ایک پروگرام سے واپسی پر راستے میں تھی کہ سر متین الرحمٰن مرتضیٰ صاحب کے انتقال کا واٹس ایپ میسیج ملا۔ دکھ اور غم کے شدید احساس کے ساتھ حمیرا قریشی کو فوراً میسیج کیا ”میں تم سے کہتی رہی کہ بہت عرصہ ہوگیا ہے، سر سے ملنے چلتے ہیں، پروگرام بنالو۔ مگر تم نہیں چلیں اور ہم محروم رہ گئے۔۔۔!!!“
دکھی حمیرا بھی بہت ہورہی تھیں۔ فوراً جواب آیا کہ ”آپ بھول گئیں، میں نے بتایا تھا کہ آج کل وہ اسلام آباد میں ہیں۔“
میں بہت کم لکھ پاتی ہوں، مگر جنہوں نے قلم پکڑنا سکھایا، تحریر کو نِک سُک سے درست کرکے اس کو قارئین کے لیے جان دار بنانے کا گُر سکھایا۔۔۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے پر قلم نہ اٹھانا۔۔۔ حق نہ ادا کرنے کے مترادف ہوگا۔ اور جب دماغ میں یادوں کا ایک ہجوم ہو تو قرطاس پر منتقل کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
زندگی کا پہیہ بڑی ظالمانہ رفتار سے گھوم رہا ہے۔ وقت کا دھارا، زمانے کا بہاؤ کائنات کی ابدی سچائی اور حقیقت ہے۔
بیتے ہوئے ماہ و سال لمحہ بھر میں ”کل“ کی بات لگنے لگتے ہیں۔
زندگی کا سب سے خوبصورت دور، زمانہِ طالب علمی کا ہوتا ہے، اور خاص کر جب نظریاتی اور فکری محاذ پر سرگرم ہوں۔ جامعہ کراچی کی طویل راہداریوں میں ہر دم رواں۔۔۔ دواں۔۔۔ مختلف شعبہ جات میں جانا۔۔۔ سائنس فیکلٹی جانے کے لیے کانووکیشن گراؤنڈ کو پار کرنا۔۔۔ نظریاتی بنیادوں پر حصولِ علم کا سفر۔۔۔ ایک مقدس سفر ہے۔ جہدِ مسلسل۔۔۔ پیہم جستجو۔۔۔ سوچیں تو ماضی کا ایک ایک ورق۔۔۔ یادگار و خوبصورت داستان سناتا نظر آتا ہے۔
ایسے میں خوش نصیبی ہماری کہ سر متین الرحمٰن مرتضیٰ جیسے استاد۔۔۔۔ اللہ کے فضلِ خاص سے مل گئے، جنہوں نے نہ صرف قدم قدم پر بہترین راہنمائی کی، بلکہ بہت حوصلہ افزائی بھی۔ انتہائی قدردانی بھی اپنے شاگردوں کی کرتے تھے۔
ان کی بڑائی، تربیت و شفقت کے سحر سے جرنلزم ڈپارٹمنٹ کا کوئی طالب علم باہر نہیں نکل سکا۔
وہ علمی، ادبی، سنجیدہ و شائستہ معاشرت کے عکاس تھے۔
اپنے طالب علموں کی مختلف النوع راہنمائی کے لیے ان کے آفس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔
قحط الرجال کے اس دور میں۔۔۔ پاکستان کی موجودہ صحافت میں ایسے صحافی، منتظم ایڈیٹر اب شاید خال خال ہی ہوں۔ اپنے پیش روؤں کے لیے استادِ محترم ایک روشن چراغ تھے، جو بلا امتیاز تمام طلبہ تنظیموں کے ساتھ حُسنِ سلوک، برداشت اور رواداری کے قائل تھے۔
محترم متین الرحمٰن۔۔۔ جو تہذیب و شائستگی، رکھ رکھاؤ، زبان اور لب و لہجے کی شستگی، مروت و اخلاص کا پیکر تھے، ان کے دنیائے فانی سے رخصت ہوجانے پر نہ صرف کوچہِ صحافت ویران ہوا، بلکہ ہم اپنی اقدار و روایات کے بہت بڑے امین و محسن سے بھی محروم ہوگئے۔
جب جامعہ کراچی میں ایڈمیشن کیمپین چلتی تو دیر تک اپنے آفس میں موجود رہتے، اور ہم نئے داخلے کے خواہش مند طلبہ کے کاغذات ان سے اٹیسٹ کروا کر اسٹیمپ لگواتے۔
جب کبھی جمعیت کوئی کامیابی حاصل کرتی تو میں ڈپارٹمنٹ میں کیک ضرور بنا کر لے جاتی۔۔۔ سر متین مسکراتے ہوئے تبصرہ کرتے کہ۔۔۔ ریحانہ افروز کی صحافت چلے نہ چلے۔۔۔ بیکری ضرور چلے گی۔
بہت ہی اعلیٰ ظرف شخصیت کے مالک تھے۔ جب کبھی مجھے کلاس میں دیر ہوجاتی اور سر کا لیکچر شروع ہوچکا ہوتا۔۔۔ مجھے دیکھ کر گھڑی پر نظر ڈالتے اور فرماتے: ہاں بھئی لیڈر تو دیر سے ہی آتے ہیں۔
ہنگامی صورت حال میں ان کا آفس ہماری پناہ گاہ بھی ہوتا۔ خصوصاً محمد اسلم بھائی کی شہادت کے موقع پر وہ اپنے دفتر میں موجود رہے اور کہا کہ اپنے گھروں کو فون کرلیں۔ میری امی تو ہمیشہ ان کو فون کرکے پوچھتیں۔۔۔ اور وہ ان کو مطمئن کردیتے۔
میں اپنے شوہر جاوید صاحب کو لے کر سب سے پہلے سر متین کے گھر گئی۔ وہ بے انتہا خوش ہوئے اور اپنی بیگم کو آواز دی کہ دیکھو دلہا میاں آئے ہیں۔ بہت زیادہ خاطر تواضع کے ساتھ چلتے وقت سلامی بھی دی، جو مجھے تاحیات یاد رہے گی۔
وہ اپنی تمام تر محبتوں سمیت اپنی اقدار و روایات کے ساتھ قبر میں اتر گئے۔
وہ موت کی ناؤ پر بیٹھ کر ہم سے دور چلے گئے۔۔۔ مگران کی یادیں، ان کا سکھایا ہوا سبق یادوں کے دریا میں لہریں اٹھاتا رہے گا۔
علم و فضل اور ادب و صحافت کے ایک دور کا اختتام ہوا۔۔۔ ایک چراغ اور بجھا۔۔۔ سفرِ زندگی تمام ہوا۔ یقیناً موت زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔
جب پُرسے کے لیے ان کے گھر گئے تو ان کے اہلِ خانہ سے مل کر، ان کی تینوں بیٹیوں، نواسے نواسیوںسب ہی میں ان کی تربیت کا رنگ نظر آیا، جو نہ صرف سر متین کے کتب خانے کو سنبھال رہے ہیں، بلکہ ان کے مضامین کو پڑھنا،کمپوز کرنا، پروف ریڈکرنا۔۔۔ یوں وہ ان کے علمی وتحقیقی کام کوآگے بڑھا رہے ہیں۔
اللہ کرے ان کے قیمتی مضامین کو شائع کرنے کا بھی انتظام ہوسکے۔
نیز انہوں نے جو چار ہزار سے زائد اداریے لکھے ہیں ان کو بھی ضرور کتابی شکل میں شائع کیا جائے، جو نہ صرف صحافت کے طالب علموں کے لیے گائڈ لائن ہوگی، بلکہ اپنے دور کی تاریخ پربھی ایک مستند حوالہ ہوگا۔
استادِ محترم سر متین کی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر سے رخصت ہوں، اور ایسا ہی ہوا۔ اپنی بیماری کے دوران وہ اسلام آباد سے واپس کراچی اپنے گھر آگئے۔ چند دن کے اندرطبیعت زیادہ بگڑی تو اسپتال ان کو لے کر جانے لگے۔ اُس وقت بھی ان کا رکھ رکھاؤ، لباس کا اہتمام دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے اپنی واسکٹ منگوا کر پہنی، اور جناح کیپ پہنی۔یہ تھا وہ رکھ رکھاؤجو آج کل ناپید ہے۔تعلیمی اداروں میں طلبہ و اساتذہ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
جامعہ کراچی سے ان کا جوتعلق اور نسبت تھی، وہ یقیناً بہت گہری تھی۔ ان کی نمازجامعہ کی مسجدِ ابراہیم میں ادا کی گئی اور تدفین جامعہ کے قبرستان میں ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کے شاگردوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین؎
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے