ہم جانتے ہیں کہ وقت سے قبل (سات یا آٹھ ماہ) میں آنکھ کھولنے والے بچے بہت سے طبی مسائل میں گرفتار ہوسکتے ہیں۔ ان کا دماغ تشکیل پارہا ہوتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ اسے مناسب آکسیجن فراہم کی جائے۔ اب ایک تھرتھراتا ہوا بستر ان کا علاج کرسکتا ہے اور ان کی جان بھی بچا سکتا ہے۔ خواہ بڑے ہوں یا بہت چھوٹے بچے، جسمانی دباؤ میں کم گہرے سانس لیتے ہیں۔ اس طرح پھیپھڑوں میں ہوا کم جاتی ہے اور خون میں آکسیجن کی سطح تیزی سے گرتی ہے۔ پھر دماغ تک آکسیجن نہیں پہنچ پاتی۔ اگر قبل ازوقت پیدا ہونے والے کسی بچے کو اس کا سامنا رہے تو اس کے دماغ کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا حل ’کامر بے بی بیڈ‘ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے، جو برٹش کولمبیا یونیورسٹی کینیڈا کے سائنس دانوں نے ایجاد کیا ہے۔ جیسے ہی اس پر مدتِ حمل سے کم وقت میں پیدا ہونے والے بچے کو لٹایا جاتا ہے یہ آلہ اوپر اور نیچے ہوتا ہے۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ گویا بچہ والدین کے ہاتھوں میں ہے، اور یوں دل کی دھڑکن اور سانس لینے کا عمل بہتر انداز میں ہم آہنگ رہتا ہے۔
اگرچہ والدین کو یہ عمل خود کرنا چاہیے، لیکن نہ ہی یہ والدین کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت بچے کو ہلاتے جلاتے رہیں اور نہ ہی مصروف ہسپتالوں کی نگہداشتی نرسریوں کا عملہ اسے خود انجام دے سکتا ہے۔ پھر وبا کے دوران دنیا بھر میں ہسپتال کے عملے کی شدید قلت رہتی ہے۔ بستر کی ایجاد کے بعد اسے کئی ہسپتالوں میں آزمایا گیا ہے۔ ایک تجربے میں 16 نومولود بچے والدین یا نرس کے حوالے کیے گئے، اور دیگر 12 بچوں کو کامر بستر پر لٹایا گیا۔ وقفے وقفے سے دونوں گروہوں کے بچوں میں خون کے ٹیسٹ کے ذریعے دماغ میں آکسیجن کی مقدار ناپی گئی تو حیرت انگیز طور پر وہ یکساں نکلی۔ اس طرح بستر والی ٹیکنالوجی کی افادیت واضح طور پر سامنے آئی۔ ایک اور ہسپتال سے بھی بے بی کامر بیڈ کے بہت اچھے نتائج موصول ہوئے ہیں۔ اگلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر اس کی آزمائش کی جائے گی اور سیکڑوں ہزاروں بچوں کو آزمایا جائے گا۔ اس طرح ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بچوں کی بڑی تعداد کو بچانے اور توانا رکھنے میں بہت مدد ملے گی۔