ایران جوہری معاہدہ۔ مثبت پیش رفت

ایران تک جوہری ہتھیاروں کی رسائی روکنے کے لیے 2015ء میں ہونے والا معاہدہ بحال کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ ایران اور مغرب کے درمیان حالیہ تنازعے کا آغاز 2007ء میں اُس وقت ہوا جب ایران نے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنا رہا ہے، چنانچہ ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں، اور چین نے وعدے کے باوجود پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہ کیا۔
سخت پابندیوں سے پریشان ہوکر ایران نے بات چیت کا ڈول ڈالا اور برسوں کے جاں گسل اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد 14 جولائی 2015ء کو پابندیاں ہٹانے کے عوض ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے پر رضامند ہوگیا۔ معاہدے کے متن کی تیاری کا مرحلہ بھی اتنا آسان نہ تھا۔ اس کام میں تین ماہ صرف ہوئے، اور آخرِکار 18 اکتوبر 2015ء کو معاہدے پر دستخط کے بعد 16 جنوری 2016ء سے اس پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اسی کے ساتھ ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہدہ ”برنامہ جامع اقدام مشترک“ (Joint Comprehensive Plan of Action) یا JCPOAاور فارسی میں ”برجام“ کہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی برجام میں فریق ہے، چنانچہ اسے1+5 معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کیے۔
برجام معاہدے کو صدر اوباما اور اقوام متحدہ نے مثالی قرار دیا تھا کہ طاقت کے استعمال کے بغیر جوہری تنازع پُرامن انداز میں حل کرلیا گیا۔ لیکن اسرائیل کو برجام پر شدید تحفظات تھے۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی مہم چل رہی تھی۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ برجام کے سخت مخالف تھے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران جوہری معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انھوں نے تہران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا اور ان کا خیال تھا کہ ایرانیوں نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر ایک جعلی معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔ جناب ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ برسراقتدار آکر وہ اس معاہدے کو منسوخ کردیں گے۔ دلچسپ بات کہ برجام کی امریکی سینیٹ سے 1 کے مقابلے میں 98، اور ایوانِ زیریں سے 25 کے مقابلے میں 400 ووٹوں سے توثیق ہوچکی ہے۔
معاہدے کو عالمی جوہری کمیشن IAECکی ششماہی تصدیق سے مشروط کیا گیا ہے۔ ہر ششماہی جائزے کے بعد تمام ممالک کے سربراہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران برجام پر مخلصانہ عمل کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس نوعیت کی تصدیق مارچ 2018ء میں بقلمِ خود فرمائی، لیکن تصدیق کے صرف دو ماہ بعد 8 مئی کو اپنی نشری تقریر میں برجام سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا۔ ان کے لیے امریکی کانگریس سے اپنے فیصلے کی توثیق ممکن نہ تھی، چنانچہ انھوں نے صدارتی فرمان جاری کرکے اپنی خواہش کو مہرِ تصدیق عطا کردی۔ اسی کے ساتھ انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ایران پر دوبارہ وہی پابندیاں عائد کردی جائیں جو اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایک آمرانہ حکومت ایرانی عوام کے سروں پر مسلط ہے جو 1979ء کے شدت پسند اسلامی انقلاب کا تسلسل ہے۔ ملّائوں کی یہ حکومت مذہبی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی راہ پر گامزن ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران یمن میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے۔ ایران حزب اللہ، حماس اور القاعدہ کا پشتیبان ہے اور مرگ بر امریکہ و مرگ بر اسرائیل ایران کا قومی نعرہ ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کی مدد کے علاوہ ایران عراق اور افغانستان میں بھی شدت پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے الزام لگایا کہ ایران درپردہ (proxy) لڑائیوں کی سرپرستی کے ذریعے علاقے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے تہران علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سیکورٹی کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ تہران کے خلاف فردِ جرم میں یہ الزام بھی ٹانک دیا گیا کہ ایرانی حکومت شمالی کوریا کو مالی و تیکنیکی مدد فراہم کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار یا حاصل نہ کرسکے، تہران پر عبرت ناک پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
امریکہ کی پابندیوں نے ایران کے لیے دوا اور غذا کا حصول بھی مشکل کردیا، اور عالمی ادارئہ صحت کا خیال ہے کہ ان پابندیوں سے تہران کی انسدادِ کورونا مہم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایرانی وزارتِ صحت کے مطابق بروقت دوائیں نہ ملنے سے ہزاروں مریض دم توڑ گئے۔
معاہدے کی یک طرفہ منسوخی نے جہاں امریکہ کو متکبر ریاست اور عالمی معاہدے کے تناظر میں واشنگٹن کو ناقابلِ اعتبار ملک ثابت کیا، وہیں معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان کا اخلاقی معیار بھی کھل کر سامنے آگیا۔
عالمی ایٹمی کمیشن کی ایک کے بعد دس رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ایران برجام پر اخلاص کے ساتھ عمل کررہا تھا، لیکن امریکہ کو برجام کی پاس داری پر مجبور کرنے کے بجائے واشنگٹن کے دبائو پر چین سمیت تمام دوسرے دستخط کنندگان نے ایرانی تیل کی خریداری منقطع کردی۔ ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے اس بارے میں یورپی یونین کے نام ایک خط میں توجہ دلائی اور ساتھ ہی کہا کہ اگر60 دن کے عرصے میں یورپی ممالک نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو تہران برجام سے علیحدہ ہوکر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کردے گا۔ اس خط کے جواب میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر ”افسوس“ کا اظہار کیا۔ جوابی مکتوب میں اس بات کی تعریف و تحسین کی گئی کہ ایران اب تک اس معاہدے پر اس کے متن اور روح کے مطابق عمل کررہا ہے۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے پابندیاں ختم کرنے کے مطالبے کی بات کو گول کرتے ہوئے ایران کو برجام پر مخلصانہ عمل درآمد کی تلقین کی گئی۔
یورپ کے مایوس کن جواب پر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے کام کو دوبارہ شروع کرنے کے ساتھ اپنے میزائیلوں کے نظام کو بھی بہتر بنانا شروع کردیا۔ جواب میں اسرائیل نے ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر محسن فخر زادے کو ایک کار بم دھماکے میں قتل کرا دیا۔ ایرانی جوہری ماہرین کے قتل کا سلسلہ 2010ء سے جاری ہے۔ گزشتہ گیارہ سال کے دوران ایران کے 5 انتہائی تجربہ کار سائنس دان اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل اور ایک ماہر اپاہج ہوچکے ہیں۔
برجام بلاشبہ سابق صدر اوباما کا ایک بڑا کارنامہ تھا، اور اُس وقت کے نائب صدر جوبائیڈن نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب صدر کی حیثیت سے انھوں نے سی آئی اے، وزارتِ خارجہ و قومی سلامتی کے لیے جن وزیروں اور مشیروں کا انتخاب کیا ہے اُن سب نے برجام مذاکرات اور تدوینِ معاہدہ کی اہم ذمہ داریاں ادا کی تھیں۔ وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نائب صدر بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی تھے جو بعد میں صدر اوباما کے نائب وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔ صدر بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون، نائب صدارت کے دوران بھی جناب بائیڈن کے مشیر سلامتی تھے جنھیں بعد میں صدر اوباما نے اپنا نائب مشیر تعینات کیا۔ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس صدر اوباما کی کابینہ میں نائب وزیر خارجہ تھے۔
ایران کے حوالے سے بائیڈن ٹیم کے ایک انتہائی اہم رکن جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley) ہیں۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ، صدر اوباما کے مشیر خصوصی برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امور تھے۔ برجام کو جناب ملّے کی کامیاب سفارت کاری کا کمال قرار دیا جاتا ہے۔ اب جناب ملّے صدر بائیڈن کے خصوصی نمائندہ برائے ایران ہیں۔
برجام سے امریکہ کی علیحدگی پر جوبائیڈن نے شدید تنقید کی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ سے مباحثہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015ء کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ جوبائیڈن نے عندیہ دیا تھا کہ اگر ایران برجام کی شرائط پر مخلصانہ عمل درآمد کی یقین دہانی کروا دے تو امریکہ معاہدے میں واپس آجائے گا۔ چنانچہ اقتدار سنبھالتے ہی صدر بائیڈن نے برجام میں امریکہ کی واپسی کے لیے مشاورت شروع کردی۔
جمعہ 2 اپریل کو یورپی یونین نے مصالحت کار کے طور پر ایک آن لائن اجلاس کا اہتمام کیا، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایران کو امریکہ کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ اگر وہ یورینیم کی افزودگی روک کر برجام پر عمل درآمد شروع کردے تو واشنگٹن ایران پر عائد پابندیاں بتدریج نرم کردے گا۔ ایران نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شرمناک اور غیر قانونی پابندیوں کو مکمل اور فوراً ختم ہوجانا چاہیے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اپنے بیان میں کہا کہ پابندیوں کے مکمل خاتمے سے پہلے تہران کسی بھی قسم کی گفتگو کو غیر ضروری اور وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔ امریکہ کے اس بیان پر ایران کے اشتعال کو کم کرنے کے لیے فرانسیسی وزیر خارجہ جین ڈرین (Jean Drian) نے اپنے ایرانی ہم منصب سے فون پر بات کی۔ فرانسیسی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے جوہری تنازعے کو بات چت کے ذریعے حل کرنے کے لیے ایران کے مثبت رویّے کی تعریف کرتے ہوئے تہران پر زور دیا کہ وہ برجام پر عمل درآمد جاری رکھے تاکہ بامقصد مذاکرات شروع کیے جاسکیں۔ گفتگو کے دوران ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے دوٹوک انداز میں کہا کہ براہِ راست بات چیت کے آغاز سے پہلے امریکہ کو ایران پر عائد پابندیاں ہٹانی ہوں گی اور تہران اپنی اس شرط سے کسی قیمت پر دست بردار نہیں ہوگا۔
رائٹرز کے مطابق ایران امریکہ سے بالواسطہ بات چیت پر راضی ہوگیا ہے اور اس سلسلے میں 6 اپریل کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بات چیت ہوگی، جس کے لیے ایران اور امریکہ کے عہدیدار ویانا جائیں گے، لیکن ان کے درمیان براہِ راست بات چیت نہیں ہوگی اور دونوں فریق مصالحت کاروں کے ذریعے اپنے مؤقف کا اظہار کریں گے، یعنی ایرانی اور امریکی سفارت کار ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی آمنے سامنے نہیں ہوں گے۔ ایک حساس معاملے پر مصالحت کاروں کے ذریعے بات چیت سفارت کاری کے میدان میں نیا تجربہ ہوگا۔
بات چیت پر ایران کی مشروط آمادگی کا امریکہ نے خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ”صحت مندانہ پیش رفت“ قرار دیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور ایران آئندہ ہفتے مصالحت کاروں کے ذریعے مذاکرات کا آغاز کریں گے تاکہ دونوں ملک جوہری سمجھوتے میں واپس آجائیں۔
پابندیاں ہٹے بغیر بالواسطہ ملاقات پر ایران کی آمادگی علاقائی امن کے لیے خوش آئند ہے لیکن اس باب میں کسی چشم کشا پیش رفت کی توقع قبل از وقت ہے۔ ایران یہ بات زور دے کر کہہ چکا ہے کہ پابندیوں کے مکمل خاتمے تک وہ براہِ راست کسی معنی خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے اور نہ ہی یورینیم کی افزودگی روکنے اور اضافی سینٹری فیوجز کی تیاری معطل کرنے پر آمادہ ہے۔ تہران اپنے اس مؤقف پر بھی قائم ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
جوہری تنازعے کے باعزت تصفیے اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے میں امریکہ کی دلچسپی کی ایک وجہ تہران کی چین سے بڑھتی ہوئی قربت ہے۔ 27 مارچ کو چین اور ایران نے 25 سالہ تزویراتی (Strategic) معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مجموعی حجم چار سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ تہران میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایرانی تیل و معدنیات کے عوض یہ خطیر رقم چین فراہم کرے گا، اور دونوں ملک دفاع، معیشت، ابلاغیات، مواصلات اور جہازرانی کے میدان میں قریبی تعاون کریں گے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ چین ایران قریبی تعاون سے علاقے میں امریکہ کا اثر رسوخ کم ہوجائے گا۔ حال ہی میں عراقی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو اپنے دفاع کے لیے امریکی فوج کی ضرورت نہیں۔ واشنگٹن پر افغانستان سے فوج واپس بلانے کے لیے بھی دبائو بڑھتا جارہا ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل پر امریکہ کے مؤقف کو خلیجی ممالک اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کررہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحہ کی فراہمی معطل کرنے اور یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کے لیے ہٹانے جیسے اقدامات سے بھی امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کے درمیان تعلقات کی گرم جوشی ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں ایران اور چین کا اتحاد امریکہ بہادر کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ سیانوں کا خیال ہے کہ بیجنگ تہران دوستی نے امریکہ کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کیا ہے۔
عوامل و محرکات سے قطع نظر ایران امریکہ کشیدگی میں کمی امن دوستوں کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس تنائو نے آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہازوں کا بیمہ مہنگا کردیا ہے۔ اس آبی شاہراہ سے دنیا کا 40 فیصد خام تیل گزرتا ہے۔ متوقع حملوں کے خوف سے جہازوں کے حفاظتی اقدامات پر بھی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ان پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کورونا کے ستائے ایرانی عوام راحت کے مستحق ہیں۔
اس مرحلے پر اُس شخص کو کٹہرے میں لانا بھی ضروری ہے جس نے محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے نہ صرف اپنے ملک کو یک طرفہ طور پر معاہدے سے سبک دوش کرلیا بلکہ ناروا پابندیاں عائد کرکے ساڑھے آٹھ کروڑ انسانوں کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ کے ظالمانہ رویّے سے زیادہ شرمناک مہذب دنیا کی بے حسی ہے۔ امریکہ کے علاوہ معاہدے کے پانچوں دوسرے فریق اور ضامن نے ایک سے زیادہ بار گواہی دی کہ ایران برجام پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کررہا ہے۔ ایرانی تنصیبات کا دس بار تفصیلی جائزہ لیا گیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ ماہرین کے ہر وفد میں امریکی سائنس دان بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود کسی ایک ملک کو امریکی تکبر کے آگے کھڑا ہونے کی جرات نہ ہوسکی۔ اس معاہدے پر مبارک سلامت کی جو گل پاشی کی گئی تھی اس کی چند کلیاں یہاں پیشِ خدمت ہیں:
٭ یہ علا قے میں امن و استحکام کے لیے اہم ترین قدم ہے، بان کی مون، معتمدِ عام اقوام متحدہ
٭ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت ہر نقص سے پاک ہے، یوکیا امانو (Yukia Amano) سربراہ عالمی ایٹمی ایجنسی
٭ تمام فریق کے لیے بہترین اور تاریخی معاہدہ ہے، صدر اوباما
٭ اس عظیم الشان کامیابی کا سہرا تمام فریقوں کے سرہے، جرمن چانسلر محترمہ اینجلامرکل
اگر بین الاقوامی معاہدوں کو اسی طرح بیک جنبش قلم منسوخ کرنے کی روش چل نکلی تو اس سے معاہدوں اور وعدوں کی ساکھ ختم ہوجائے گی۔اس جانب شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ انھ بھی اشارہ کرچکے ہیں۔ ویت نام چوٹی کانفرنس کی ناکامی کے بعد شمالی کوریا کے چیئرمین نے کہا کہ اگر میرا ملک امریکہ سے معاہدہ کرکے اپنا جوہری پروگرام ختم کردے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ صدر ٹرمپ کے بعد آنے والی انتظامیہ معاہدہ منسوخ کرکے شمالی کوریا پرنئی پابندیاں نہیں لگادے گی؟ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ لیکن اس لاچار عفیفہ کے بارے میں حضرتِ انور مسعود کے چار مصرعوں پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زد پر جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
…………………..
اب آپ مسعودابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔