گرد آلود سیاسی فضا آئی ایم ایف سے معاہدے آج تک کسی پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آئے

ملکی سیاست میں گرد اُڑ رہی ہے، اور تیزی کے ساتھ منظر بدل رہے ہیں۔ سیاسی حالات پر درست اور حقائق کے قریب تجزیہ اور تصویرکشی تھوڑی سی مشکل ہے، کہ ابھی ملک میں حقیقی سیاسی تبدیلی کی کوئی شکل واضح نہیں ہورہی، تاہم سیاست میں ارتعاش ضرور معلوم ہورہا ہے۔ بہت عرصے سے ملک میں قومی حکومت کے قیام کی بات کی جارہی ہے، مگر یہ کیسے ہوگی، اور کب ہوگی، اس بارے میں ابھی بھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم حالات تیزی سے اسی جانب لے جائے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی چشم کشا رپورٹ سامنے آچکی ہے۔ رپورٹ کے حقائق بھی حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی اپنی پالیسی اور ضرورت کے تحت افشا کیے گئے ہیں۔ یہ کام پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھا، مگر پارلیمنٹ گونگی اور بہری ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ہم آئی ایم ایف کی پالیسی کو نہیں مانتے۔ سب کو علم ہے کہ ایسے بیان کا مطلب اور مقصد کیا ہوتا ہے۔ اصل فورم تو پارلیمنٹ ہے، لیکن یہاں ایسے معاملات بحث کے لیے پیش ہی نہیں کیے جاتے۔ پارلیمنٹ کو قائم ہوئے تین سال ہونے والے ہیں، اس میں ایک روز کیا ایک گھنٹے کے لیے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ابھی بھی جو کچھ سامنے آرہا ہے خود آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوسرے کثیرالقومی اداروں کی رپورٹوں کے ذریعے ہی سامنے آرہا ہے۔ یہ ادارے بھی مقامی زبان میں صرف وہی حصہ جاری کرتے ہیں جس کی ضرورت ہوتی ہے، پورا سچ نہیں بولا جاتا، سارا عمل رازداری کے تحت کیا جاتا ہے۔ بھانڈا اُس وقت بیچ چوراہے پھوٹتا ہے جب مفاد ٹکراتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی حالیہ پیش کش قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ 1.4بلین روپے کے ٹیکس لگائے جائیں۔ حکومت اسے چھپانا چاہتی تھی، مگر عین اُس وقت جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا جارہا ہے اور ملک میں بجٹ بھی تیار ہورہا ہے، وزیر خزانہ تبدیل کردیا جائے تو ابال تو آئے گا۔ جس وزارت میں بجٹ تیار ہورہا ہے وہاں اس وقت ہر افسر غیر یقینی کا شکار ہے۔ سفارشات کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس سے مافیا باخبر ہے مگر عوام بے خبر ہیں کہ بجٹ کے نام پر کون سا عذاب آئے گا۔ تعمیراتی انڈسٹری کے لیے ایمنسٹی اسکیم دی گئی ہے، اس میں توسیع بھی کی گئی ہے، مگر اس کے نتائج کیا ہیں؟ پارلیمنٹ میں حکومت نے یہ تفصیلات پیش کی ہیں اور نہ اپوزیشن یہ تفصیلات مانگ رہی ہے، ہر جانب رازداری کا سکہ چل رہا ہے۔ پارلیمنٹ اگر آئی ایم ایف کی تفصیلات نہیں مانگ سکتی تو کم از کم کورونا کی تفصیلات ہی مانگ لے کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ کیا سب کچھ عالمی امداد حاصل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے؟
آئی ایم ایف کے بعد دبائو کی ایک نئی لہر آئی کہ برطانیہ نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت جیسے مسائل سے دوچار ہائی رسک ملکوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ 21 رکنی اس فہرست میں پاکستان کا نمبر پندرھواں رکھا گیا ہے۔ فہرست میں شام، یوگینڈا، یمن اور زمبابوے بھی شامل ہیں۔ برطانوی حکومت کی دسمبر 2020ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور برطانیہ کے درمیان غیر قانونی رقوم کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ ہائی رسک ممالک کے تعین کی نئی تعریف کے بعد برطانیہ میں ’منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ ریگولیشن2021‘ مارچ میں نافذ ہوا ہے۔
اس وقت ملک میں ایک نہیں کئی کثیرالجہتی بحران چل رہے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی اس کا ایک پہلو ہے۔ یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں جو تبدیلی لائی گئی تھی اُس نے بہت مایوس کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسلسل ایک ہی بات کررہے ہیں کہ وہ ملک میں مافیا کے خلاف لڑ رہے ہیں، مگر جس مافیا کے خلاف وہ لڑرہے ہیں وہی مافیا فائدے سمیٹ رہا ہے۔ چینی اورآٹے کی ذخیرہ اندوزی کرکے مافیا وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ تعمیراتی انڈسٹری سمیت ہر جگہ کارٹل بنے ہوئے ہیں۔ ان پر بطور انتظامیہ حکومت کی گرفت نہیں ہے۔
تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں ربع صدی پہلے قوم کو مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے فرسودہ نظام سے نجات دلانے اور ایک ایسا نظام قائم کرنے کے دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی جو معاشرے سے ظلم و حق تلفی کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کا ضامن ہو، جس میں آگے بڑھنے کی واحد شرط اہلیت ہو، جس میں آئین اور قانون کی مکمل بالادستی ہو، اور کاروبار مملکت روزِ روشن کی طرح شفاف طریقے سے چلایا جائے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج نے عمران خان کواقتدار میں لاکر ان دعووں کو سچ کردکھانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ حکومت کی نصف مدت گزر چکی ہے، ان حوالوں سے کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکا۔ تاہم وزیراعظم عمران خان آج بھی ان وعدوں کی تکمیل کے لیے امید دلارہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ قابو میں نہیں آرہا اور ’اسٹیٹس کو‘ بھی نہیں ٹوٹ رہا، اور مافیا کو قانون کے تابع کرنے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہورہیں۔ اس کام میں حکومت کی دو عملی ہی رکاوٹ ہے۔ رشوت کا ریٹ بڑھ چکا ہے۔ عمران خان کے وعدے کے مطابق اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ کیا ملک میں غریب اور امیر کے لیے یکساں قانون ہے؟ اور ملک میں قانون کی بالادستی ہے؟ حکومت کا دعویٰ کچھ بھی ہو، نیا پاکستان بھی پرانا ’اسٹیٹس کو‘ اٹھائے چل رہا ہے۔ عمران خان خود کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس نظام کو خراب ہوتے دیکھا ہے، مگر تبدیل کرنے کے لیے اُن کے پاس کیا ہے؟ لوگ پوچھتے ہیں کہ نیا پاکستان اور مدینے کی ریاست کہاں ہے؟ کمزور اور طاقتور کی تفریق کیوں نہیں مٹ رہی؟ مراعات یافتہ طبقوں اور طاقتور حلقوں نے پورا نظام ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ بلا امتیاز احتساب کرکے سیاسی عزت کما سکتی ہے۔ اصلاحِ احوال کے بجائے وزیراعظم شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسمبلی توڑ دی جائے تاکہ وہ ووٹرز سے کہہ سکیں کہ انہیں کم تر درجے کا اختیار نہیں چاہیے۔ اسمبلی توڑنے کا جو سیاسی نقصان ہوگا، عمران خان اس سے ناواقف ہیں۔ انہیں ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج دکھاکر اس کام سے باز رکھنے کا بندو بست کیا گیا ہے، تاہم اب انہیں جہانگیر ترین کی صورت میں ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ شوگر انڈسٹری کے خلاف کارروائی پر حکومت میں بھی یکسوئی نہیں ہے۔ جہانگیر ترین کی وجہ سے خیبر پختون خوا میں پانچ سال حکومت چلتی رہی، انہیں زراعت میں بہتری لانے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی ایک لابی یہ سمجھتی ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی ایک غلطی ہے۔ صلح کا دروازہ کھلا ہوا تھا، پیغامات کے تبادلے بھی ہوتے تھے، شاہ محمود قریشی کہتے تھے کہ وہ خود مل لیں۔ اب جہانگیرترین کو پیپلزپارٹی بھی کھینچ رہی ہے، اور اب وہ اپنا سیاسی پاور شو کرنے جارہے ہیں۔ جہانگیر ترین آئینی لحاظ سے عوامی نمائندگی کے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہیں، اگر ان سے کام لینا مقصود ہے تو انہیں اہل بنانا ہوگا۔ یہ اہل ہوئے تو نواز شریف بھی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے اہل ہوجائیں گے۔
پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ نئی صف بندی سے پہلے پہلے کچھ حاصل کرلیا جائے، وہ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے، اسی لیے ہر ضروری محاذ پر تابع داری دکھا رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ(ن) بھی نظرانداز نہیں کی جارہی۔ تحریک انصاف کی قیادت کا مزاج چونکہ سیاسی نہیں ہے لہٰذا یہ کچھ ایسا بھی کرسکتی ہے جس سے سب کے لیے مشکلات بڑھ جائیں۔ یہی تجزیہ ’’بڑوں‘‘ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور کررہا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت خطے میں حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ یہاں کوئی مہم جوئی کی جائے۔ جو تبدیلیاں خطے میں رونما ہونے جارہی ہیں اُن کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں سیاسی ماحول پُرامن رکھا جائے۔ ابھی حال ہی میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے اسلام آباد کا دورہ کیا ہے۔ روس اس خطے میں اپنے لیے ایک کردار تلاش کررہا ہے۔ افغانستان، چین، بھارت کے ہوتے ہوئے اسلام آباد کوئی ایسی حکمت عملی نہیں اپنائے گا جس سے تزویراتی مفادات کو نقصان پہنچے۔ ہر ملک چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس کے ساتھ تعاون کرے، مگر یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا کہ یہ سب کچھ ہمیں ہی کیوں ٹارگٹ کرکے کیا جاتا ہے؟ بھارت کے ساتھ جب کوئی ایسی بات کرتا ہے اس کا ہدف پاکستان ہی کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال حکومت کو عالمی برادری اور پارلیمنٹ کو حکومت سے پوچھنا چاہیے، مگر جس طرح پارلیمنٹ خاموش ہے اسی طرح حکومت بھی عالمی برادری کے سامنے خاموش ہے۔ جب بھی وزارتِ خارجہ سے یہ سوال کیا جاتا ہے تو وہ لفظوں کا طے شدہ ساز بجانا شروع کردیتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیر ایک بنیادی نکتہ ہے، یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ تقسیم کے عمل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ماضی میں افغان جہاد کے عین آخری مرحلے میں امریکہ نے ہمیں F-16 دیے تھے، اب امریکہ ایک بار پھر کشمیر کی ثالثی کے نام پر پاکستان کو دھوکہ دینے اور بھارت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں ہے۔ روس کے وزیر خارجہ بھی اسی مقصد کے لیے آئے تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دفاع سمیت توانائی کے شعبے میں روس سے تعاون کے لیے تیار ہوجائے۔ روس پاکستان کے ساتھ شمالی و جنوبی گیس پائپ لائن منصوبے کے جلد انعقاد کا خواہاں ہے۔ روس کا اس خطے میں آنا، اور ماضی میں اسے یہاں آنے سے روکنا، دو مختلف فیصلے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر عالمی سفارت کاری کا سبق یہ ہے کہ دنیا میں ملکوں کے تعلقات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ بھارت اپنے پرانے مگ طیاروں کی جگہ فرانس سے جدید ترین رافیل طیارے خرید رہا ہے۔ پاکستان اس کے مقابلے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور چین کے تعاون پر انحصار کررہا ہے۔ اگر روس بھی جدید ہتھیاروں کی پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے، تو خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہ پہلو روسی قیادت کے پیش ِ نظر بھی ہے، اور اسی کے باعث دفاعی شعبے میں بھی دونوں ممالک کا تعاون بڑھ رہا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اب روس پاکستان کو کورونا ویکسین کی ایک لاکھ پچاس ہزار مزید خوراکیں دے رہا ہے۔ اِس وقت پاکستان کا سارا انحصار چین اور روس سے ملنے والی ویکسین پر ہے۔ تیسری کوئی ویکسین تاحال کہیں سے میسر نہیں آئی۔ غالباً 75فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کے لیے پاکستان کو ایک عشرہ درکار ہوگا۔