کیا پاکستان ایک بارپھر 1962ء والے سوراخ سے ڈسا جائے گا؟
چین اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا گیارہواں دور ماضی کے کئی ادوار سے مختلف اور چونکا دینے کا باعث بنا۔ مذاکرات کے دسویں دور میں جو فروری میں ہوا تھا، چین اور بھارت کی فوجوں نے مشرقی لداخ کے ایک سیکٹر سے پیچھے پرانی پوزیشنوں پر جانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد دونوں افواج واپس جاتی ہوئی دیکھی گئی تھیں۔ یہ بھی حقیقت میں بھارت کی ہی پسپائی تھی کہ اُسے اس علاقے کو نومینز لینڈ تسلیم کرنا پڑا تھا جسے وہ پہلے اپنا حصہ قرار دیتا تھا۔ بھارت کی کامیابی تو اس صورت میں ہوتی اگر وہ چین کے خالی کردہ علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرتا، مگر اُسے اپنے دعوے سے دست بردار ہوکر اس علاقے کو خالی چھوڑنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ چین نے جس علاقے سے اپنی فوج کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا یہ اسٹرے ٹیجک لحاظ سے غیر اہم، اور موسمی اعتبار سے ناقابلِ رہائش اور ناقابلِ برداشت تھا۔ اسٹرے ٹیجک اہمیت کے حامل علاقوں میں پیپلزلبریشن آرمی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، اور اب انہی علاقوں کی پرانی پوزیشنیں بحال کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔
اب یہ امید بندھ چلی تھی کہ چین اور بھارت مزید علاقوں سے پیچھے ہٹ کر کشیدگی کا خاتمہ کریں گے، مگر حالات نے اس کے برعکس ایک نئی کروٹ لی۔ مذاکرات کا گیارہواں دور لداخ میں بھارتی علاقے میں ہوا جس میں دونوں افواج کے کمانڈروں نے حصہ لیا۔ یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے، جس کا ثبوت یہ تھا کہ دونوں طرف سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، اور اپنے اپنے مؤقف کا اظہار کیا گیا۔ مذاکرات کے چھٹے دور سے دونوں افواج نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کا عمل شروع کیا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ فریقین کے درمیان اعتماد سازی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ مگر مذاکرات کے گیارہویں دور میں یہ تاثر زائل ہوگیا، اور چین کی طرف سے پیپلزلبریشن آرمی نے، جبکہ بھارت کی جانب سے وزارتِ خارجہ نے بیانات جاری کیے۔ اس سے پہلے چین کی طرف سے وزارتِ دفاع بیانات جاری کرتی تھی، مگر اب معاملہ پیپلزلبریشن آرمی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، اور بات ڈپلومیٹک کے بجائے فوجی رخ کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ بھارت نے امریکی ایما پر چین کو دھمکی دی ہے کہ مشرقی لداخ کے علاقے خالی کرو، وگرنہ جنگ کے لیے تیار رہو۔ اس کا اشارہ چین کے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ سے بھی ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ بھارتی امریکی ایما پر فریب میں مبتلا ہوکر سازشیں کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہونے کے بجائے حالات کسی اور رخ پر جائیں، اور یہ سوچ چین اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا میں اضافہ کرے گی۔ گلوبل ٹائمز نے یہ مضمون مذاکرات کے بے نتیجہ اور کئی حوالوں سے مختلف گیارہویں دور کے پس منظر میں ہی لکھا ہے۔
چین مشرقی لداخ کے اسٹرے ٹیجک لحاظ سے اہم ترین دو علاقوں گوگرا اور ہاٹ اسپرنگ سے پیچھے ہٹنے سے قطعی انکاری ہے، اور یہ بات کشیدگی کے شعلوں کو ہوا دے رہی ہے۔ بھارت کے ایک اخبار نے اس صورتِ حال پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ چین مشکل گیند کھیل رہا ہے۔ اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ چین اور بھارت کے تعلقات میں آنے والے دنوں میں کسی سلجھائو کے بجائے اُلجھائو کے ہی آثار ہیں۔ اس صورتِ حال میں امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی ایک رپورٹ منظر پر آئی ہے۔ ’دی گلوبل ٹرینڈز‘ نامی میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑی جنگ کے خطرات موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر بھارت میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بھارت اس کی تحقیقات کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے پاکستان پر حملہ کردے گا اور بالاکوٹ واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا، اور یوں خطہ ایک مکمل جنگ کی لپیٹ میں آئے گا۔ امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ سے یہ واضح ہورہا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستانی سرحد عبور کرنا سرخ لکیر کو توڑنے کے مترادف ہے، اور یہ بالاکوٹ کارروائی میں ثابت ہوچکا ہے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ایبٹ آباد اور ہزاروں ڈرون حملے کرنے والے امریکہ کے لیے پاکستان کا بھارت کے خلاف بالاکوٹ کا فوری ردعمل اور ترکی بہ ترکی جواب حیران کن تھا۔ امریکہ کے سوجوتے اور سوپیاز کھانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ پاکستان بھارت کے بارے میں بھی یہی رویہ اپنائے گا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں نریندر مودی نے اچانک پاکستان پر محبت اور دوستی کے ڈورے ڈالنا شروع کیے۔ کشمیر پر کسی پیش رفت کے بغیر محض چینی اور کپاس سے پاکستان کو دام میں لانے کے مقاصد طویل المیعاد اور گہرے تھے۔
ایک طرف چین کے ساتھ کشیدگی اور امریکہ کی طرف سے بھارت پر چین سے جنگ چھیڑنے کا دبائو جس کا اشارہ گلوبل ٹائمز نے دیا ہے، تو دوسری طرف پاکستان کے ساتھ شدید کشیدہ صورتِ حال بھارت کو سینڈوچ بنانے کے لیے کافی ہے۔ بھارت اس ممکنہ دو محاذوں کی جنگ کے خوف میں مبتلا ہے اور اس کے فوجی ڈاکٹرائن میں بیک وقت دو محاذوں کی جنگ کا مقابلہ شامل ہے۔ اس صورتِ حال میں امریکہ 1962ء کی چین بھارت جنگ کی طرح پاکستان کو مذاکرات (باقی صفحہ 41پر)
اور مسئلہ کشمیر کے حل کا فریب دے کر نیوٹرل کرنا چاہتا ہے۔ مودی کے پیار، محبت کے چشموں کا اُبال پاکستان کو مستقبل کی جنگ میں غیر جانب دارکرنے کی اسکیم کا حصہ ہے۔ امن کی جو کمند پاکستان پر پھینکی جارہی ہے اس کے اثرات سب سے پہلے وادیِ کشمیر میں نظر آنے چاہیے تھے، جہاں اب بھی حالات بد سے بدتر کی تصویر ہیں۔ برصغیر میں امن کا بیرومیٹر واہگہ نہیں بلکہ سری نگر ہے۔ مگر سری نگر میں جبر کا کوڑا دراز سے دراز تر ہورہا ہے۔ واہگہ پر امن کے پھریرے لہرانے کا مقصد چین اور بھارت کے ممکنہ تصادم میں پاکستان کو نیوٹرل کرنا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک بارپھر 1962ء والے سوراخ سے ڈسا جائے گا؟