عالمِ طبیعات فری مین ڈائسن نے ایک بار کہا تھا: ’’سائنس کا نظامِ عقائد جسدِ واحد نہیں ہے۔ سائنس ایک ثقافت ہے، جو مسلسل نشوونما پارہی ہے، صورتیں بدل رہی ہے… فنِ مصوری یا شاعری کی طرح سائنس کے کئی مسابقتی اسلوب ہیں۔ سائنس کی طرح کا یہ تنوع مذہب میں بھی متوازی طور پر پایا جاتا ہے‘‘۔ ڈائسن کہتا ہے کہ یہ تنوع سائنس دانوں کے عقائد میں بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سارے سائنس دان ایسے ہیں جن کے نظریات سائنس نہیں بلکہ اُن کے مذہبی عقائد منعکس کرتے ہیں، خاص طور پر تخلیقِ کائنات اور زندگی کی ابتدا کے بارے میں ان کے غیر سائنسی عقائد زیادہ طاقت ور نظرآتے ہیں۔
بہت سے سائنس دانوں کا یقین ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے، یہ بگ بینگ کے بعد ‘inflation’ کے عمل سے گزری۔ طبیعات دان اور سائنس فکشن مصنف جارج ایلس نے لارنس کراؤس کی کتاب A Universe from Nothingکے بارے میں کہاکہ ’’جوکچھ وہ پیش کررہا ہے وہ آزمودہ سائنس نہیں ہے۔ یہ فلسفیانہ قیاس آرائی ہے، جس پر وہ ایمان لے آیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس معاملے میںکوئی وضاحت اور ثبوت پیش کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتا، کہ آیا جوکچھ وہ کہہ رہا ہے وہ ’سچ‘ ہے یا نہیں۔‘‘
بگ بینگ کے بعد کیا ہوا؟ اس بارے میں سائنس دانوں کے پاس بہت اچھا فلسفہ ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ سائنس اسے واضح نہیں کرتی، اور ممکنہ طور پر وہ ایسا کربھی نہیں سکتی، وہ نہیں بتا سکتی کہ کس طرح کائنات خلق ہوئی، اس عظیم کائنات کی ابتدا کس طرح ہوئی۔
اب جب کہ بگ بینگ کا نظریہ بھی کائنات کے بارے میں بہت سارے سوالوں کے جواب نہیں دیتا،inflation کا نظریہ، کہ جسے ایم آئی ٹی کے ایلن گُتھ نے 1982ء میں پیش کیا تھا، بہت سے ماہرینِ فلکیات کے لیے ایک قسم کا مذہبی عقیدہ بن چکا ہے۔ یہ نظریہ اُس انتہائی مختصر وقت کا ذکرکرتا ہے جب کائنات روشنی سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلتی چلی گئی۔ اس نظریے نے سائنس دانوں کو بہت سے سوالوں کے جواب دیے، مگر بہت سارے سوال لاجواب ہی رہے۔ بہت سارے چوٹی کے سائنس دان ایسے ہیں جو مناسب سائنسی ثبوت کے بغیر اس نظریے پر یقین نہیں کرنا چاہتے۔
وہ کیا چیزہے؟ وہ کون ہے، کہ جس نے کائنات کی ابتدا کی؟
پرنسٹن کا Paul Steinhardt، جس نے نظریہ inflation کی ترویج میں بھرپور حصہ لیا، اب اُس پرکڑی تنقید کررہا ہے۔ اُس نے دعویٰ کیا ہے کہ اکثر ماہرینِ فلکیات غیر ناقدانہ طور پر اپنے اپنے عقائد پر اندھا اعتقاد رکھنے والے ہیں۔ سن 2017ء میں اسٹین ہارڈ نے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا: ’’ماہرینِ فلکیات ہر وہ بات قبول کرتے نظر آتے ہیں، جن کے بارے میں سینئرز نے کہہ دیا کہ ’یقین کیا جائے!‘ ہمیں لازماً انفلیشن کی تھیوری قبول کرنی چاہیے، کیونکہ یہ کائناتی خد وخال کے مشاہدے کی واحد سادہ وضاحت ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’سائنسی طریقہ کار میں اس نظریے کی کوئی قدر وقیمت نہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ inflation صرف ایک ’مسئلہ‘ حل کرنے کی کوشش ہے: یہ ایک قابلِ مشاہدہ کائنات کی تخلیق کا وہ لطیف آہنگ ہے جس نے زندگی کو وجود بخشا ہے۔ یہ واقعہ سائنس کے لیے واقعی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عالمِ طبیعات ڈیوڈ البرٹ کہتے ہیں کہ فطرت کے انتہائی لطیف بنیادی قوانین ’’کسی طور ان سوالوں سے معاملہ کرتے ہی نہیں، کہ جو کائنات کی ابتدائی حالتوں کی وضاحت کرسکیں۔‘‘
نظریہ انفلیشن کی معیت میں، حالیہ سالوں میں بہت سے ماہرینِ طبیعات نے عقائدی جوش وجذبے سے ’’کئی کائناتوں کے مفروضے‘‘ کا پروپیگنڈا کیا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق: ’’ہم جس کائنات میں رہتے ہیں، وہ بے شمار کائناتوں میں سے ایک ہے، ہرکائنات کی اپنی زندگی کا مخصوص آہنگ، اپنے قوانین اور خصوصیات ہیں‘‘۔ یہ مفروضہ سائنس دانوں کی اس توضیح میں مدد کرتا ہے، کہ ہماری کائنات محض کائناتوں کے نظام کا ایک حصہ ہے، اور اسی لیے اس کی ساخت اس قدر لطیف آہنگ میں تشکیل پاگئی ہے۔ دراصل، جیسا کہ اس کے حامی دلیل دیتے ہیں، ہماری کائنات کی مانند دیگر کائناتوں میں بھی زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ مگر وہ یہاں پہنچ کر رُک جاتے ہیں، اور پھر وہی بنیادی سوال بہت بڑا ہوکر سامنے آجاتا ہے کہ اتنی ساری کائناتوں کی ابتدا کس طرح ہوئی؟
بہت سے معروف ماہرینِ طبیعات یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب دیگر کائناتوں کی موجودگی ثابت کرنا یا نہ کرنا ممکن ہی نہیں، ایسی صورتِ حال میں ’’کئی کائناتوں‘‘ کا نظریہ درحقیقت کوئی سائنس ہی نہیں۔ عالمِ طبیعات Sabine Hossenfelder کی یہ دلیل ہے کہ ’’بہت ساری کائناتوں پر یقین کرنا اور خدا پر یقین رکھنا منطقی طور پر مساوی بات ہے، لہٰذا یہ یقین ایک عقیدہ ہے، سائنس نہیں ہے۔‘‘
ایک اور معاملہ لادین طبقے کے لیے خجالت کا سبب ہے، وہ قطعی قاصر ہیں یہ بتانے سے کہ زمین پر زندگی کس طرح شروع ہوئی؟ اور یہ کہ یہاں موجود زندہ اجسام کی پیچیدگیاںکس نوعیت کی ہیں؟ سائنس دان جانتے ہیں کہ زندگی کا حادثاتی وجود، کہ جب انتہائی چھوٹے کیمیائی اجزا جیسے ایمنو ایسڈ، RNAs اور DNAکے ذریعے اُس کی درست تعمیر و تشکیل ہورہی ہو، عملاً ناممکن ہے۔ مگر افسوس کہ وہ اس ’’اتفاقی حادثہ‘‘ پر یقین کیے چلے جاتے ہیں۔
یہ رویہ اُس سے کچھ مختلف نہیں جو نوبیل انعام یافتہ فزیالوجسٹ George Wald نے1954ء کی تحریر میں ظاہر کیا تھا کہ ’’جب بات زندگی کی اصل کی آجائے تو ہمارے سامنے صرف دو ہی امکانات ہیں۔ ایک زندگی کی بے ساختہ تشکیل ہے، اور دوسرا خدا کا تخلیقی عمل ہے۔ تیسرا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ بے ساختہ زندگی کا امکان سو سال قبل Louis Pasteur, Spelazani, Reddy اور دیگر نے غلط ثابت کردیا تھا۔ یہ صورتِ حال ہمیں سائنسی طور پر ایک ہی نتیجے تک لے گئی کہ زندگی خدا کی تخلیق ہے… مگر میں یہ فلسفہ قبول نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا پر ایمان نہیں لانا چاہتا۔ لہٰذا میں نے اُس یقین کا انتخاب کیا ہے جو سائنسی طور پر ناممکن ہے، یعنی زندگی کا بے ساختہ ارتقاء۔‘‘
(1) کالم نگارامریکہ میں شعبہ مالیات سے وابستہ ہیں۔