حضرت یوسفؑ کا ایک بہت پرانا دوست بڑی مدت کے بعد آپؑ سے ملنے آیا۔ وہ بڑے ملکوں کی سیر اور تجربہ حاصل کرکے آیا تھا۔ حضرت یوسفؑ کے سامنے اُس نے بحرو بر کے تمام عجیب و غریب قصے سنا ڈالے۔ پھر آپؑ سے ظالم اور حاسد بھائیوں کا حال دریافت کیا تو آپؑ نے جواب دیا ’’وہ کہانی دراصل ایک آزمائش تھی اور میں شیرِ نر۔ ظاہر ہے کہ زنجیر میں جکڑ جانے کے بعد بھی شیر شیر ہی رہتا ہے، نہ کہ گیدڑ بن جاتا ہے اور نہ ہی اس کی بے عزتی ہوتی ہے۔ اگر شیر کی گردن میں زنجیریں پڑی ہوں تب بھی وہ بادشاہ ہی رہتا ہے‘‘۔
آپؑ کی زبان سے یہ کلمات سن کر دوست نے آفرین کہا اور پھر سوال کیا کہ ’’تم پر کنعان کے کنویں اور مصر کے قید خانے میں کیا گزری؟‘‘
حضرت یوسفؑ نے کہا ’’وہی گزری جو چاند گرہن اور زوال کی راتوں میں چاند پر گزرتی ہے‘‘۔ جب باتیں ہوچکیں تو آپؑ نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ’’تم میرے لیے کیا سوغات لائے ہو؟ کیا تم نے نہیں سنا کہ دوستوں کے گھر خالی ہاتھ جانا ایسا ہی ہے جیسے پن چکی پر گیہوں کے بغیر جانا‘‘۔
آپؑ کے دوست نے کہا ’’بہت شرمندہ ہوں، میں آپ کے لیے کیا تحفہ لاتا، آپؑ دین و دنیا کے بادشاہ ہیں۔ ایک حقیر قطرہ دریا کو، اور ایک ذرّہ صحرا کو کیا تحفہ پیش کرسکتا ہے؟ اے میرے دوست! تیرا حسن حسنِ لاجواب ہے جس کی دید سے دوسرے لوگ تو بہرہ ور ہوتے ہیں مگر آپؑ خود اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا میں آپ کے لیے ایک ایسی چیز لایا ہوں کہ جس سے آپؑ اپنے حسن کا نظارہ کرسکیں گے اور پھر مجھے یاد کریں گے۔“
یہ کہہ کر اس نے آپؑ کو ایک آئینہ نکال کر تحفہ دیا۔ حضرت یوسفؑ نے جب اپنا حسن دیکھا تو گر پڑے۔ زلیخا نے سنا تو کہا:
اب تو میری قدر پہچانے گا تُو
عاشقوں کے درد کو جانے گا تُو
تُو کہا کرتا تھا سودائی مجھے
میں نظر آتی تھی دیوانی تجھے
اب پتا تجھ کو لگا اے بے خبر
حسن کا ہوتا ہے کیا دل پر اثر
درسِ حیات: آئینہ ایک ایسا دلکش تحفہ ہے کہ حسین اس میں اپنا نظارہ کرنے میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے ہیں، بعینہٖ اللہ تعالیٰ کے حسن کا نظارہ کرنے والے بزرگ و درویش دنیا سے بے خبر ہوکر اسی میں محو ِتماشا رہتے ہیں۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ حکایات ِرومیؒ)