سیاسی اور انتظامی ’’وبا‘‘ کی تباہ کاری

مشیر خزانہ کو ہٹانے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا؟

قوم آج کل مختلف وبائوںکا شکار ہے۔ ان میں کچھ طبی، کچھ سیاسی اور کچھ انتظامی ہیں۔ ان وبائوں کے وائرس نے ہمارا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ کورونا ایک وبا ہے، مگر حکومت فیصلہ ہی نہیں کرسکی کہ اس وبا سے بچائو کے لیے اسے کرنا کیا ہے؟ سیاسی وبا ایسی پھیلی ہے کہ سینیٹ میں پیپلزپارٹی نے قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدے کے لیے حکومتی اتحاد سے بھی حمایت لی۔ انتظامی وبا نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئین کی حقیقی روح اور ہمارے اسٹیٹ بینک کی ساکھ ہی بہا لے گئی ہے۔ حکومت کا آئینی فرض ہوتا ہے کہ ملک اور انتظامی اداروں کو مستحکم کرے، عوام کے لیے روزگار فراہم کرے، انہیں اندرونی سلامتی مہیا کرے۔ مگر یہ سیاسی، طبی اور انتظامی وبائیں غیر یقینی کے در کھول رہی ہیں۔ کورونا کی حالیہ لہر اس قدر خوفناک ہے کہ ایک دن میں پانچ ہزار سے زائد لوگ متاثر ہورہے ہیں اور اموات کی تعداد بھی تشویش ناک ہے۔ ہمارے نظامِ صحت کی کمزوری کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم اور اُن کی اہلیہ کے بعد صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اِس کی زد میں آئے۔ سب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کورونا پہلی بار اُس وقت پھیلا تھا جب ہم زائرین کا صحیح طور پر چیک اَپ نہ کرسکے۔ اور اب اِس وبا کے پھیلائو اور اِس کی تباہ کاری میں جو شدت آئی ہے، اُس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ایئرپورٹس پر کورونا چیکنگ کے خاطر خواہ انتظامات ہی نہیں۔ برطانیہ سے آئے ہوئے مسافر چیکنگ کے بغیر ایئرپورٹ سے باہر آگئے، اور وہ شہروں اور قصبوں میں برطانیہ کی خطرناک وبا پھیلاتے گئے۔
دوسری تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ویکسی نیشن کا عمل تشویش ناک حد تک سست روی کا شکار ہے، اور اس سے بھی بڑی تکلیف یہ کہ اس عمل کو منافع کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اس پر پارلیمنٹ بھی خاموش ہے اور حکومت بھی۔ تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ وی وی آئی پی کلچر ختم کرے گی، مگر وہ بتائے کہ اسلام آباد میں دو ماہ قبل ایک مقامی ہسپتال کے ذریعے ویکسین کی پہلی ڈوز خاموشی سے کیوں لگائی گئی، اور پارلیمنٹ میں یہ بات ضرور قوم کے سامنے رکھی جائے کہ ملک میں پہلی ویکسین ڈوز کب اور کسے لگی؟ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اب تک آبادی کے صرف 0.2فی صد لوگوں کی ویکسی نیشن ہوئی ہے۔ برطانوی کورونا کا ہوش اڑا دینے والا یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ بچے بھی اس کی پکڑ میں آرہے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ ہر شہری کی ویکسی نیشن ہو، جبکہ ہمارے منصوبہ سازوں نے ویکسین کے بروقت حصول کا کوئی معقول بندوبست نہیں کیا۔ ہم چین کی خیرات پر گزارہ کررہے ہیں۔ حکومت کی صفوں میں ہر جانب ہڑبونگ ہے اور وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف انتخابی وعدے کی تکمیل کے لیے جنوبی پنجاب پر توجہ دے رہی ہے، اس لیے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، اور وہاں تعینات کیے جانے والے افسروں کے اختیارات طے کیے جارہے ہیں۔ صبح شام نوٹیفکیشن جاری ہورہے ہیں اور غیرسنجیدگی رقص کررہی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ 18ویں گریڈ کے ایک افسر کی تقرری و تعیناتی کے لیے سیکرٹری کے پاس اختیار نہ ہو اور وہ اس کام کے لیے سمری چیف سیکرٹری، کابینہ اور پھر وزیراعلیٰ کی منظوری کے لیے بھجواتا ہو، اسی گریڈ کا افسر جنوبی پنجاب میں تعینات گریڈ 19اور 20کے افسروں کے اختیارات کم کرنے کا ازخود نوٹیفکیشن کیسے جاری کرسکتا ہے؟ وہاں یہی کچھ ہورہا ہے۔ آئین نئے صوبے کے قیام کے لیے باقاعدہ ایک طریق کار بتاتا ہے، نئے صوبے کے قیام کے لیے آئین کے آرٹیکل 1میں ترمیم لازمی ہے، اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں… مگر مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سب خاموش ہیں۔ پارلیمنٹ ہمیشہ یہ کہتی ہے کہ وہ آئین کی رو سے سپریم ادارہ ہے۔ مگر یہ سپریم ادارہ اپنے ہی اختیارات پر لگنے والی کاری ضرب پر خاموش ہے۔ اسے علم بھی ہے کہ اس سے اختیارات چھین چھین کر ریگولیٹرز کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ اختیارات غیر منتخب ہاتھوں میں جارہے ہیں مگر ملک کی کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور میں پارلیمنٹ کی دستوری مضبوطی کی عملی کوشش نہیں کرتی۔ بڑے فیصلے غیر منتخب شخصیات کررہی ہیں، غیر منتخب لوگ پہلے سے زیادہ اختیارات مانگ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے حوالے سے ابھی حال ہی میں جو فیصلہ ہوا ہے یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ ریگولیٹرز بھی اپنے اپنے فیصلے کسی سیاسی نظرثانی کے بغیر آزادانہ طور پر کررہے ہیں، اور آج کی حقیقت یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کے پاس بہت کم اختیارات رہ گئے ہیں۔ خوف ناک منظرنامہ یہ ہے کہ حکومت میں رہنے تک ہر سرکاری افسر سرکار کا دم بھرتا ہے، لیکن جونہی وہ ریگولیٹر بنتا ہے تو اسے اداروں کی ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے، پھر وہ مرضی کے اختیارات مانگتا ہے۔ یہ غیر منتخب افراد کئی معاملات میں پارلیمنٹ کو بھی جواب دہ نہیں ہوتے۔ ریگولیٹرز کو پارلیمنٹ اور حکومت کے اثر سے بالاتر رکھنے کا تصور عالمی مالیاتی ادارے نے ہی دیا ہے۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے معاہدات کے بعد ہم بھی خرابیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، نیپرا، اوگرا، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، پاکستان میڈیکل کمیشن، پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان طب کونسل، انوائرنمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی، سی سی پی، پنجاب فوڈ اتھارٹی، ایجوکیشن اتھارٹی اور پیپرا کی طرح اب اسٹیٹ بینک بھی پارلیمنٹ کے اثر سے باہر نکل جائے گا۔ یہیں سے مافیاز جنم لیتی ہیں۔
2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف اداروں میں اصلاحات کے نام پر لائی گئی، مگر اب تین سال بعد عوام کی جانب سے ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جارہے ہیں۔ خواص نے بھی دوٹو ک لہجے میں کچھ مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے ہیں اور سمجھایا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے جائیں اور ملک کی معیشت بہتر بنائی جائے، ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ندیم بابر اور حفیظ شیخ کی چھٹی بھی اسی کے بعد ہوئی ہے، یہ دونوں غیر منتخب افراد وزیراعظم کی نظروں میں باصلاحیت تھے، حفیظ شیخ کو توسینیٹ کا ٹکٹ بھی دیا گیا، مگر وزیراعظم کو احساس دلایا گیاہے کہ بہتری لائیں ورنہ خزاں یہ ساری بہار بہا لے جائے گی۔ پنجاب میں تبدیلی کے لیے پَر تولے جارہے ہیں اور تبدیلی کے خاکے میں رنگ بھرا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی چودھری پرویز الٰہی کے لیے ہامی بھر چکی تھی، مسلم لیگ(ن) کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ چودھری پرویزالٰہی کے لیے ہاں کرے یا چودھری نثار علی خان کے لیے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے یہ کہہ کر کھیل بگاڑ دیا کہ وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ(ن) کا حق ہے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی راہیں جدا کرلیں اور سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ لے لیا۔
حکومت کی اپنی صفوں میں یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ مشیر خزانہ کو ہٹانے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا؟ ماہرینِ معاشیات کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کی رائے میں ’’ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں اور ان کی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے۔ حکومت اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء سے پاکستان کی خودمختاری گروی رکھ رہی ہے۔ اب گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی جانا چاہیے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور حفیظ شیخ نے وزیراعظم کو اقتصادی معاملات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا‘‘۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کی رائے میں ’’حماد اظہرکو وزیر خزانہ لگا کر حکومت نے دوسری غلطی کی ہے، حماد اظہر معیشت دان نہیں ہیں بلکہ قانون دان ہیں، معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لیے معاشی ماہرین سے مدد لی جائے‘‘۔ انہوں نے رائے دی کہ غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا کرچھے سے سات بلین ڈالر تک کی بچت کی جاسکتی ہے۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق ’’حکومت کی عوام اور ملک کے حوالے سے کوئی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ وہ قرضے واپس کرے، حکومت کی 16 معاشی ترجیحات میں صرف دو مثبت کہی جاسکتی ہیں،حکومت قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے، وہ عوامی فلاح، صنعتوں کی بہتری، زراعت کی پیداواری صلاحیت اور اہم معاشی امور کے حوالے سے کچھ سوچ ہی نہیں رہی‘‘۔
ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کہتی ہیں کہ مسئلہ پالیسیوں کو بدلنے کا ہے۔ حفیظ شیخ ہوں یا کوئی اور اُن کی جگہ آئے، اس ملک میں سارے وزیروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں چلانے کا شوق ہے، ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا گیا ہے اور اب تمام تر پالیسیاں انہی کی ہیں، نیپرا بھی خودمختار ادارہ ہے، یہ اب بجلی یونٹ کے نرخ طے کرنے میں آزاد ہے، حکومت کو صنعتی شعبے کو جو بھی ریلیف دینا ہے اُسے پہلے نیپرا کی طرف دیکھنا پڑے گا، اب امریکہ توانائی کے کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے جس سے توانائی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا اور گردشی خسارہ بھی بڑھ جائے گا۔ اس شعبے میں ترقی اور سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں 26 فی صد آبادی ابھی تک بجلی سے محروم ہے۔ مسائل کا جامع حل تلاش کرنا حکومت اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اقتصادی سرگرمیاں ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے منجمد ہیں، جبکہ ایف بی آر نے بتایا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران9 ماہ میں 3394 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا ہے، حاصل شدہ ریونیو مقرر کردہ ہدف 3287 ارب روپے سے 107 ارب روپے زائد ہے۔ ایف بی آر کے مطابق مارچ میں ریونیو مقررہ ہدف 367 ارب روپے کے مقابلے میں 475 ارب روپے رہا۔ اعلامیے کے مطابق پچھلے سال مارچ کے حاصل کردہ نیٹ ریونیو کے مقابلے میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال میں اب تک 177 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایف بی آر نے ہدف سے زائد ٹیکس جمع کرلیا اور ری فنڈز بھی دے دیا، اس کے باوجود ملک میں اقتصادی سرگرمیاں منجمد کیوں؟
اس ساری صورتِ حال کا تجزیہ ماہر معیشت شوکت ترین نے اس طرح کیا ہے کہ 13.25 فیصد شرح سود اور 165 روپے کا ڈالر کرکے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا گیا۔ یہ بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتیں بڑھ جانے سے طلب کم ہوگئی، اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف اب بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ہم سے جو پیسہ لینا ہے اس کی واپسی کا طریق کار بتایا جائے۔ 500 ملین ڈالر دے کر وہ ہمیں پھنسا چکا ہے، ابھی مزید دو سال کے لیے اُس کی دہلیز پر جانا پڑے گا، کیونکہ معاہدہ 39 ماہ کے لیے ہے۔
اب کچھ بات تجارت کی۔ حکومت نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا اور اعلان بھی کردیا۔ اس فیصلے سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نریندر مودی کے مکتوب کے جواب میں اچھے تعلقات کی خواہش کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کیا گیا تھا، اور اگلے ہی روز یوٹرن لے لیا گیا، دبائو بڑھا تو پھر فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تجویز اقتصادی کونسل میں عبدالرزاق داؤد نے پیش کی تھی۔ تجویز جس نے بھی دی، منظور تو اسے وزیراعظم نے کیا تھا، ان کی منظوری کے بغیر کس طرح اس کا اعلان ہوسکتا تھا؟ ردعمل دیکھ کر حکومت پسپا ہوئی اور مشیر قومی سلامتی معیدیوسف نے بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتِ حال بحال ہونے تک بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہوسکتی۔ بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کی شکل میں تجارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر کی پریس کانفرنس میں اس وضاحت کے ساتھ منظرعام پر آیا تھا کہ یہ تجویز وزارت تجارت نے دی، جب کہ حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم اس وقت خود وزیر تجارت بھی ہیں، لہٰذا تجویز بھی وزیراعظم نے خود ہی دی۔ ملک بھر میں اس تجویز پر شدید منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا تووفاقی کابینہ نے یہ تجویز مؤخر کردی۔ وزیراعظم نے وزیر خارجہ، وزیر منصوبہ بندی، وزیر انسانی حقوق اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فیصلہ کیاکہ جب تک کشمیریوں کو حقِ خودارادیت نہیں ملتا اُس وقت تک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔ یوں تین دن تک یہ معاملہ ہاں اور ناں کی صلیب پر لٹکا رہا۔ اب اگرچہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان ہوگیا ہے، تاہم فیصلے سے یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا ہے کہ عمران حکومت کسی ہوم ورک کے بغیر فیصلے کررہی ہے، اور بعد میں ان کی ناقابلِ فہم تاویلات کی جاتی رہتی ہیں۔ یہ سارا منظرنامہ حکومتی صفوں میں افراتفری کی علامت ہے۔
nn