راقم نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز گوہر صدیقی مرحوم کے غزالی کالج سے کیا۔ قصہ یوں ہے کہ 1966ء میں ایم اے اُردو کا امتحان دیا۔ نتیجہ تقریباً چھے ماہ بعد آنے کی توقع تھی۔ اس عرصے میں کوشش تھی کہ لاہور ہی میں ٹکا رہوں (گھر سرگودھا میں تھا)۔ اخبارات و رسائل میں خامہ فرسائی کرنے لگا۔ اوّلین ترجیح تدریس تھی، دوسری صحافت۔
راقم نے اپنے استاد سید وقار عظیم صاحب سے کہہ رکھا تھا کہ ملازمت کی تلاش میں ہوں۔ انھوں نے مجھے اقبال زبیری صاحب کے پاس بھیجا جو لاہور میں روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے۔ زبیری صاحب نے تقریباً نصف گھٹنے تک طرح طرح کے سوالات کرنے کے بعد فرمایا: ہم آپ کو سب ایڈیٹر رکھ لیتے ہیں۔ تین ماہ بعد آپ کو مزید ترقی مل جائے گی۔ اس اثنا میں مجھے گوہر صدیقی صاحب یہ پیش کش کرچکے تھے کہ میں ان کے غزالی کالج جھنگ میں بطور لیکچرار اُردو پڑھانا شروع کردوں۔ میں جھنگ جانے کے لیے تیار تھا مگر چوں کہ استادِ محترم سید وقار عظیم صاحب نے مجھے اقبال زبیری صاحب سے ملنے کی ہدایت کی تھی، اس لیے سوچا: بہتر ہے، زبیری صاحب سے مل کر صورتِ حال واضح کردوں۔ اُن سے ملا اور بتادیا کہ درس و تدریس میری ترجیح اوّل ہے اور غزالی کالج سے پیش کش آئی ہوئی ہے اور وہاں جانے کا ارادہ ہے۔
زبیری صاحب نے فرمایا: جب آپ کو درس و تدریس ہی میں جانا ہے تو بہتر ہے ابھی سے پڑھانا شروع کردیں، تاکہ آپ کے تجربے کی مدت میں اضافہ ہو۔
قصۂ مختصر غالباً ستمبر یا اکتوبر 1967ء سے میں نے غزالی کالج جھنگ میں پڑھانا شروع کردیا۔ فوری طور پر رہائش کا مسئلہ یوں حل ہوا کہ گوہر صاحب نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں میرے رہنے کا انتظام کردیا۔ صبح ناشتا بھی وہیں کرتا اور شام کا کھانا بھی بالعموم اُن کے ساتھ کھاتا۔
کچھ عرصے کے بعد انھوں نے رہائش کا انتظام ایک اور دوست (ڈاکٹر زبیری صاحب) کے مکان میں کردیا جو خالی پڑا تھا۔ تقریباً دو ماہ بعد ڈاکٹر زبیری صاحب اہلِ خانہ کو لے آئے تو میں اُن کے مکان کے ایک کمرے میں رہنے لگا۔ اپریل میں تدریسی سال ختم ہوا تو میں بھی جھنگ سے رخصت ہو کر سرگودھا آگیا۔
گوہر صاحب نے ایم اے اُردو کر رکھا تھا، باصلاحیت تھے مگر جماعت اسلامی سے وابستگی کی وجہ سے اُن پر سرکاری ملازمت کے دروازے بند تھے۔ ملازمت کے لیے وہ کچھ خواہش مند بھی نہ تھے۔ انھوں نے غزالی کالج قائم کرلیا جس میں شام کے وقت ایف اے کی کلاس اور صبح کے اوقات میں پرائمری تک کے بچے پڑھتے تھے۔ اسکول کا انتظام اُن کے ایک قریبی دوست کے ذمے تھا۔ خود گوہر صاحب جماعتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں لاہور، سرگودھا، چنیوٹ، شورکوٹ، لالیاں اور قرب و جوار کے دیہات کا دورہ کرتے رہتے۔ میں تو جھنگ سے چلا آیا، اُن کی ذمہ داریاں بڑھتی رہیں۔ سرگودھا ڈویژن کی شوریٰ کے رکن تھے (امیر: سید اسعد گیلانی)، سرگودھا ڈویژن نے انھیں ڈویژنل جماعت کا قیم مقرر کیا۔ وہ مرکزی شوریٰ کے رکن بھی تھے اور اس حیثیت میں کئی طرح کی کمیٹیوں کے رکن بھی بنائے گئے۔
بہت اچھے مقرر تھے۔ اُردو ادبیات میں ایم اے کی وجہ سے ادبی ذوق رکھتے تھے جس کا اظہار اُن کی تقریروں میں بھی ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ’’آئین‘‘ یا ’’ایشیا‘‘ میں کوئی مضمون لکھ دیتے۔ راقم اُن سے کہتا: کچھ لکھا کریں۔ مگر اس طرف اُن کی رغبت نہ تھی۔ معاملہ کچھ ایسا تھا کہ بقول غالب:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
کہہ سکتا ہوں کہ لکھنے میں کچھ کاہل تھے۔
چھے سالہ قیام جھنگ کے دوران میں کبھی کبھار ہم طلبہ کو پکنک یا تفریحی سفر پر بھی لے جاتے۔ بیشتر یہ سفر خود گوہر صاحب کے ایما پر بنائے جاتے۔ ایک بار ہم شورکوٹ کی جانب ایک ہیڈ بیراج کی طرف گئے۔ گھومے، پھرے، سرکنڈوں کو آگ لگائی۔ اُن کے جلنے کی آوازوں سے لطف اٹھایا۔ اس طرح کی کارروائی میں گوہر صاحب پوری طرح شریک ہوتے (کیا بچپنا تھا)۔ ایک بار ہم طلبہ کو لے کر چنیوٹ گئے اور لبِ دریا ڈیرہ لگایا۔ باورچی بھی ہمراہ تھے اور کھانے کا سامان بھی۔ وہ کھانا تیار کرنے لگے اور ہم (اساتذہ بشمول گوہر صاحب اور طلبہ) کشتی رانی کرنے لگے۔
چند طلبہ کشتی میں بیٹھنے سے گھبراتے تھے، وہ دریا کنارے کھیل کود اور کبڈی کھیلنے لگے… کھانا تیار ہوا۔ کھانے کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھیں اور واپس… جھنگ پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہورہی تھیں۔
گوہر صاحب جماعت اسلامی سرگودھا ڈویژن کی مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے سرگودھا آتے تو ملاقات ہوجاتی۔ وہ میری تحریری سرگرمیوں کی تحسین فرماتے۔ 1981ء میں راقم لاہور منتقل ہوگیا۔ گوہر صاحب مرکزی شوریٰ میں شرکت کے لیے لاہور آتے، ملاقات ہوتی اور دو طرفہ پرسشِ حال احوال۔ راقم انھیں اپنی کوئی نئی کتاب پیش کرتا، بہت خوش ہوتے اور تحسین فرماتے۔
رفتہ رفتہ ان کی صحت کمزور ہوتی گئی۔ آہستہ آہستہ بڑھاپے نے انھیں آ لیا۔ جھنگ تک، بلکہ گھر تک محدود ہوگئے۔ غالباً5،6برس قبل منصورہ آئے۔ وہیل چیئر پرتھے۔ مسجد میں لائے گئے۔ نماز ظہر کے بعد سہارے سے کھڑے ہوکر چند تعارفی کلمات ارشاد فرمائے، اپنا تعارف کرایا اور حاضرین سے دعا کی درخواست کی۔
دو یا تین برس ہوتے ہیں۔ ایک صبح راقم ظہور احمد ڈرائیور کے ساتھ گوہر صاحب کی زیارت و ملاقات کی خاطر جھنگ کے لیے نکلا۔ فون پر اُن کے بیٹے کو مطلع کیا کہ ملاقات کے لیے آرہا ہوں۔ اس نے کہا: آج نہ آیئے، وہ ہسپتال میں ہیں اور ملاقات کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ سفر ملتوی۔ چند روز بعد انھوں نے مطلع کیا: ہسپتال سے گھر آگئے ہیں، ملاقات ہوسکتی ہے۔ ہم جھنگ روانہ… راقم، ظہور ڈرائیور اور شاگردِ عزیز پروفیسر قاسم محمود احمد… گھنٹہ بھر ملاقات رہی۔ بتایا گیا: زیادہ تر لیٹے رہتے ہیں۔ بہت کم اٹھ کر بیٹھتے ہیں۔ زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتے۔ راقم کو دیکھ کر اٹھنے کی کوشش کی۔ دیر تک گلے لگائے رکھا۔ بہت خوش ہوئے۔ ہم غزالی کالج کے زمانے کی باتیں کرنے لگے۔ وہ کوئی کوئی بات بھول جاتے تھے۔ میں لقمہ دیتا، پھر چل پڑتے… بہ اصرار چائے پلائی، کباب، مٹھائی… خود بھی بدپرہیزی کی، ایک گلاب جامن کھا لیا… (ان کے لیے ممنوع تھا)… کھانے کے لیے رکنے کا اصرار، مگر ہم نے معذرت کی۔ دعا کے بعد رخصت … ہفتوں تک اس ملاقات اور سفر کی لذت رہی۔
مرحوم نے مزید کچھ تعلیمی ادارے بھی قائم کرلیے تھے اور وہ ابھی تک چل رہے ہیں۔ اُن کے لیے صدقہ جاریہ۔
پرسوں کام پر بیٹھا۔ واٹس ایپ دیکھنا شروع کیے۔ پہلی خبر: ایک افسوس ناک خبر… گوہر صدیقی آج انتقال کر گئے۔ نماز جنازہ بعد مغرب۔‘‘
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ حق مغفرت کرے، آمین۔