آئی بی ایم میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے ’’پروجیکٹ ڈیبیٹر‘‘ کے نام سے ایسا خودکار نظام تیار کرلیا ہے جو انسان سے تقریری مقابلہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ اب تک کے تجربات میں یہ تقریری مقابلوں میں کسی ماہر انسانی مقرر کو شکست تو نہیں دے سکا ہے لیکن اسے بنانے والوں کو امید ہے کہ کچھ عرصے کی مسلسل تربیت کے بعد ایسا بھی ممکن ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اس نظام پر گزشتہ کئی سال سے کام جاری ہے، جبکہ اس کا پہلا عوامی مظاہرہ 2019ء میں کیا گیا تھا۔ اس نظام کی مزید تربیت کرکے بہتر بنانے کے لیے ماہرین نے ’’آرگیومنٹ مائننگ‘‘سےاستفادہ کیا،جو ’’نیچرل لینگویج پروسیسنگ‘‘ میں تحقیق کا ایک ذیلی شعبہ ہے۔ آرگیومنٹ مائننگ میں مصنوعی ذہانت (AI) والا کوئی نظام اِدھر اُدھر منتشر معلومات کو یکجا کرتا ہے اور ان کے درمیان ’’منطقی تعلق‘‘ کا پتا لگاتا ہے۔ تحقیقی مجلّے ’’نیچر‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع شدہ مقالے کے مطابق، پروجیکٹ ڈیبیٹر کو 40 کروڑ خبروں کے ذریعے تربیت دے کر اس قابل بنایا گیا ہے کہ یہ 100 مختلف موضوعات پر انسان سے بحث یا تقریری مقابلہ کرسکتا ہے۔
اگرچہ ’’پروجیکٹ ڈیبیٹر‘‘ اب تک اس قابل تو نہیں ہوا ہے کہ کسی ماہر انسانی مقرر کا مقابلہ کرسکے، لیکن اس کا مشاہدہ کرنے والے بیشتر افراد نے مختلف بحثوں کے دوران پروجیکٹ ڈیبیٹر کو اچھے نمبر دیتے ہوئے اس کی کارکردگی کو خاصا مناسب قرار دیا ہے۔ اس خودکار نظام کو تخلیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروجیکٹ ڈیبیٹر کی کارکردگی اور بھی بہتر ہوگی۔
انہیں امید ہے کہ یہ نظام آئندہ چند سال بعد تقریری مقابلوں میں بھی انسان کو شکست دینے کے قابل ہوجائے گا۔ بتاتے چلیں کہ کمپیوٹر سائنس میں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا شعبہ ویسے تو لگ بھگ پچھلے 70 سال سے وجود رکھتا ہے لیکن حالیہ 30 برسوں کے دوران اس کی ترقی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ آج زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت نہ صرف انسانوں کی مدد کررہی ہے بلکہ کئی طرح کے مقابلوں میں اپنے مدمقابل انسانوں کو شکست بھی دے چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت اپنے بڑھتے ہوئے معاشی و معاشرتی اثرات کی وجہ سے آج اخلاقیات اور سماجیات کا ایک اہم موضوعِ بحث بھی بن چکی ہے۔