مزاحمت اور مفاہمت کا ’’کاک ٹیل‘‘ بنی پی ڈی ایم کتنا وقت چل سکے گی؟

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر رفیق چانڈیو نے ہفتہ 3 اپریل کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں وطنِ عزیز کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے جو جو تجزیہ کیا ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے پیش خدمت ہے۔
…………
’’پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہ دینے کی وجہ سے پی ڈی ایم الجھن کا شکار ہے۔ دوسری جانب حکومت کے نادان اور ناتجربہ کار وزراء پی ڈی ایم کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے یہ باور کرا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کا خاتمہ بالخیر ہوچکا۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پنڈتوں کا یہ خیال ہے کہ جب پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو اِن ہائوس تبدیلی کے راستے پر لگایا گیا تھا تو یہ امر نہایت واضح ہوچلا تھا کہ اب جلائو گھیرائو کی سیاست سے پی ڈی ایم کو لاتعلق رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی سے یقین دہانی حاصل کی جاچکی ہے۔ سینیٹ کے الیکشن سے لے کر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت مشکل اور غیر یقینی کا تھا۔ اس دوران میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل تھی کہ مسلم لیگ (ن) عوامی اُبھار کے لیے سعی میں مصروف اور کوشاں تھی۔ مسلم لیگ (ن) مریم نواز کی قیادت میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو عوام میں قبولیت کا درجہ دلانے میں کامیاب ہورہی تھی۔ پیپلز پارٹی کیوں کہ بلاول بھٹو کو سیاست کے میدان میں اتارچکی تھی، اس لیے بلاول بھٹو کے سیاسی کیریئر کے لیے اس سیاسی ہلچل کا حصہ بننا بھی بے حد ضروری تھا، کیوں کہ دوسری صورت میں مریم کے مقابلے میں بلاول شاید پیچھے رہ جاتے۔ ویسے بھی بلاول کو پیپلز پارٹی کی مفاہمت والی سیاست کے بعد پارٹی کی کم ہوجانے والی مقبولیت کو بہتر بنانے کا مشکل کام بھی سرانجام دینا ہے، جس کا بڑا محور اور مرکزپنجاب تھا۔ ادھر نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی سخت رسّاکشی کو نظر میں رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے شاید اس سے فائدہ اٹھاکر ایک مرتبہ پھر سے حکومت میں آنے کا سوچ لیا ہو۔ ان سیاسی حربوں سے حکومت میں آنا اور جانا سیاسی جماعتوں نے سیکھ لیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی قبولیت حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ لائن میں لگا رہا جائے، اور جب بھی موقع ملے اور باری آئے، تب اقتدار حاصل کرلیا جائے۔
اس سارے سیاسی قصے میں پیپلز پارٹی جو بات فراموش کررہی ہے وہ یہ ہے کہ تبدیل شدہ اور سماجی تبدیلیوں کا رُخ موڑ دینے والے سوشل میڈیا کمیونی کیشن میں در آنے والی انقلابی تبدیلیوں کے باعث شاید اسٹیبلشمنٹ اپنی سابقہ سیاسی گرفت رکھنے میں زیادہ عرصے تک کامیاب نہ ہوپائے۔ کمیونی کیشن میں پہلی تبدیلی کا اثر پاکستان میں میڈیا کا تھا، جس کی وجہ سے کمانڈو پرویزمشرف کو اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے۔ دوسری لہر سوشل میڈیا کی آچکی ہے، جس کی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ برما میں ہونے والے فوجی قبضے کے خلاف وہی برمی قوم جو پول پاٹ کے مظالم کے خلاف بھی نہیں اُٹھ پائی تھی، آج جرنیلوں کے سامنے صف آرا ہوچکی ہے۔ ہانگ کانگ میں نوجوانوں کی تحریک کو بھی سوشل میڈیا کا سماجی اثر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کی بیداری کا عمل پنجاب سے شروع ہو، اور پاکستان ایک نئے جمہوری نظام کی جانب اپنے قدم بڑھانے میں کامیاب ہوجائے۔ لیکن افسوس کہ ایسی صورتِ حال میں پیپلز پارٹی پھر بھی کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ تاریخ کے اس سیاسی موڑ پر کھڑے ہوکر آج اگر یہ سوچا جائے تو حیرت ہوگی کہ وقت نے کس قدر ستم ظریفی کی ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی آمریت کے خلاف آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت اپنے قدم کیے ہوئے ہے، اور دوسری جانب ضیاء الحق کے ساتھی نوازشریف کی بیٹی اور ساری پارٹی ملک میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے تحت آمریت کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔ اگرچہ یہ سمجھنا انتہائی آسان ہے کہ آگے چل کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اتحاد صرف اُسی وقت چل سکتا ہے جب مسلم لیگ (ن) کم از کم عمران خان کی حکومت کے بقیہ رہ گئے عرصے میں پیپلز پارٹی کو مکمل سیاسی عمل اور تشکیل کے لیے مطلوبہ سپورٹ مہیا کرے۔ کیوں کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست ٹکرائو میں ہے، اس لیے پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کو ان حالات میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔
پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں بنیادی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے اختلاف کا دوسرا اہم سبب ہے لانگ مارچ اور دھرنے کی حکمت عملی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ پیپلز پارٹی طویل المیعاد حالات میں صرف مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اقتدار تک رسائی مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے سہارے حاصل تو کرے گی لیکن اقتدار میں حصہ داری یا شراکت میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے کی جامع منصوبہ بندی پیش نظر نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لانگ مارچ، دھرنے وغیرہ جیسی جارحانہ سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں اگر عمران حکومت کسی طریقے سے ختم بھی ہوجائے تو آنے والے الیکشن سے قبل نواز لیگ ریاستی اداروں سے مزید ٹکرائو میں آئے گی۔ الیکشن کی صورت میں پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت آج بھی ہے اور کل بھی اسے ہی حکومت ملنی ہے تو پھر پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑے ٹکرائو کا حصہ کیوں بنے؟ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نواز لیگ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پرویزمشرف کو باوجود سزا ملنے کے باہر بھیج دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی اتنے ہی خراب تجربات پیش آچکے ہیں جتنے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وہ برے تجربات بھگت چکی ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی قیادت سیاست کے آنے والے برسوں پر نظر ڈالنے کے بعد پی ڈی ایم کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے پر قطعی راضی نہیں ہے۔
دراصل شروع میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے اس قسم کی بالواسطہ یا بلاواسطہ بات کی گئی تھی، لیکن بعدازاں پیپلز پارٹی کے اندر اداروں میں یہ بات طے کی گئی کہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے ہر قسم کی جدوجہد کرنے کی ہامی بھری جاسکتی ہے، لیکن اسمبلیوں سے استعفے دینے کے لیے اس وقت ہاں کرنا بنیادی سیاسی غلطی ہوگی۔ دوسری جانب عمران حکومت کو خواہ اسٹیبلشمنٹ جتنا بھی سپورٹ کرے لیکن عمران خان کی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لیے بالآخر یہی واحد راستہ بچے گا کہ وہ غیر جانب دار ہوکر عمران سرکار کو سیاسی اکھاڑے میں چھوڑ دے۔ لیکن ایسی صورتِ حال میں بھی اسٹیبلشمنٹ یہ طے کرچکی ہوگی کہ چاہے حکومت میں کوئی بھی آئے لیکن مسلم لیگ (ن) نہ آسکے۔ اس ساری سیاسی صورت حال میں یہ امر صاف اور واضح دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے مستقبل کی سیاست کو صاف ستھرا اور اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ کے لیے غیر جانب دار رکھنے کی خاطر ایک مؤثر حکمت عملی کی تشکیل ازبس ضروری ہے، بصورتِ دیگر دونوں بڑی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چلتے چلتے اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھیں گی۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں غیر جانب دار رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی نے یہ طے کررکھا ہے کہ پارلیمنٹ کے فورم پر قانونی طریقوں سے پیش رفت کی جائے۔ یہ اس کی واضح طے شدہ پالیسی ہے کہ زیادہ ٹکرائو سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور اس بارے میں اجتناب برتا جائے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی طرح کوئی ایسی آئینی شق متعارف کرانے سمیت اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی دبائو میں رکھنے کے آپشن موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کیوں کہ عمران سرکار کی جانب سے سخت دبائو کا شکار ہے، اس لیے اُس کا جلائو گھیرائو کی سیاست کی جانب رجحان کہیں زیادہ ہے۔ اپنے طور پر مسلم لیگ (ن) کسی بھی دوسری پارٹی کو حکمت عملی کے طور پر سیاسی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، جس کی حالیہ مثال نواز لیگ کی طرف سے چودھری برادران سے پنجاب حکومت شیئر کرنے پر مبنی آپشن کو تسلیم نہ کرنا بھی ہے۔ پی ڈی ایم کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن آنے والے ڈھائی برس نکالنے کے لیے عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت بھی اپنی طرف سے بھرپور سعی کرے گی۔ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننے کے باعث روز بروز بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں عوامی ردعمل ناگزیر ہوچلا ہے، اور ایسی صورتِ حال میں کسی انارکی جیسی سیاسی صورتِ حال کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘