’’گو آئی ایم ایف گو‘‘ تحریک وقت کی آواز

یہ حقیقت پوری پاکستانی قوم کے سامنے واضح ہوچکی ہے کہ ہمارے اقتصادی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافے کا سبب عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے اور ان کی عاید کردہ سخت شرائط ہیں۔ اب مسئلہ اقتصادی بحران سے بڑھ کر قومی سلامتی تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ کن مناصب خصوصیت کے ساتھ وزارت ِ خزانہ اور اس سے متعلقہ تمام اداروں پر عالمی مالیاتی اداروں کے بااعتماد وفادار نمائندے مسلط کردیے گئے ہیں، جس نے قومی آزادی سلب کرلی ہے۔ اس تناظر میں وقت کی آواز بنتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ’’گو آئی ایم ایف گو‘‘ تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، اور مقصد کے حصول کے لیے وسیع تر قومی مجلسِ مشاورت منعقد کی جائے گی۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہوکر متفقہ لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ درآمد شدہ پاکستانی نژاد وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی تبدیلی تو غیر متوقع نہیں تھی، کیوں کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے نامزد نمائندہ ہونے کے باوجود سینیٹ کے انتخابات میں شکست کھا گئے تھے۔ اس شکست کے بعد اس منصب پر اُن کا رہنا ممکن نہیں رہا تھا، لیکن حکومت نے اُن کی تبدیلی کو برطرفی کے تاثر میں تبدیل کیا اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی پر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ہٹایا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی معزولی سے قبل ماہرینِ معیشت کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے بارے میں متنازع قانون سازی زیر بحث آچکی تھی، اس پس منظر میں اگر ڈاکٹر حفیظ شیخ کی تبدیلی آئی ایم ایف کے نمائندے کی معزولی ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی برطرف کیا جائے اور قومی اداروں کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے اور تابع کرنے کے لیے جو قانون سازی ہورہی ہے اسے بھی ختم کیا جائے۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے حکومت کی اس ہزیمت پر طعن و تشنیع تو کی ہے لیکن قومی سیاسی مباحثے میں آئی ایم ایف کی استعماری، سرمایہ دارانہ اور عوام دشمن پالیسی کے خلاف بیانیہ نہیں دیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا قومی مسئلہ امریکہ کے ایما پر آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کی جانب سے دی جانے والی ڈکٹیشن کی مزاحمت ہے۔ اس مسئلے کو سراج الحق صاحب نے بروقت اٹھایا ہے اور آئی ایم ایف کے خلاف سیاسی تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا ہے، اب عملی طور پر اسٹیٹ بینک کا گورنر یہاں عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی طرف سے مالی وائسرائے ہوگا، تمام مالی ادارے اس وائسرائے کے تابع ہوں گے، اسٹیٹ بینک کا گورنر ہماری پارلیمان و عدالت کو جوابدہ نہیں ہوگا، اس پر ہمارے ملکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور آڈیٹر جنرل پاکستان بھی اس کا آڈٹ نہیں کرسکے گا، ہمارے ریاستی نظام کے قوانین سے بھی گورنر اسٹیٹ بینک کو استثنا حاصل ہوگا، ایسے قانون کو ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلاف قومی سطح پر تحریک برپا کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر نے اس سے پہلے مصر کے نظام کو آئی ایم ایف کا غلام بنا کر چھوڑا ہے، اب وہاں سے اسے ہمارے ملک کے اوپر مسلط کیا گیا ہے، یہ ہماری گردن مروڑے گا اور خون نچوڑے گا۔ حکومتی آرڈی نینس کے نفاذ کے بعد ہماری تمام معاشی پالیسیاں اب آئی ایم ایف خود طے کرے گا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی ہیں یا نہیں، حتیٰ کہ مسلح افواج کی تنخواہوں اور دفاعی انتظامات کے لیے رقوم دینے کا فیصلہ بھی اسٹیٹ بینک ہی کرے گا۔ صرف نام اسٹیٹ بینک کا ہوگا، فیصلے آئی ایم ایف کرے گا۔ یہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کا دبائو میں آکر اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنا ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے مترادف ہے، ہماری اقتصادی شہ رگ آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دے دی گئی ہے جو جوہری پاکستان کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے، معاشی خودمختاری کے بغیر سیاسی خودمختاری بھی قائم نہیں رکھی جاسکتی۔ سراج الحق نے کہا کہ معاشی ماہرین کے شکرگزار ہیں کہ جنہوں نے قوم کو حالات سے آگاہ کیا ہے۔ ہم قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی، خودمختاری، قومی سلامتی، معاشی، دفاعی شہ رگ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایجنٹوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ امیر جماعت اسلامی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہنگائی پر قابو نہ پانے پر عبدالحفیظ شیخ کو فارغ کیا گیا ہے، جب کہ یہ جرم صرف وزیر خزانہ کا نہیں، پورا ٹبر اور کابینہ بھی اس میں شامل ہے۔ مہنگائی نے پاکستانیوں کے چہروں سے خوشیاں غائب کردی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسنے کے تازہ مراحل کا آغاز این آر او کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کے دور میں ہوا تھا، جس کی سربراہی زرداری اور گیلانی کے ہاتھ میں تھی اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اس حکومت کی مالیاتی ٹیم کے رکن تھے۔ بعد میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف کے سخت شرائط کے حامل قرضہ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس بات کی گواہی مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے بھی دی ہے کہ آئی ایم ایف ایسی شرائط عاید کرتا رہا ہے جس کے بعد اسٹیٹ بینک پر حکومت کا کنٹرول ختم ہوجائے۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنی پیش رو حکومتوں کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے جس نے تباہی کی رفتار تیز کردی ہے۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ اس نے نااہلی کا مظاہرہ بھی کیا ہے اور اپنے اقتدار کی نصف مدت تجربات میں ضائع کردی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی برطرفی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اصل راستہ یہ ہے کہ امریکہ کی استعماری ملک دشمن پالیسیوں کی مزاحمت کریں، جس کا سب سے اہم مورچہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط ہیں۔ اکثر مالیاتی ماہرین آئی ایم ایف کے حکم پر اسٹیٹ بینک اور دیگر ریگولیٹری اداروں کے بارے میں نئی قانون سازی کو قومی آزادی اور سلامتی کے لیے خطرہ بتا رہے ہیں، پاکستان کا جوہری پروگرام اصل ہدف ہے۔ ان احکامات کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کو افغانستان میں شکست ہوئی ہے اور امریکہ نے اس بات کو چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ اس شکست کا اصل ذمے دار پاکستان کو سمجھتا ہے۔ اس لیے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو سلب کرنا اصل مقصد ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور خودمختاری کے دفاع کے لیے بیدار اور متحرک کیا جائے۔ قوم بیدار اور متحرک نہ ہوئی تو استعماری شکنجہ سخت ہوتا چلا جائے گا۔