ترقی یافتہ قوموں کی جانب نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جسے اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر ان قوموں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قوموں کے عروج کا سفر تعلیم کے حصول کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم ترقی و خوش حالی کی منازل طے کرنا تو چاہتے ہیں لیکن حکومتوں کی سطح پر تعلیم کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کرسکے ہیں۔ ہم ترقی کے خواہاں تو ہیں لیکن شاید اس کے لیے ہمیں کسی شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔ حکومتیں تعلیمی اداروں کو قومیاتی ہیں، پھر تیس چالیس برس بعد ان ہی تعلیمی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ہم تعلیم پر مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا پانچ فیصد تک خرچ نہیں کرسکے ہیں، گوکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے تعلیمی اداروں کا حال شاید بہتر ہو، لیکن سندھ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا احوال بیان سے باہر ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ کے ادارے ”ریفارم سپورٹ یونٹ“ کی رپورٹ کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے 26 ہزار سے زائد اسکولوں میں پینے کے پانی، اور 19 ہزار سے زائد اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں ہے۔ 31 ہزار سے زائد اسکول بجلی سے محروم ہیں۔ صوبے کے 21 ہزار 900 سے زائد اسکولوں میں چار دیواری بھی موجود نہیں۔ سندھ کے 36 ہزار سے زائد اسکولوں میں کھیل کے میدان اور 47 ہزار سے زائد اسکولوں میں لیبارٹریز نہیں ہیں۔ سندھ کے 47 ہزار سے زائد اسکولوں میں لائبریریز بھی موجود نہیں ہیں۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق 45 لاکھ 61 ہزار 140 بچے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، ایک لاکھ 33 ہزار اساتذہ ان اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سندھ کے دیہی علاقوں کی طرح میٹروپولیٹن شہر کراچی کے اسکولوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ کے ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے 3 ہزار 36 سرکاری اسکولوں میں فعال اسکولوں کی تعداد 2 ہزار 623 ہے۔ ان اسکولوں کا حال بھی یہ ہے کہ 873 اسکول بجلی، 566 اسکول بیت الخلاء، 1207 اسکول پینے کے پانی، اور 450 بائونڈری وال سے محروم ہیں۔ یہی نہیں، 2553 اسکول سائنس لیبز کی جدید سہولت سے بھی محروم ہیں۔ کراچی کے 2736 سرکاری اسکولوں میں لائبریریز موجود نہیں ہیں، 1352 اسکول کھیل کے میدانوں سے بھی محروم ہیں۔
اوپر بیان کیے گئے اعداد و شمار کسی نجی ادارے کے نہیں بلکہ خود سرکارے ادارے کے ہیں، لیکن مجال ہے صوبے پر تیسری بار لگاتار حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے قائدین اور وزیراعلیٰ سندھ کو اس پر شرمندگی بھی ہو۔ صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی جو مخالف سیاسی جماعتوں اور وفاق پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر سندھ میں تعلیم کی خراب ہوتی بلکہ بیڑا غرق ہوتی صورت حال پر خود سے بھی سوال پوچھیں، انہیں سیاست اور پریس کانفرنسوں سے فرصت ملے تو ذرا اپنے حلقے ہی میں موجود سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار دیکھ لیں، جہاں ایک پرائمری اسکول اب گدھے گھوڑوں کا اصطبل اور کار پارکنگ بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے چار ملین کے قریب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسے حالات میں جب حکومتوں نے تعلیم جیسے اہم شعبے سے صَرفِ نظر شروع کررکھا ہے کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو اندھیروں میں چراغ جلانے کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان میں معیاری تعلیم کا حصول نچلے طبقے کے لیے انتہائی دشوار ہے۔ بیٹھک اسکول نیٹ ورک معیاری تعلیم پہنچانے اور علم کے دیپ جلانے میں مصروفِ عمل ہے۔ بیٹھک اسکول نیٹ ورک کچھ خواتین کی کوششوں سے اپنے اپنے گھروں کی بیٹھک سے شروع ہونے والا ادارہ ہے۔ 1996ء میں بیٹھک اسکول نیٹ ورک اس سوچ کے تحت وجود میں آیا کہ دیہی علاقوں کے اُن بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے جو مزدور، دیہاڑی پیشہ اور غربت و افلاس کی چکی میں پسنے کے سبب تعلیم سے محروم کردیے گئے ہیں۔ بیٹھک اسکول کی رضاکار خواتین کی گزشتہ 25 سال کی جدوجہد کے نتیجے میں اس وقت 143 پرائمری اور کچھ سیکنڈری اسکولوں کا تناور درخت بن چکا ہے جس کی گھنی چھاؤں تلے 18000 طلبہ و طالبات، 1000 اساتذہ کی زیرِ نگرانی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 10 انڈسٹریل ہومز بچوں اور آبادی کی خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں، بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ماؤں کی تربیت کے لیے کمیونٹی آگاہی پروگرام کا انعقاد بھی کیا جاتاہے، کچی بستیوں میں قائم ان اسکولوں میں اساتذہ بھی ان ہی آبادیوں سے تعینات کیے جاتے ہیں جن کی فنّی و فکری تربیت کے لیے ماہانہ تربیتی ورکشاپ کروائی جاتی ہیں۔ یہ ادارہ سوسائٹی فارایجوکیشنل ویلفیئر (SEW) کے زیرِنگرانی سال 2000 ء میں سوسائٹی ایکٹ 1860کے تحت رجسٹرڈ کروایا گیا ہے۔ بیٹھک اسکول کے دو لاکھ سے زائد فارغ التحصیل طلبہ مخیر حضرات کے تعاون سے آج معاشرے کے کارآمد فرد بن کر زندگی کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان اسکولوں سے فارغ التحصیل طالبات کی بڑی تعداد ان اسکولوں میں بطور استاد اپنے فرائض ادا کررہی ہے۔ صرف یہی نہیں، ان اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے کچھ درخشاں ستارے نمایاں کامیابیاں حاصل کررہے ہیں، ان میں سے ایک جامعہ کراچی سے فزکس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کررہا ہے، ایک طالبہ نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب ایم فل کررہی ہے، ایک طالبِ علم چارٹرڈ اکاؤنٹس کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو نجی شعبےدامے، درمے، سخنے انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں سیلاب سے متاثرہ 106 اسکولوں کی تعمیر کا منصوبہ عالمی ادارے یو ایس ایڈ کے تعاون سے شروع کیا گیا، 15 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کے اس منصوبے میں اب تک 74 اسکول مکمل فعال ہوچکے ہیں، جنہیں سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تحت سرکاری اور نجی شعبے کے تعاون سے چلایا جارہا ہے۔ جدید سہولیات سے آراستہ یہ اسکول کسی بھی طرح پرائیویٹ اسکولوں سے کم نہیں ہیں۔ یہ اسکول سکھر، خیرپور، لاڑکانہ، دادو، قنبر شہدادپور، جیکب آباد اور کشمور میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے لیے نجی شعبے کی خدمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اب تعلیم جیسے اہم شعبے سے جان چھڑا رہی ہے اور صحت کی طرح اس شعبے کو بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر دینا چاہتی ہے۔ تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے بیٹھک اسکول سمیت دیگر فلاحی ادارے اپنا حصہ ملا رہے ہیں، لیکن چراغ سے چراغ جلانے کے اس مشن میں مخیر حضرات سمیت ہم سب کو آگے آنا ہوگا، کیوں کہ یہ کسی ایک شعبے کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے آگے بڑھیں اور ایک طالب علم سے لے کر پورے اسکول کے اخراجات اٹھائیں۔ اپنے عطیات، خیرات اور زکوٰۃ بیٹھک اسکول جیسے قابلِ بااعتماد اداروں کو دیں، تاکہ معاشرے سے جہالت کے اندھیروں کو شکست دے کر ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے کا سبب بنیں اور علم کے نور سے منور کرنے کے سفرمیں اپنا کردار ادا کریں۔