معروف ماہر تعلیم، ٹرینر، کئی کتابوں کے مصنف اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ارشد احمد بیگ غور وفکر کے بعد لکھنے والی شخصیت ہیں۔ لکھنے کے لیے پڑھنا اور بہت پڑھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے دانہ اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ارشد بیگ کی تحریریں اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور خیال افاقی ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب ”ذہن اجالا“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ ہر گھر کی کتنی ضرورت اور اہم کتاب ہے اس کا تو اپ کو پڑھ کر اندازہ ہوجائے گا، لیکن ”ذہن اجالا“ کی تقریب ِ رونمائی بھی بہت بھرپور تھی۔ فاران کلب میں منعقد ہونے والی یہ تقریب شہر کے اچانک تبدیل ہونے والے گرم موسم کے باوجود پُروقار تھی، جس میں شہر کی علمی، ادبی شخصیات سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، معروف عالم ِ دین مفتی نجیب، جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق صدر ڈاکٹر محمود غزنوی، صاحب ِ کتاب ارشد احمد بیگ، پروفیسر سلیم مغل، زاہد سعید، جامعہ کراچی شعبہ تعلیم کے معلم ڈاکٹر معروف بن رؤف، معروف ماہرِ تعلیم محمد عظیم صدیقی نے خطاب کیا۔ تقریب میں انجم رفعت اللہ نے ٹینری ایسوسی ایشن لاہور کے سیکریٹری فہیم احمد کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا۔ تقریب میں ارشد احمد بیگ کے والد مرتضیٰ بیگ کا کتاب پر تبصرہ شکیل خان نے پڑھ کر سنایا۔ تقریب میں نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی محفل میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ صاحب ِکتاب کی تحریروں میں جابجا آخرت کا شعور جھلکتا ہے۔ مصنف نے دنیا کی کامیابی کو آخرت سے مشروط کیا۔ یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے، خواتین اپنے بچوں کو یہ پڑھائیں، سمجھائیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اگر کتاب کا انگریزی ترجمہ ہوجائے تو فی زمانہ انتہائی مفید ہوگا۔ کتاب میں بہت تنوع ہے۔ ان کی تحریر میں وسیع مشاہدہ جھلکتا ہے۔
مفتی نجیب خان نے کہا کہ آج کے دور میں اچھی کتاب کے لیے جمع ہونا کسی نیکی سے کم نہیں۔ ہم کسی برقی کتاب کو پڑھ کر وہ استفادہ نہیں کرسکتے جو شخصیت سازی کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ارشد بھائی کی یہ خوبی ہے کہ وہ زندگی کے کئی دائروں میں متحرک ہیں جو ان کی تحریروں میں واضح نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو دنیا میں بھیجا کہ وہ آدم سازی کریں، یہ کتاب موجودہ دور میں مردم سازی کے لیے بہترین ہے۔ اس کتاب میں مردم سازی کے جدید زاویوں کا نہ صرف ادراک بلکہ اس میں اصلاح کا سامان بھی فراہم کیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے، ان کی تحریریں قاری کو دعوت ِ عمل دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کا فتنہ اور دجالیت تشکیک کے راستے لوگوں کو متاثر کررہے ہیں۔ انسان کی مردم سازی میں کردار ادا کرنے والے ادارے مشکوک بنادیے گئے ہیں۔ نیکی کی حفاظت اخلاق سے ہوتی ہے، دل کی آلودگی کے ساتھ سچی نیت اور اخلاص ممکن نہیں۔ ہمارا قلب ڈسٹ بن نہیں بلکہ اللہ کے رہنے کی جگہ ہے۔
ڈاکٹر محمود غزنوی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بحث کی جاتی ہے کہ تعمیری ادب کیا ہوتا ہے؟ میری رائے ہے کہ فکر میں اجالے کا در آنا ہی تعمیری ادب کی پہچان ہے۔ بامعنی ابلاغ انسانی سرشت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قلم سے علم عطا کیا اور بولنے کی صلاحیت عطا کی۔ حواسِ خمسہ عطا کیے تاکہ کائنات کا علم حاصل کرے۔ ربِّ کائنات کا عرفان حاصل کرنا ہی انسان کا مقصد ہے۔ ارشد بیگ وہ خوش نصیب ہیں جن کو اپنی بات کہنا خوب آتا ہے، بیگ صاحب پڑھنے والے کے دل پر دستک دینا بھی جانتے ہیں۔ ان کی کتاب 66 انشائیوں پر مشتمل ہے۔ ان کا ہر انشائیہ قاری کے ذہن کو جھنجھوڑتا ہے۔ اس کا اندازہ قاری کو مطالعے کے بعد ہوتا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کو وہی پذیرائی ملے جو دیگر ادبی کتب کو ملتی ہے۔
ارشد احمد بیگ نے اللہ تعالیٰ اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ مہمانانِ گرامی کی گفتگو کو بیش قیمت اور اثاثہ قرار دیا۔ انہوں نے کتاب لکھنے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی فرد اپنی اصل پر پلٹ آئے، کوئی قدرت کے قوانین کے آگے سرِ تسلیم خم کرلے تو دراصل کتاب کا ہدف حاصل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ خلافتِ ارضی کیا ہوتی ہے، خلافتِ ارضی کے لیے درکار درد اور درک قاری اس کتاب میں واضح محسوس کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب سے مخلوق خالق سے جڑ جائے تو میرا مقصد اور مدعا پورا ہوا۔ یہ کتاب میری زندگی کے 20 سالہ تجربات پر مبنی ہے، اس میں کوئی فکشن نہیں۔ مشاہدات ہیں، آپ بیتی ہے، جگ بیتی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں لوگوں کے لیے اجالوں کا پیام ہے۔ یہ کتاب معلمین، جوانوں، خواتین، کارپوریٹ منیجرز، ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کے لیے ہے۔
پروفیسر سلیم مغل نے کہا کہ ”ذہن اجالا“ کو پڑھ کر ارشد بیگ کے اسلوب کو جانا، طرزِ تحریر کو پہچانا۔ جب یہ کتاب ملی تو میری کئی یادیں تازہ ہوگئیں۔ انہوں نے اسے ایک اچھی کتاب کی نشانی قرار دیا کہ قاری اپنی زندگی میں کتاب کے بیانیہ کا عکس محسوس کرلے اور اسے لگے گویا اس کے اپنے تجربات کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فکر زندہ ہے کتابیں آتی رہیں گی۔ ارشد بیگ نے اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوانوں کو منزل دکھائی ہے۔
زاہد سعید نے کہا کہ ارشد بیگ سے 1995ءسے تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ انبیائے کرام کا تعلق انسانی ترقی سے تھا کہ کیسے انسانوں کا اخلاق بلند کیا جائے اور ان کی زندگی بدل دی جائے۔ بیگ صاحب نے جو کچھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ ان کی زندگی کے تجربات، ان کا علم اور مشاہدہ ہے جو قارئین کے لیے لائحہ عمل ہے۔
ڈاکٹر معروف بن رؤف نے کہا کہ یہ کتاب مصنف کے 20 سالہ تجربے کا نچوڑ ہے۔ تجربہ عقل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کی کلر اسکیم، الفاظ کا انتخاب دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ کتاب فرد کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زندگی کے معاملات میں کتاب رہنمائی نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ عمومی طور پر آج کل لکھی گئی کتب کسی خاص طبقے کے لیے ہوتی ہیں، لیکن یہ کتاب ہر عمر، نسل اور جنس کے لیے ہے۔ اللہ ہمیں اس کتاب سے استفادے کی توفیق عطا کرے۔
محمد عظیم صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچھی کتاب اس معاشرے پر احسان ہے۔ آج کے دور میں کتابوں کو چھاپنا مشکل کام ہے، اس لیے مصنف، پبلشر اور جس نے بھی اس کتاب کی تیاری میں حصہ لیا وہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس کتاب میں فکر ہے، بصیرت ہے، جوش ہے، توانائی ہے، امنگ ہے۔ اگر کوئی اپنا کام نکھارنا چاہتا ہے تو اُس کو بھی اس سے مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب صرف نوجوانوں ہی کے لیے نہیں گھریلو خواتین کے لیے بھی ہے۔ اس کتاب کے چھوٹے چھوٹے مضامین کئی کئی گھنٹوں کی ورکشاپ سے بہتر ہیں۔
انجم رفعت اللہ خان نے پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن لاہور کے سیکریٹری فہیم احمد کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ ارشد بیگ نے حساس اور درد مند دل پایا ہے جو آس پاس کی خرابیوں پر صرف کڑھتے نہیں بلکہ اس پر لکھنے کو اپنا قلم بے نیام رکھتے ہیں، اور فریضہ اسلام میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔