ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصار ی کا انٹرویو
ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری ملک کے معروف ماہر امراضِ خون ہیں، وہ گزشتہ بیس سال سے تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج بھی کررہے ہیں، اور اب تک سیکڑوں کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی کرچکے ہیں۔ ان کے کئی تحقیقی مقالے بین الاقوامی جریدے میں بھی شایع ہوچکے ہیں۔ ان دنوں وہ گلشن اقبال میں واقع چلڈرن اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر اور سی ای او ہیں۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری ایک فلاحی ادارے عمیر ثناء فاؤنڈیشن کے روحِ رواں بھی ہیں جہاں تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ان سے خون کے امراض کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے جو نذرِ قارئین ہے۔
…٭…٭…٭…٭…
فرائیڈے اسپیشل:بدقسمتی سے خون کے عوارض وقت کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں، ہم جاننا چاہیں گے کہ خون کی عام بیماریاں کون کون سی ہیں جن سے آگاہ ہونا ضروری ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: دنیا بھر میں سب سے زیادہ خون کی جو بیماری پائی جاتی ہے وہ خوراک کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، جسےNecational Anemia کہتے ہیں۔ توانائی کی کمی سے ہونے والے اس عارضے کی مختلف اقسام ہیں جن میں Iron-Deficiency Anemia۔ B12-Deficiency Anemia اورFolic Acid Deficiency Anemia شامل ہیں۔ ان تینوں منرلز اور وٹامنز کی کمی کی وجہ سے خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے اور عمر کے مختلف حصوں میں مختلف طریقوں سے بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں ایک سے پانچ سال کے بچے ہیں جو ماں کا دودھ پیتے ہیں یا باہر کا دودھ پیتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ کھانے کو نہیں لیتے، کھجور، گوشت، سیب یا دیگر خوراک نہیں لیتے جن میں یہ وٹامنز یا منرلز موجود ہوں، چنانچہ اس کے نتیجے میں ان میں خون بنانے والے بلڈنگ بلاکس کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے اور وہ کمزور ہوجاتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:۔اس سے کس قسم کے اثرات پڑتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری:خون کا کام جسم میں توانائی پہنچانا ہے۔ پورے جسم میں توانائی کی کمی واقع ہوگی تو دل، دماغ اور پٹھوں میں بھی توانائی نہیں ہوگی، اور جسم ایک لاغر جسم ہوگا اور دماغ ایک کمزور دماغ ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل:خون کی کمی کی وجہ کیا ہے اور اس کمی کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری:دنیا کی تقسیم کو اگر دیکھا جائے تو ایک اندازے کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک کے 80 فیصد عوام کو ضروری بنیادی خوراک دستیاب نہیں ہے۔ اپنے ملک میں ہی دیکھ لیں کہ کتنے گھر ایسے ہیں جہاں بکرے یا گائے کا گوشت روزانہ پکتا ہوگا! چنانچہ خوراک کی شدید کمی کے باعث پوری دنیا میں انیمیا یعنی خون کی کمی عام ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ آپ نے گائے اور بکروں کا ذکر کیا، مرغی کا ذکر نہیں کیا، کوئی خاص وجہ ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: مرغی کا گوشت کچرا ہوتا ہے۔ میں اکثر کالجوں کا وزٹ کرتا ہوں اور وہاں آگاہی کے لیکچرز دیتا ہوں تو مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ وہاں نوٹس بورڈ پر فیچرز میں گائے کے گوشت، مکھن، چیز پر غلط، اور مرغی کے گوشت پر تیر کا نشان یا صحیح کا نشان لگایا ہوتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک اور غلط ہے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کو بھی پڑھانے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو وہ چیزیں کھلانی چاہئیں جن میں غذائیت زیادہ ہو، اور وہ طاقت سے بھرپور ہوں۔ یورپین کہتے ہیں کہ وہ کرو جو تمہارے باپ دادا کرتے تھے۔ فارم ہاؤس پر پلی ہوئی مرغی میں آئرن اور توانائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں گائے اور بکرے کے گوشت میں توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے اور بلڈنگ بلاکس گوشت کے ذریعے مل جاتے ہیں۔ سبزیوں میں بھی وٹامنز کی بھرپور مقدار پائی جاتی ہے۔کھجور، سیب کا ذکر اہم ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جب بچے نوجوانی کی عمر میں داخل ہورہے ہوتے ہیں تو متوازن خوراک کی کمی کی وجہ سے ان کی صحت پر اثرات پڑتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: جی ہاں! بچے یا بچیاں جب جوانی کی عمر میں داخل ہورہے ہوتے ہیں تو ان کے جسم کی ضرورت ایک دم بڑھتی ہے، خاص طور پر لڑکیوں میں ماہواری میں خون ضائع ہونے کی وجہ سے خون کی شدید کمی لاحق ہوجاتی ہے۔ اس کی بھی دو وجوہات ہیں، ایک تو خوراک کی کمی، دوسرا یہ کہ خاص طور پر اپر کلاس میں لڑکیاں اسمارٹ ہونے کی خواہش میں کھانا پینا نہیں کررہی ہوتیں، جس سے وہ خطرناک حد تک دبلی پتلی ہوجاتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں لڑکپن میں پان، گٹکا اور چھالیہ کا استعمال نوجوانوں میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ یہ پوری کی پوری آنتوں کو کوٹڈ کرلیتا ہے جس سے کھانا پان، کتھہ اور چھالیہ کے اوپر سے ہوتا ہوا خارج ہوجاتا ہے اور کھانے کو ہضم اور غذائیت کو جذب کرنے والے عضلات پان، چھالیہ اور کتھے سے ڈھک جاتے ہیں جس سے خطرناک حد تک خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جن بچیوں کی شادیاں ہوگئی ہیں اور وہ امید سے ہیں اُن کے لیے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ اب بتائیے جو بچی اپنے لیے بھی پوری توانائی نہیں رکھتی، جس کے دل، دماغ اور پٹھوں میں توانائی نہیں ہے وہ اپنے پیٹ میں موجود بچے کے دماغ، دل اور پٹھوں کو کہاں سے توانائی دے گی؟ چنانچہ معاملہ مزید پیچیدہ اور خطرناک ہوجاتا ہے۔ پھر ڈلیوری کے دوران یا تو لڑکی کا خون اتنا کم ہوجاتا ہے کہ وہ خود دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے، یا پھر اس کا بچہ رخصت ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ دونوں بچ بھی گئے تو جو بچہ پیدا ہوکر بڑا ہوتا ہے اس کی دماغی اور جسمانی حالت خطرناک حد تک کمزور ہوتی ہے، اور ایسے بچے اپنے اسکول، کالج میں نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں بلکہ انٹی لیکچوئل پرفارمنس بھی ان کی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح دورانِ حمل فولک ایسڈ کی کمی کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کی بھی کچھ پیچیدگیاں اور دماغ کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے جو کہ فولک ایسڈ کی گولی کھانے یا مناسب غذا کی وجہ سے ٹھیک ہوسکتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:ایسے میں کیا احتیاط کریں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: میں یہی کہتا ہوں کہ دورانِ حمل آئرن، فولک ایسڈ، کیلشیم کا متواتر اور متوازن استعمال رکھیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو دورانِ حمل ان چیزوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں معیاری غذاؤں کا استعمال کرایا جاتا ہے وہیں ضروری وٹامنز پر مشتمل دوائیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ ذہانت، علمیت اور بچوں کی آئی کیو انٹیلی جنس میں کمی گزشتہ دو تین دہائی سے زیادہ دیکھنے میں آئی ہے جس کی ایک بڑی وجہ غیر مناسب خوراک ہے۔ پوری دنیا میں یہی دیکھا گیا ہے کہ شہروں کے مقابلے میں دیہات میں غذائیں بہتر ہوتی ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انیمیا (Anemia) کہتے ہیں لال خون کے کم ہونے کو، جب کہ Thrombocytopeniaخون میں پلیٹ لیٹس کے کم ہونے کو، اور Leukopeniaکہتے ہیں وائٹ سیل کے کم ہونے کو۔۔۔ اور خون کی شدید کمی کے باعث کئی طرح کے عوارض پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوجاتے ہیں۔ بڑھاپے میں دانت کمزور ہونے کی وجہ سے، دانت کی تکلیف ہونے کی وجہ سے، خون کی شدید کمی کی وجہ سے کمزوری آرہی ہوتی ہے کیونکہ انہیں گوشت اور دیگر خوراک چبانے میں تکلیف ہوتی ہے جس سے جسم کمزور ہوجاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: انیمیا کی علامت اور علاج کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: انیمیا کی علامات میں چہرے کا زردی مائل ہوجانا، تیز تیز سانس چلنا، دل کی رفتار تیز ہوجانا اور آگے جاکر نمونیا اور ڈائریا ہیں جو بچوں پر اثر کرسکتے ہیں۔ علاج اس کا متوازن غذاؤں کا استعمال ہے۔ اگر آپ کی خوراک میں گوشت، پھل اور سبزیاں شامل ہیں، اور خاص طور پر اپنے گھر میں ہفتہ بھر کا مینیو ایسا ترتیب دیا جائے جس میں ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھا جائے تو بچے اور بڑے سب خون کی کمی سے محفوظ رہیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: خون میں سرخ خلیات کے علاوہ پلیٹ لیٹس کا بھی آپ نے ذکر کیا جو ضرورت پڑنے پر خون کے لوتھڑے بناکر زخم کا بہائو روک کر ہماری جان بچاتے ہیں۔ ان کی جسم میں کمی کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: عام طور پر ایک صورت حالIPکہلاتی ہے جس میں پلیٹ لیٹس کی کمی ہوتی ہے۔ یہ مخصوص ہے۔ پلیٹ لیٹس کی کمی ڈینگی میں بہت زیادہ عام دیکھی گئی ہے۔ وائرل انفیکشنز، ہیپاٹائٹس بی، سی میں بھی ان کی کمی ہوسکتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے تھیلے سیمیا پر بہت کام کیا اور اس کے علاج کے لیے اپنا ایک ادارہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن بھی چلا رہے ہیں۔ خون کی اس خطرناک بیماری کے بارے میں بتائیے، اور اس بیماری سے ہم اپنے مستقبل کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: یہاں پر یہ بات بتانا ضروری ہے کہ تھیلے سیمیا مائنر ایک کیریئر اسٹیج ہے جس میں مریض کو خون لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر دو مائنر کی آپس میں شادی ہوجائے تو اس بات کا خطرہ موجود رہتا ہے کہ آنے والے بچے کو تھیلے سیمیا میجر ہوسکتا ہے۔ تھیلے سیمیا میجر ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچے کو زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے ہر ماہ یا پندرہ دن میں خون لگانا ضروری ہے، چنانچہ تھیلے سیمیا میجر کی وجہ تھیلے سیمیا مائنر کے دو کیریئر یعنی ماں اور باپ کی آپس میں شادی ہوجانا ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھیلے سیمیا مائنر کے افراد موجود ہیں۔ تھیلے سیمیا مائنر کا علاج ضروری ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کا خون نارمل ہوجاتا ہے بلکہ ان کے آنے والے بچے کو تھیلے سیمیا میجر کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ تھیلے سیمیا مائنر کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے اور ایسے افراد کو فولک ایسڈ ضرور لینی چاہیے۔ تھیلے سیمیا مائنر پر مزید تفصیل سے بات کرنے کی وجہ دو ہیں، ایک تو یہ کہ پاکستان کی ایک کروڑ آبادی اس کا شکار ہے، دوسرا ہر سال ایک کروڑ افراد میں سے آپس میں شادی ہونے کی وجہ سے پانچ سے دس ہزار نئے بچے تھیلے سیمیا میجر کے پیدا ہورہے ہیں جن کو زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے پندرہ سے بیس دن میں خون لگانا پڑتا ہے۔ تھیلے سیمیا مائنر اور میجر کے بعد لال خون اینمیا کی وجوہات بہت کم رہ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ پاکستان میں خون کی بیماریوں کی وجہ سے Thrombocytopenia یعنی پلیٹ لیٹس کا کم ہوجانا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جس میں جسم میں پلیٹ لیٹس کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے۔ بچوں اور بڑوں دونوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو سب سے خطرناک اور زیادہ فکر کا باعث ہے وہ ہے Aplastic Anemia۔ اس بیماری میںBone Marrow Failure ہوجاتا ہے، جسے میڈیکل کی اصطلاح میں Bone Marrow Failure Syndrome کہاجاتا ہے، جس میں پورے کا پورا میرو فیل ہوجاتا ہے۔ نہ لال خون، نہ سفید، نہ پلیٹ لیٹس… کچھ کام نہیں کررہا ہوتا۔ چنانچہ لال خون کا کام جو کہ توانائی پہنچانا ہے وہ کام بھی نہیں ہوتا۔ پلیٹ لیٹس کا کام خون جمانا ہے، وہ بھی نہیں ہوتا۔ جبکہ وائٹ سیلز کا کام انفیکشنز سے محفوظ رکھنا ہے، وہ بھی نہیں ہوتا جس سے مریض کو بار بار انفیکشنز ہورہے ہوتے ہیں۔ اس کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹیشن ہے جو کہ بدقسمتی سے انتہائی مہنگا ہے جس میں چالیس سے پچاس لاکھ کا خرچ آتا ہے، جس کے باعث 90 فیصد سے زائد مریض علاج نہیں کرا سکتے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس کا علاج مہنگا ہے، ہر ایک کے لیے مشکل ہے، تو ایسے میں کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: تھیلے سیمیا میجر کے مریض اور Aplastic Anemiaکے مریض ہمارے درمیان زیادہ لمبے عرصے نہیں رہ پاتے اگر ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ نہ کیا جائے۔ دنیا بھر میں تھیلے سیمیا کے مریض کو محفوظ خون دے کر زندگی کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خون ناپید ہے۔ ایسے مریض جن کو مستقل خون لگتا ہے اُن میں سے بیشتر مریضوں کو دس سال کی عمر تک ہیپا ٹائٹس بی یا سی کے انفیکشنز ہوچکے ہیں اور اپنی زندگی کا سفر بیس، بائیس سال سے آگے لے جانا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اسی طرح خون ہی کی ایک بیماری کا نام ہیموفیلیا ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: ہیمو فیلیا خون جمانے والے فیکٹرز کی کمی سے ہوتی ہے۔ اس کی عام اقسام میں ہیموفیلیا اے، ہیموفیلیا بی، جو کہ فیکٹر 9 کی کمی سے ہوتی ہے، دیگر فیکٹر ایک سے تیرہ تک کم ہوں تو یہ بیماریاں ہوسکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری کے دس ہزار سے زائد مریض موجود ہیں، اور جسم میں موجود جس فیکٹر کی کمی کا وہ شکار ہیں انہیں وہ فیکٹر مستقل لگانا پڑتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ موروثی بیماری ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: تھیلے سیمیا اور ہیموفیلیا موروثی بیماریاں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: بچوں کی نفسیات پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: بچوں کی نفسیات پر بہت ہی پیچیدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں، چنانچہ جو بھی ڈاکٹر ان مریضوں کا علاج کررہے ہیں ان کو مریض کی نفسیات کے لحاظ سے علاج کرنا چاہیے اور انہیں خوشگوار ماحول دینا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بچے ابھی بھی خون کے لیے ترستے ہیں، اور ادارے بھی اسی بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ کہیں سے انجکشن اور خون مل جائے۔ نفسیاتی ڈاکٹر کے علاوہ ان کی اسپیشلائزیشن، ان کےپروگرامز، ان کی کامیابیوں پر انہیں سراہنا.. یہ سب چیزیں شامل ہیں جن کی شدید کمی موجود ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک ایسی بیماری جو بہت تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے وہ ہے بلڈکینسر، جس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اور اب دس دن کے بچوں میں بھی یہ بیماری دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: بلڈ کینسر تیزی سے عام ہورہا ہے، تاہم اس کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف ریسرچ میں یہ محسوس کیا گیا ہے کہ خراب ماحول، کچرے کا مناسب انداز سے ٹھکانے نہ لگنا، آلودہ خوراک اور ہائی پاور الیکٹریسٹی پلانٹس کا قریب ہونا، نیوکلیئر پلانٹس کا قریب ہونا اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس مرض میں اضافے کی وجہ شاید ہمارے پڑوسی ممالک میں بڑی تعداد میں ہونے والی بمباری ہے، جس کے بارود کی وجہ سے یہ بیماریاں بچوں میں زیادہ ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹرول وغیرہ سے اس کا تعلق دیکھا گیا ہے۔ یہ تمام عوامل ہیں جن کی وجہ سے بلڈ کینسر تیزی سے پھیلتا نظر آرہا ہے۔ دو سے دس سال کے بچوں میں خوش قسمتی سے اسّی فیصد سے زیادہ بلڈ کینسر ٹھیک ہوجاتا ہے، اور ایسے بچے بھرپور خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ دو سال سے کم عمر اور دس سے زائد عمر میں اس کے کامیابی سے علاج کا تناسب پچاس سے ساٹھ فیصد ہوجاتا ہے۔ مرض میں علاج کی کامیابی کا تعلق بہت زیادہ جینٹک ہے جن میں کچھ ایسی مخصوص جینیاتی تبدیلیاں ہیں جن پر کامیابی یا ناکامی کا دار و مدار ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے فلاحی ادارے اس ضمن میں بہت اچھا کردار ادا کررہے ہیں۔ تھیلے سیمیا، بلڈ کینسر اور خون سے متعلق دیگر موروثی بیماریوں کا پاکستان میں نوّے فیصد سے زیادہ علاج عمیر ثناء فاؤنڈیشن جیسے ادارے کررہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں فلاحی اداروں میں ایسے افراد کا علاج آسانی سے ممکن ہے؟ بلڈکینسر کےہر مریض کا علاج دستیاب ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: ہر بچے کے لیے تو سہولت دستیاب نہیں ہے، کیونکہ جو فلاحی ادارے چلا رہے ہیں ان کو کام کرتے ہوئے پندرہ بیس سال ہوگئے ہیں، ان کے وسائل ختم ہورہے ہیں اور سرکاری طور پر بہت زیادہ تعاون حاصل نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بلڈکینسر کے علاج میں بنیادی عوامل کیا ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: بلڈ کینسر کے علاج کا دارو مدار تین چیزوں پر ہوتا ہے۔ سب سے ضروری صاف ستھرا ماحول اور تربیت یافتہ عملہ ہے، جس کا فقدان ہے۔ اگر اسپتال کا ماحول زیادہ صاف نہ ہو تو بلڈ کینسر کا علاج ممکن نہیں۔ دوسری اہم بات ڈاکٹر اور عملے کی بہترین تربیت اور اُن میں تکنیکی مہارت ہونا ہے۔ ان دونوں شعبوں میں بھی ہم خودکفیل نہیں ہیں اور ابھی مزید افراد کی ٹریننگ اور تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ تیسرے نمبر پر بھرپور بلڈبینک کی سپورٹ ہے۔ بلڈبینک کے لیے پاکستان میں ڈیولپمنٹ کی ضرورت ہے۔ اور چوتھے نمبر پر ہے مالی معاونت۔ اس میں پچاس سے ساٹھ فیصد مریضوں کا بوجھ فلاحی اداروں نے اٹھایا ہوا ہے، مگر چالیس فیصد تک مریضوں کی یہ فلاحی ادارے بھی مدد نہیں کرپارہے، اور وہ بغیر کسی مدد کے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ بلڈبینکنگ کے علاوہ کیموتھراپی ہے جس سے جسم میں موجود کینسر کے سیلز کو نہ صرف صاف کردیا جاتا ہے بلکہ اس میں مدافعتی پلیٹ لیٹس، وائٹ سیلز اور ساری چیزیں ضائع ہوجاتی ہیں، چنانچہ زندگی کو جاری رکھنے کے لیے صاف ستھرے پلیٹ لیٹس اور وائٹ سیلز کی فراوانی بہتر ہوتی ہے۔ کیموتھراپی کی زیادہ تر دوائیاں ملک میں دستیاب ہیں، مگر بلڈکینسر کے علاج میں کیموتھراپی کے ساتھ دیگر عوامل بھی ضروری ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: الیکٹرو کیموتھراپی اور ایمونو تھراپی کے بارے میں بتائیے، کیا اس کے ذریعےبھی پاکستان میں علاج ہورہا ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: اس کی بہت کم تعداد ہے، اور دنیا بھر میں بھی یہ دونوں تھراپیز ابھی تجرباتی دور سے گزر کر عملی دور میں آرہی ہیں، مگر صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ملک میں ابھی کینسر ہی کا علاج بھرپور نہیں ہے تو بدقسمتی سے ہمیں لگتا ہے کہ بنیادی کیموتھراپی کا نظام بھی پورے ملک میں موجود نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیمو تھراپی کیا ہے؟
ڈاکٹر ثاقب انصاری: اس میں اینٹی کینسر دوائیاں استعمال کی جاتی ہیں، وہ جاکر آپ کے کینسر کے کلون کو جڑ سے صاف کردیتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کینسر جسم میں جڑ سے صاف ہوسکتا ہے۔ جبکہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ جسم کمزور ہوجاتا ہے، چنانچہ جسم میں طاقت کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔
nn