دن ہونے والے خونریز قبائلی جھگڑوں کے بارے میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
…٭…٭…٭…
’’سندھ میں ایک مرتبہ پھر سے جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اور ان پر ہاتھ ہلکا رکھا جارہا ہے، اور اس کے نتیجے میں سندھ کے اندر قانون اندھا، بہرا، گونگا، معذور اور مفلوج ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جس طرح سے انگریز اپنے وفاداروں کو جائدادیں اور جاگیریں دیا کرتے تھے بعینہٖ سندھ کے اضلاع بھی بطور تحفہ وڈیروں کو دے دیے گئے ہیں۔ بغیر کسی سرکاری نوٹیفکیشن کے ڈی سی، ایس ایس پی ایز کو منشی بناکر سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ تھانوں کے ایس ایچ اوز سرداروں کے کمدار (ذاتی ملازم) بن کر ہر غیر قانونی حکم کی بجا آوری کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک مخصوص سوچ کے تحت سندھ کے اندر افراتفری پھیلا کر لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جارہا ہے۔ ویسے تو سارا صوبۂ سندھ ہی لاقانونیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے لیکن گھوٹکی، سکھر، شکارپور، کشمور، کندھ کوٹ، دادو، لاڑکانہ، خیرپور اور ضلع جیکب آباد، جہاں پر قانون وڈیروں کے پیروں میں بچھائے گئے قالین کی مانند پامال ہورہا ہے، خصوصیت کے ساتھ بدامنی کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ وڈیروں اور سرداروں کی مرضی پر منحصر ہے کہ جیسا وہ چاہیں ویسا ہی کریں۔ چند دن قبل گھوٹکی میں ایک بھوتار حاجی خان مہر نے انڈین فلموں کے ولن کی طرح سے اپنے ایک نوکر موچارو مہر سے معمولی بات پر ناراض ہوکر اُس کے اوپر اپنی گاڑی چڑھاکر زندگی بھر کے لیے اُسے معذور بنا ڈالا، لیکن افسوس کہ قانون حرکت میں نہیں آسکا۔ ایس ایس پی گھوٹکی نے بادلِ نخواستہ صحافیوں کی جانب سے مذکورہ ظلم کے خلاف سوشل میڈیا پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی وجہ سے ایس ایچ او کھینجو تھانہ کو بعداز تحقیق رپورٹ جمع کروانے کا حکم تو دیا ہے، لیکن جس ملک میں قانون کی بالادستی کا یہ عالم ہو کہ شراب کو بھی شہد بنادیا جائے، وہاں پر یہ خدشہ بالکل بجا ہے کہ دیدہ دانستہ گاڑی چڑھا کر دائمی معذور بنادینے والے ظلم کو بھی بالآخر اتفاقی حادثہ ہی قرار دے کر داخلِ دفتر کردیا جائے گا۔ لیکن یقین رکھنا چاہیے کہ موچارو مہر کی آہ و فغاں سن کر اللہ کے دربار سے اسے انصاف ضرور ملے گا اور اس مظلوم کی فریاد بہرطور رنگ لاکر رہے گی۔ یہ ہے ہمارے ہاں کے سرداروں کی اپنے مقامی عوام سے ’’محبت‘‘ کا عالم، اور اپنی اولاد کی تربیت کا انداز… جو آباو اجداد سے خدمات سرانجام دینے والے اپنے ملازمین کو بھی معمولی لغزش کی سزا دینے سے بھی باز نہیں آتے۔
سندھ میں کاروکاری کا بہانہ بناکر (فریق مخالف کی) زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کرنا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ حال ہی میں ضلع شکارپور کے رُستم تھانے کی حدود میں جتوئی برادری کے دو گروہوں میں کاروکاری کے تصادم میں آٹھ قیمتی جانیں لقمۂ اجل بن گئیں اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ جھوٹی اَنا کی خاطر کئی عورتوں کا سہاگ اُجڑ گیا، بہت سارے بچے یتیم ہوگئے، متعدد مائوں کی آغوش خالی ہوگئی۔ کندھ کوٹ اور کشمور میں تو اکثر قبائلی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں (صرف بجارانی اور تیغانی قبائل کے جھگڑے میں تاحال 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، مترجم)۔ سندھ کے اکثر اضلاع اس وقت بھی میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ ہفتۂ رفتہ ضلع جیکب آباد کی تحصیل گڑھی خیرو میں کٹوہر اور جلبانی برادری کے درمیان قبائلی جھگڑے کے باعث تین معصوم بچوں سمیت 12 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جب تک قریبی تھانے پر تعینات پولیس اہلکار موقع پر پہنچتے، واردات میں ملوث مسلح افراد باآسانی فرار ہوچکے تھے۔ لگتا یہ ہے کہ سندھ میں قبائلی جھگڑے سرداری نظام کے تحفظ کے لیے جان بوجھ کر کرائے جارہے ہیں، تاکہ ریاست کے اندر قائم شدہ سرداروں کی ریاست ہمیشہ قائم و دائم رہ سکے۔
سندھ میں ڈاکو راج، لاقانونیت اور قبائلی جھگڑوں سمیت کاروکاری جیسی مکروہ رسومات نے سندھ بھر کو ایک طرح سے مفلوج بنا ڈالا ہے۔ ہر روز اخبارات میں کئی شہروں میں ہونے والے خونِ ناحق پر مبنی قتل کی بہت ساری خبریں رپورٹ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اہلِ سندھ کا چین اور آرام ختم ہوگیا ہے۔ ترقی کا سارا سلسلہ بھی ان واقعات کی وجہ سے رُک سا گیا ہے۔ اس وقت بھی سندھ بھر میں چھوٹی بڑی دو سو سے زائد مختلف برادریوں میں خونیں لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے اس وقت تک بلامبالغہ ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، اور یہ المناک سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں تباہ ہوچکی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد لڑنے والے قبائل کے ہاں آکر ٹھیرتے ہیں اور قبائل کے مابین ہونے والے خونیں جھگڑوں میں جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں۔ وہ متحارب قبائل کو لڑنے پر اُکساتے ہیں اور اس کے عوض رقم، اناج، مویشی وغیرہ ان سے بٹورتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی کرتے ہیں، جس سے علاقے کا امن اور زیادہ تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان قبائلی جھگڑوں سے ان جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ساتھ مقامی سردار، وڈیرے، پولیس اہلکار اور افسران بھی بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ قبائلی جھگڑوں کی بنا پر نہ صرف کاروباری سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں بلکہ متاثرہ علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر محیط زرعی زمینیں بھی بنجر اور غیر آباد ہورہی ہیں۔ مقامی افراد مجبوری اور بے روزگاری کی وجہ سے حالات سے تنگ آکر بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے لگے ہیں، جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ سندھ میں ترقی کا عمل جو پہلے ہی بہت کم تھا اب مزید زوال پذیر ہوچکا ہے۔ یہ قبائلی خونریز لڑائیاں عام طور پر کاروکاری، زمین کے کسی ٹکڑے، یا بچوں کے مابین کسی چھوٹے موٹے جھگڑے سے شروع ہوتی ہیں اور پھر ان کا اختتام بڑی بڑی ہولناک خونریز لڑائیوں پر ہوتا ہے۔ بلاشبہ ان قبائلی جھگڑوں میں مقامی قبائلی سردار بھی پوری طرح سے ملوث ہوتے ہیں، جو اپنے ذاتی فوائد کے لیے ان جھگڑوں کو ختم کرانے کے بجائے مزید بڑھاوا دیتے رہتے ہیں۔ قبائلی جھگڑوں کی زد میں آنے والے علاقوں کے تعلیمی ادارے بند ہیں اور بچوں کی تعلیم اس وجہ سے ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ بعض لڑائیاں شروع ہوئے تو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، جو درجنوں بے گناہ افراد کی جانیں لینے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں (کبھی بااثر دردِ دل رکھنے والے حضرات یا جماعت اسلامی کے رہنما بھی ان لڑائیوں کو ختم کرنے کے لیے منت میڑھ قافلے کی صورت میں ہاتھوں میں قرآن لے کر متاثرہ فریقین کے ہاں جاکر ان لڑائیوں کو بند کروانے کی سعی کرتے ہیں، مترجم)۔ کاش! بے گناہ افراد کی جانیں لینے والی یہ رائیگاں قبائلی لڑائیاں ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں اور سندھ ایک بار پھر سے سرزمینِ امن و محبت اور خوشحالی کا گہوارہ بن جائے… اے کاش۔‘‘