زیادتی کا بدلہ

چند دوستوں نے مل کر ہندوستان کے جنگلات کی سیر و سیاحت کا پروگرام بنایا۔ انہیں ایک دانا آدمی نے نصیحت کی کہ سفر میں بھوک اور پیاس کی تکلیف پیش آتی ہے۔ پُرخطر اور جنگل و بیاباں کے علاقے میں اگر کوئی چیز کھانے کو نہ ملے تو بھوک کی شدت میں گھاس اور درختوں کے پھل اور پتوں پر گزارہ کرلینا۔ جنگل میں ہاتھیوں کے نوزائیدہ بچے نہایت خوش شکل اور موٹے تازے ہوتے ہیں، اگر کوئی انہیں قتل کردے تو پھر ہاتھی ان لوگوں کو مار ڈالتے ہیں، خبردار بھوک کی شدت میں ہاتھی کے کسی بچے کو لقمہ نہ بنانا، اگر تم نے ہاتھی کے بچے کو بھون کھایا تو اس کی ماں ہتھنی آہ و زاری سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور پھر وہ تمہیں زندہ نہ چھوڑے گی۔ گھاس اور پتے کھا کر گزارہ کرلینا مگر ہاتھی کے بچے کو نہ مارنا۔ دانا آدمی نے کہا: میں نے اپنا فرض ادا کردیا، اگر تم نے طمع سے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو پھر تمہاری خیر نہیں۔
سارے دوست سیر و تفریح کرتے ہوئے ایک جنگل میں پہنچے۔ خورونوش کا جو سامان موجود تھا اس سے انہوں نے گزارہ کیا، دوسرے دن خوراک کی نایابی اور بھوک سے نڈھال ہوئے تو ان کی ہاتھی کے ایک موٹے تازے بچے پر نظر پڑی، اُس کی ماں اُس کے پاس موجود نہ تھی۔ مست بھیڑیے کی طرح وہ نوجوان مسافر اس بچے پر ٹوٹ پڑے اور نہ آئو دیکھا نہ تائو، جھٹ پٹ اسے پکڑ کر ذبح کر ڈالا۔ ہاتھی کے بچے کا گوشت انہوں نے بھون کر اور خوب جی بھر کر کھایا۔ ان میں ایک نوجوان نے اس دانا آدمی کی نصیحت پر عمل کرتے ہؤئے گوشت نہ کھایا۔ تھوڑی دیر بعد گوشت کے خمار سے تمام مست ہوکر سو گئے۔
جو اس ڈنر پارٹی میں شریک نہیں ہوا تھا، وہ ابھی جاگ رہا تھا۔ نہ جانے کہاں سے اس بچے کی ماں ہتھنی چیختی چلاّتی ادھر آنکلی، اس نے ذبیحہ کا خون دیکھا تو شدتِ غیظ و غضب سے پاگل ہوگئی۔ پہلے وہ اس نوجوان کے قریب آئی جو ابھی جاگ رہا تھا۔ اُس سے اس بچے کی بو نہ آئی۔ پھر ہتھنی نے ان سوئے ہوئے نوجوانوں کے گرد تین مرتبہ چکر لگایا۔ ان میں ہر ایک سے اسے بچے کے گوشت کی بو آئی۔ اس کے انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے غصے سے بعض کے اوپر پائوں رکھ کر ان کو کچل ڈالا، اور بعض کو اپنی سونڈ میں لے کر ان کے دو ٹکڑے کردیئے۔
اے خلق کا ناحق خون کرنے والے! اپنی اس حرکت سے باز آجا۔ ’’ظلم کا مکر ظالم کے منہ کی بو سے ظاہر ہوجاتا ہے‘‘۔
درسِ حیات: امت کے اعمال رسولؐ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں، لہٰذا آپؐ کو ہمارے نیک و بداعمال کی خبر ہوتی ہے۔ نیز کبر اور حرص کی بُو، بُوئے پیاز کی طرح چھپائے چھپ نہیں سکتی۔
ہوئے کبر و بوئے حرص و بوئے آز
در سخن گفتن پیاید چوں پیاز
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایاتِ رومیؒ“)