عرض کیا: مسلمان فاتح کی حیثیت سے آئے تھے، مگر اصل میں وہ دلوں کو فتح کرنے والے تھے۔ اجمیر میں بیٹھ کر سلطان الہند نے قوالی کے ذریعے ہی ہزاروں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ انہیں کوئی خطرہ نہ تھا کہ مقامی کلچر میں موسیقی ایک غالب عنصر ہے۔ ان کے بعد انہی کے سلسلے کے عظیم المرتبت عارفِ وقت حضرت نظام الدین اولیا نے اپنے چہیتے مرید حضرت امیر خسرو کو یہ نصیحت کی کہ دیکھو، ہندیوں کا مزاج بت پرستانہ ہے، اس لیے عارفانہ کلام کہنے کے بجائے عاشقانہ اشعار کہو۔ حضرت نظام الدین سے نہ صرف ہند میں خانقاہی نظام وجود میں آیا بلکہ جب وہ اپنے مرشد فرید الدین گنج شکر کے پاس گئے تھے تو اُس وقت وہ مولوی نظام الدین تھے۔ ایک مستند عالمِ دین۔ اس لیے یہ نہ سمجھیے کہ صوفیوں کی یہ کوئی ذہنی اپج تھی۔ یہ لوگ جینئس تھے۔ انہوں نے بادشاہوں کے متبادل تربیت کا ایسا نظام قائم کیا تھا جس نے ہندوستان کی شکل بدل کر رکھ دی۔ صرف امیر خسرو کو جو نصیحت کی گئی اُس سے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں غزل کی وہ روایت محکم ہوئی جو ہم تک پہنچی۔ سچی بات ہے ہند میں اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ ہمارے شاہ ولی اللہ نے بڑی شان سے فرمایا تھا کہ اسلام جس سرزمین پر جاتا ہے وہاں کے مقامی اداروں کے ذریعے نفوذ کرتا ہے۔ میں اس بحث کو بہت حد تک لے جا سکتا ہوں، مگر فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں مجھے ایک نازک موڑ کا ذکر کرنا ہے۔ وہ یہ کہ جب رام اور رحیم کو ایک کہنے والے پیدا ہوگئے تو مشیتِ ایزدی نے مجدد الف ثانی کا نزول کیا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب ہماری مابعد الطبیعات میں فتور پیدا ہوگیا اور رام اور رحیم کو ایک کہنے والے پیدا ہوئے تو اس کی اصلاح کے لیے یہ مردِ جلیل آیا۔ اس نے کہا رک جائو، ایسا نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی نے وحدت الوجود کی وہ تعبیر نہ کی جو اس سے پہلے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کررہی تھی۔ پھر کوئی عبدالرحمٰن لکھنوی بھی پیدا نہ ہوا جس نے یہ ثابت کیا تھا کہ وحدت الوجود کلمہ طیبہ سے ثابت ہے۔ بیسویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت حضرت مہر علی شاہ نے اس پر کیا خوبصورت کلام فرمایا ہے۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ اس کی تفصیل کا بھی یہ محل نہیں ہے۔ تاہم نظری طور پر ہماری اصلاح ہوگئی اور عملی طور پر طے ہوگیا کہ اسلامیانِ ہند بلکہ اسلامیانِ عالم سن لو، مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ یہ نظریہ شاہ ولی اللہ، سرسید اور اقبال سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا، اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ اس سوال کا آخری جواب تھا جو وقت کے تناظر میں کروٹیں لیتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ قائداعظم کی مختصر زندگی میں اس سوال نے یونہی کروٹیں لی ہیں اور آخر میں اعلان کردیا ہے کہ ہم الگ الگ قومیں ہیں اور پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ہمیشہ کے لیے ہی ہندوستان کے دشمن ہوجائیں۔ سب جانتے ہیں قائداعظم کا بھی یہ مقصد نہ تھا۔ وہ اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہتے تھے۔ تاہم اس وقت کابینہ کے سامنے جو جواب تھا اس تاریخی پس منظر میں اس کا بھی وہی جواب آنا چاہیے جو تاریخ کے مختلف مرحلوں میں حالات کے عین مطابق آتا رہا ہے۔ اس بات سے ہٹ کر کہ مودی کو ہم ہٹلر کہتے ہیں یا یہ کہ کشمیر کو ہندوستان نے غصب کرلیا ہے اور ہم نے پوری دنیا کو بتایا کہ ہمارے اصولوں کی روشنی میں یہ ممکن نہیں۔ ہم نے سفارت کاری کا درجہ کم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند کردی۔ اب ہم یہ تجارت کھولنا چاہتے ہیں۔ ہم لمبے عرصے سے لائن آف کنٹرول پر لڑتے آئے ہیں۔ ہم نے پلک جھپکتے ہی ایک فون کال پر جنگ بندی کردی۔ بہت اچھا کیا۔ ہم نے بتایا کہ ترکی میں ہندوستان نے ہمیں برا بھلا نہیں کہا بلکہ یہ کہ اس کے مندوب نے کشمیر کا نام نہیں لیا۔ ہم تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ پھر اچانک ہم پر انکشاف ہوا کہ ہمارے ہاں چینی، کپاس کی کمی ہے، بھارت سے سستی مل سکتی ہے۔ چلو یہ کام کر ڈالو۔ بس اتنا تو بتادو کہ یہ اچانک کون سی تبدیلی آئی کہ ہم نے یہ فیصلہ صادر کردیا؟ اب کی بار ہم نے کسی دمشق سے نہیں پوچھا بلکہ شاید امریکہ سے پوچھ ڈالا ہو۔ جو بھی وجہ ہو، بتا ڈالیے۔ میں پاک بھارت تعلقات کا مخالف نہیں۔ دیکھیے اتنی لمبی چوڑی تاریخ گنوا ڈالی ہے۔ مگر اتنا تو بتا دیجیے کہ موجودہ تناظر میں اس فیصلے کی شانِ نزول کیا تھی؟ کیا ہم نے کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے بعد جو فیصلہ کیا تھا اسے ختم کرنے کا وقت آگیا تھا؟ آگیا ہے تو کیسے آیا ہے؟ کیا رام اور رحیم پھر ایک ہوگئے ہیں؟ بتا دیجیے، ہم بھی ایمان لے آتے ہیں۔ مگر کھل کر بتا دیجیے! کھل کر بتا دیجیے، ورنہ یہ کپڑا ہمارے تن کا لباس نہیں، ہم پر عذاب ہوگا، اور چینی مٹھاس نہیں کڑوا زہر ہوگا۔
(سجاد میر، روزنامہ 92۔۔۔ 3اپریل2021ء)