میں نے تیرہ سالہ خوش لباس بچے کو دیکھا اور مجھے اس پر ترس آیا!
مزدوری کرنے والے، کُوڑے کے ڈھیر سے پرانے کاغذ چننے والے، بھیک مانگنے والے اور گاڑی کا شیشہ صاف کرنے والے بچوں پر تو سب کو ترس آتا ہے، مگر خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا کیا ہوگا؟ وہ بھی تو رحم کے مستحق ہیں!
اسے سامنے بٹھایا اور پوچھا: کیا آپ نے رات کو تاروں بھرا آسمان دیکھا ہے؟ آپ کے گھر کے اردگرد کون کون سے درخت ہیں؟ کبھی غور سے دیکھا ہے کہ بادل شکلیں کیا کیا بناتے ہیں؟ آخری بار دھنک کب دیکھی تھی؟ ہر روز پیدل کتنا چلتے ہیں؟ کبھی برستی بارش میں نہائے؟ سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا؟
غروب سے پہلے شفق میں کون کون سے رنگ ہوتے ہیں؟ موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو کیا باہر مالٹے کے باغوں، کھیتوں میں اُگی فصلوں، جوہڑوں میں نہاتی بھینسوں اور آسمان پر اڑتے پرندوں کو غور سے دیکھتے ہیں؟ کیا فاختہ کو پہچان لیں گے؟ سچ مچ کے زندہ، جیتے جاگتے خرگوش کو کبھی دیکھا ہے؟ شاید ہی کسی سوال کا جواب اُس نے اثبات میں دیا ہو۔ اور یہ تو وہ سوال ہیں جو شہر میں رہنے والے بچوں کے لیے بہت زیادہ مشکل نہیں۔ میں نے اسے دوبارہ غور سے دیکھا۔ مجھے اور بھی ترس آیا! بہت سے سوال تو اس بچے سے پوچھے ہی نہیں جا سکتے۔ اس سے اگر یہ پوچھا جائے کہ گرمیوں میں رات کو کبھی چھت پر، یا صحن میں سوئے؟ تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔ اور یہ پوچھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ گندم اور جَو کے پودے میں اور جوار اور باجرے کے پودے میں کیا فرق ہے؟ گائے اور بھینس کی خوراک کیا ہے؟ کبھی بکری کے میمنے کو چوما ہے؟ صبح نو دس بجے بستی کے ہر گھر سے دھواں کیوں اٹھتا ہے؟ تنور میں ڈالے گئے ایندھن کو لکڑی کے جس ڈنڈے سے ہلایا جاتا ہے، اسے کیا کہتے ہیں؟ سردی میں باہر نکلتے وقت کھیس یا گرم چادر کیسے اوڑھتے ہیں؟ لالٹین کیا ہوتی ہے؟ مٹی کا دیا کس شکل کا ہوتا ہے؟ مسجد میں ٹھیرے ہوئے مسافر کو مغرب کی نماز کے بعد کھانا پہنچانے کبھی گئے؟ گھروں میں جو بیل، بھینسیں، گھوڑے رکھے جاتے ہیں ان کے پانی پینے کا کیا بندوبست ہوتا ہے؟ اور تو اور یہی پوچھ لیجیے کہ دہی کیسے بنتا ہے، مکھن کہاں سے آتا ہے اور خالص گھی کس چیز سے بنتا ہے تو شاید ہی بتا سکیں۔
کس قدر قابلِ رحم ہیں یہ بچے جو ڈبل روٹی کے جھاگ نما ٹکڑوں پر، پیزا کے نقصان دہ میدے پر، اور آدھے پکّے آدھے کچّے برگروں پر زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ انہوں نے چشموں کا پانی پیا نہ کنووں کا! یہ تو بوتلوں میں بھرا ہوا پانی پیتے ہیں جس کے ایک ایک گلاس، بلکہ ایک ایک گھونٹ کی قیمت بیرونِ ملک دوسروں کے خزانوں میں جمع ہورہی ہے۔ افسوس! ان کو ماں باپ بھی فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور انسٹا گرام زمانے کے ملے۔ والدین کے پاس وقت ہے نہ دماغ کہ صبح کے ناشتے میں انہیں پراٹھے، گھر کا مکھن اور خالص دودھ مہیا کریں۔ آج کے بچے کا موازنہ چار پانچ عشرے پہلے کے بچے سے کرکے دیکھیے۔ گاؤں یا قصبے کو تو ایک طرف رکھیے، شہر کی بات کرلیتے ہیں۔ بچہ صبح اسکول پیدل جاتا تھا۔ نسبتاً خوش حال بچے کی اپنی بائی سائیکل ہوتی تھی۔ کچھ بچے بس پر جاتے تھے۔ مگر جس طرح بھی جاتے تھے، سیکورٹی کا کوئی ایشو دامن گیر نہیں ہوتا تھا۔ اُس زمانے کے اسکول مکانوں اور کوٹھیوں میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ خصوصی عمارتیں تھیں جن میں کھیلنے کے لیے بڑے بڑے گراؤنڈ ہوتے تھے۔ جسمانی فٹنس کے پیریڈ آج کی طرح ہفتے میں صرف دو دن نہیں، ہر روز ہوتے تھے۔ یہ بچے اسکول سے آکر ہوم ورک کرتے تھے۔ ماں یا بہن کو محلے کی دکان سے سودا سلف بھی لاکر دیتے تھے۔ ہوم ورک کرنے کے بعد، عصر کے لگ بھگ، محلے کے نزدیک ترین گراؤنڈ میں پہنچ جاتے تھے، جہاں گلی ڈنڈا سے لے کر ہاکی، والی بال اور فٹ بال تک سبھی کھیل کھیلے جاتے تھے۔ اِدھر مغرب کی اذان ہوتی، اُدھر سب بچے کھیل چھوڑ کر گھر کو چل پڑتے۔ مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سالگرہ منانے کی بدعت ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ ٹیلی ویژن آچکا تھا مگر اس کے مخصوص اوقات تھے۔ شام کو کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کی وجہ سے یہ بچے رات کو جلد نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ سحر خیزی آج کی طرح خال خال نہیں تھی، عام تھی۔ جنک فوڈ کی مصیبت نہیں آئی تھی۔ گنڈیریاں اور مالٹے غریب امیر سب کی خوراک کا حصہ تھے۔ آج کے بچے کے راستے میں سب سے بڑا اور خوفناک گڑھا جگراتا ہے۔ بہت کم والدین ایسے ہیں جو بچوں کو وقت پر سلانے میں کامیاب ہیں۔ ٹیلی ویژن تو تھا ہی، انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کی اولاد سوشل میڈیا، ان بچوں کو انسان سے چوہا بنانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ایک طرف کھیل کے میدان جُوع الارض (لینڈ ہنگر) کی نذر ہوگئے، دوسری طرف لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور موبائل فون نے بچوں کو ذہنی طور پر اپاہج اور جسمانی طور پر بُھربُھرا کردیا ہے۔ جسمانی نشوونما میں کمی صاف نظر آرہی ہے۔ دس دس گیارہ گیارہ سال کے بچے نظر کے چشمے لگائے پھر رہے ہیں۔ ہر بچہ اپنی الگ دنیا میں مقیّد ہے۔ یہ دنیا صرف ایک اسکرین پر مشتمل ہے۔ اس بچے کی پڑھائی، کھیل، تفریح، آرام، سب کچھ اس اسکرین کے اندر ہے۔ وہ گھنٹوں نظریں اسکرین پر جمائے ایک جگہ ساکت و ساکن بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے قویٰ کمزور ہورہے ہیں۔ چلنا پھرنا برائے نام ہے۔ اسے اگر کہا جائے کہ کمرے سے نکلو اور تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی، باہر لان یا صحن میں جا بیٹھو، تو اس کا جواب ہوگا کہ وہاں وائی فائی نہیں آرہا۔
نہلے پر دہلا خوراک کا ایک اور تاریک پہلو ہے۔ ایک تاریک پہلو کا ذکر تو اوپر کیا جا چکا، یعنی خوراک کے اجزا کی بدحالی۔ دوسرا پہلو جو بدتر اور زیادہ مُضر ہے وہ کھانے کے بے ہنگم اوقات ہیں۔ جب گھروں میں کھانے کی ٹیبل نہیں تھیں اور دستر خوان فرش پر بچھتے تھے تو گھر کے تمام افراد حاضر ہوتے تھے۔ دستر خوان تربیت گاہ کا کام بھی کرتا تھا۔ یہیں بچوں کو آداب سکھائے جاتے تھے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز اور تقدیم و تاخیر کے اصول بتائے جاتے تھے۔ اب قیمتی ڈائننگ ٹیبل آگئیں، مگر ہر کوئی الگ وقت پر کھانا کھاتا ہے۔ گردشِ فلک نے یہ دن بھی دکھائے کہ ایک ہی گھر میں کچھ افراد ظہرانہ، تو کچھ افراد عین اُسی وقت ناشتا کررہے ہوتے ہیں۔ مشاغل ایسے ہوگئے کہ راتوں کو جاگا جاتا ہے۔ جب جاگتے ہیں تو بھوک لگتی ہے۔ ایسے میں فوڈ والوں کی چاندی ہوگئی۔ خاص طور پر فاسٹ فوڈ والوں کی۔ رات رات بھر گھروں میں کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے سو جاتے ہیں۔ بارہ ایک بجے بچے فون پر آرڈر دیتے ہیں اور طعامِ شبینہ حاضر کردیا جاتا ہے۔ کون سی پابندیِ اوقات اور کہاں کی سحر خیزی!! رہی سہی کسر آن لائن کلاسوں نے پوری کردی۔ یہ مجبوری ہے مگر مکروہ مجبوری! اب صبح اٹھ کر نہانے دھونے، کپڑے بدلنے اور ناشتا کرنے کی پابندی سے بھی نجات مل گئی۔ بس صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ لیٹے ہوئے ہی، پیٹ پر رکھ کر لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ کھولیے۔ لیجیے پیریڈ شروع ہو گیا۔
کوئی ہے جو ان بچوں پر ترس کھائے!
(محمد اظہار الحق- روزنامہ دنیا- 8 اپریل 2021ء)