وزیراعظم عمران خان نے سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری کو ایک بار پھر وزارتِ اطلاعات و نشریات کا اضافی قلم دان سونپ دیا ہے۔ اس فیصلے کے لیے انہوں نے نہ تو اپنی کابینہ سے مشاورت کی اور نہ پارٹی رہنمائوں سے کسی قسم کے مشورے کی ضرورت محسوس کی، کہ ہمارے جیسے ممالک میں پارٹی سربراہ اور وزیراعظم فیصلے کرنے میں کامل آزاد ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی ان کے فیصلوں کی اونر شپ قبول نہیں کرتا، اور بعد میں پیدا ہونے والی تمام خرابیوں کی ذمہ داری مکمل طور پر وزیراعظم کو اٹھانا ہوتی ہے، یا اپنے فیصلوں کے اچھے برے اثرات خود انہیں بھگتنا ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے دو دن قبل کہا تھا کہ ہم کسی شخص کو بھوکا نہیں سونے دیں گے، بھوکے کو کھانا کھلائیں گے تو اللہ کی برکت ہوگی۔ یہ بات درست ہے، لیکن انہیں یہ بات کیوں یاد نہیں آتی کہ مشاورت میں بھی برکت ہے۔ اس برکت کو وہ کیوں نہیں سمیٹ رہے؟ اس میں شاید ان کی اَنا آڑے آتی ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے مشورے لینے شروع کردیے تو انہیں کمزور سمجھا جائے گا۔
وزیراعظم نے یہ فیصلہ کسی عجلت میں کیا ہے، یا وہ یہ فیصلہ پہلے ہی کرچکے تھے اور اس کے اعلان کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے، اس کا جواب تو صرف وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں۔ اُن کے قریب ترین ساتھیوں کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔ اگرچہ کابینہ میں ردوبدل کی باتیں کچھ عرصے سے چل رہی تھیں، لیکن یہ انکشاف خود وزیراعظم نے فواد چودھری کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد سے وزیراعظم زیادہ ڈپریشن کا شکار ہیں، کیوں کہ یہ کسی حکمران جماعت کی اپنے ہی دور میں کسی ضمنی انتخاب میں روٹین کی شکست نہیں ہے، بلکہ اس شکست کا ایک غیر معمولی پس منظر ہے جس کی ذمہ دار خود حکمران جماعت اور اس کا بیانیہ ہے کہ وہ عوام میں پہلے سے زیادہ مقبول ہیں۔ لیکن انتخابی نتائج نے یہ ثابت کیا کہ حکمران جماعت عوام میں زیادہ مقبول نہیں رہی، خصوصاً پنجاب میں اسے غیر مقبولیت کا سامنا ہے۔ ورنہ عمومی طور پر لوگوں کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ اپنے کام نکلوانے کے لیے حکمران جماعت کے امیدوار کو منتخب کرا لیا جائے تاکہ حلقے کے مسائل اور وہاں کے لوگوں کی مشکلات حل ہوسکیں۔ لیکن یہ تصور یہاں نہیں چل سکا۔ اس انتخاب کے پہلے مرحلے یعنی 19 فروری کے انتخاب میں حکمران جماعت اور عملے کی جانب سے بدترین دھاندلی اور بے ضابطگی کی شکایات سامنے آئیں، اور پھر 10 اپریل کے نتیجے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ واقعی 19 فروری کو بھی حکمران جماعت کا امیدوار ہار رہا تھا جسے شکست سے بچانے کے لیے فائرنگ اور مار دھاڑ سے لے کر عملے کے اغوا تک کی کارروائیاں کی گئیں۔ ان ہی شواہد کی وجہ سے عدالت نے یہاں دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا۔ 10 اپریل کے انتخاب میں سرکاری عملے نے 19 فروری کی طرح حکمران جماعت کا ساتھ نہیں دیا، جس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ خود انہیں بھی حکمران جماعت کی شکست نظر آرہی تھی اور پہلے کی طرح بے ضابطگی پر انہیں شدید ردعمل کا سامنا ہوسکتا تھا۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جارہا ہے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ نے متعلقہ عملے کو اِس بار غیر جانب دار رہنے پر مجبور کردیا ہو، یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ حکمران جماعت کے ساتھ پہلے کی طرح نہیں ہے۔ اس شکست سے اپوزیشن کے قد میں اضافہ ہوا ہے، اور ووٹرز نے اپوزیشن امیدوار کا ساتھ دے کر رسک تو ضرور لیا ہے مگر حکومت کے خلاف اپنے غصے کا اظہار بھی کردیا ہے۔ دراصل اس انتخاب کو حکومت نے بلاوجہ اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ کچھ ناسمجھ وزیروں، مشیروں نے یہ ضروری سمجھ لیا تھا کہ گوجرانوالہ ڈویژن جو مسلم لیگ (ن) یا اپوزیشن کا گڑھ ہے، یہاں ہر صورت میں دراڑ ڈالنا ضروری ہے۔ چنانچہ وزیراعظم کے مشیر عثمان ڈار اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر یہاں ڈیرے جماکر بیٹھ گئے کہ یہ الیکشن ہر صورت میں جیتنا ہے، مگر انہوں نے اپنے ساتھ اپنی جماعت کی بھی عزت ڈبو دی۔ اب اپوزیشن یہ فضا پیدا کررہی ہے جیسے عمران حکومت پورے ملک میں ناکام ہوگئی ہے، حالانکہ وہ صرف ایک ضمنی انتخاب ہاری ہے اور ابھی اُس حلقے سے جہاں وہ عام انتخابات میں بھی کامیاب نہ ہوسکی تھی، یعنی حکمران جماعت کے سقراطوں نے ایسی فضا بنادی تھی جسے اب انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
شاید عمران خان اس شکست کی ایک وجہ میڈیا کے محاذ پر اپنی کمزوری کو بھی سمجھتے ہیں، کہ اگر اس محاذ پر اچھی کارکردگی ہوتی تو شاید وہ یہ انتخاب جیت سکتے تھے۔ حالانکہ وہ اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں کہ میڈیا کی مدد سے اپوزیشن کو تو فتح مل سکتی ہے، حکمران جماعت کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو سارا میڈیا بھی اٹھ کھڑا ہو جائے وہ حکمران جماعت کو شکست سے نہیں بچا سکتا۔ بدقسمتی سے عمران خان تین سال کی حکمرانی کے بعد بھی اپوزیشن اور ایجی ٹیشن کی سیاست کررہے ہیں جس کا انہیں مزید نقصان ہوسکتا ہے۔ وہ ساری لڑائی میڈیا کے محاذ پر لڑنا چاہتے ہیں، اس لیے پہلے فواد چودھری، فردوس عاشق اعوان، پھر شبلی فراز اور اب پھر فواد چودھری کو لے آئے ہیں۔ فواد چودھری کی نوکری بھی اس عہدے پر دیرپا ثابت نہیں ہوسکے گی۔ ویسے تو 1985ء سے اب تک کسی بھی حکومت کا وزیر اطلاعات اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ سب سے لمبی اننگ اس میدان میں راجا ظفرالحق نے کھیلی جو صدر ضیا الحق کے اوپننگ بیٹسمین کہلاتے تھے۔ فواد چودھری بھی اپنی تمام تر چرب زبانی کے باوجود زیادہ عرصے نہیں چل سکیں گے، پھر شاید مراد سعید کو میدان میں لانا پڑے، یا پھر ہاکی کے کھیل کی طرح گیند فواد سے فردوس عاشق، اُن سے شبلی فراز، اُن سے پھر فواد کے پاس آنے کے بعد ایک بار پھر فردوس عاشق اعوان کے پاس چلی جائے۔