پاک بھارت تعلقات میں دوستی ’’مصنوعی‘‘ دشمنی ’’حقیقی‘‘

پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کی فضا میں امریکہ نے ایک بار پھر ’’امن‘‘ اور ’’مذاکرات‘‘ کا پرچم بلند کردیا ہے۔ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بروئے کار لائے جارہے ہیں تا کہ ہندوستان اور پاکستان یہ محسوس نہ کریں کہ امریکہ ’’حکم‘‘ دے رہا ہے۔ وہ متحدہ عرب امارات کی سفارت کاری سے محسوس کریں کہ جو کچھ ہورہا ہے ’’دوستانہ‘‘ طور پر ہورہا ہے۔
روزنامہ جنگ کراچی کی ایک اطلاع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو ’’معمول‘‘ پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی درپردہ کوششیں جاری ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کنٹرول لائن پر جنگ بندی بھی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ خبر کے مطابق دونوں ملک شنگھائی تعاون کی تنظیم کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں بھی حصہ لیں گے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بھی دونوں ملکوں کی محاذ آرائی ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امن کے وسیع روڈمیپ کا آغاز ہوگیا ہے۔ کشمیر کا حتمی فیصلہ، تجارت کی بحالی، سفیروں کا تقرر ایجنڈے میں شامل ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے بعد متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید نے دہلی میں بھارت کے وزیرخارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ ملاقات کی۔ اِدھر پاکستان میں مودی کو ہٹلر اور بی جے پی کو نازی پارٹی قرار دینے والے عمران خان بھی بھارت کے حوالے سے نرم پڑ گئے ہیں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے سلسلے میں بھارت کو پہل کرنی چاہیے۔ عمران خان کے بیان سے زیادہ اہم بیان جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہیے۔ ہم جارح پڑوسی کی موجودگی کے باوجود ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں۔ تاہم انہوں نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ پاکستان اور بھارت ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کی ذمہ داری بھارت پر زیادہ عاید ہوتی ہے، ہمارے پڑوسی کو مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے اگلے روز دنیا کے سب سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی نے کہا تھا کہ جنگ بندی لائن پر تو توپیں خاموش ہوجائیں گی لیکن کیا کشمیر میں جاری خوں ریزی بند ہوپائے گی؟ جنرل باجوہ کے بیان کے حوالے سے بھی سید علی گیلانی نے بجا طور پر یہ کہا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر بہتر تعلقات استوار کرنا اچھی سوچ ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تلخی پیدا کرنے کی وجہ باقی نہ رہے۔ ایک طرف کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پستے رہیں اور دوسری طرف ہم خطے میں امن کی بھی توقع رکھی، یہ کیسے ممکن ہے؟
پاک بھارت تعلقات پر ہندو مسلم کشمکش کا سایہ ہے، اور پاک بھارت تعلقات کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ پاک بھارت تعلقات میں دوستی ’’مصنوعی‘‘ ہے اور دشمنی ’’حقیقی‘‘ ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں امن ’’مصنوعی‘‘ ہے اور جنگ ’’حقیقی‘‘ ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں ’’امید‘‘ مصنوعی ہے اور ’’اندیشہ‘‘ حقیقی ہے۔ یہ باتیں ہمارا تجزیہ نہیں ہیں، یہ ’’تاریخی حقائق‘‘ ہیں۔ ان حقائق کو نظرانداز کرکے پاک بھارت تعلقات کے حال اور مستقبل کے بارے میں کوئی بنیادی بات نہیں کہی جاسکتی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ’’بھارت فہمی‘‘ موجود ہی نہیں۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی ہندو انتہا پسندوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اور ہندو انتہا پسند آر ایس ایس، بی جے پی اور اس جیسی تنظیموں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط تجزیہ ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں برصغیر کی تین بڑی شخصیات کی قلبِِ ماہیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ سرسید ایک وسیع المشرب انسان تھے اور وہ ایک زمانے میں ’’ایک قومی نظریے‘‘ کے قائل تھے۔ ان کا مشہورِ زمانہ فقرہ تھا کہ ’’ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں‘‘۔ سرسید سیاست دان نہیں تھے کہ کسی کو خوش کرنے کے لیے بیان دیتے۔ اُن کا نظریہ ہی یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم اور ایک وحدت کا حصہ ہیں۔ مگر سرسید زیادہ دنوں تک اپنی اس رائے پر قائم نہ رہ سکے۔ انہوں نے دیکھا کہ ہندو اردو اور فارسی کو مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہوئے پیچھے دھکیل رہے ہیں اور ہندی کو ہندوئوں کی زبان سمجھتے ہوئے اسے فروغ دے رہے ہیں تو سرسید بنیادوں سے ہل کر رہ گئے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں سے صاف کہا کہ وہ کانگریس میں نہ جائیں، انہیں اگر اپنے مفادات کا تحفظ عزیز ہے تو وہ اپنا الگ پلیٹ فارم بنائیں اور اس پلیٹ فارم سے اپنے مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کریں۔ اس بنیاد پر بعض لوگ غلط ہی سہی، سرسید کو دو قومی نظریے کا بانی قرار دیتے ہیں۔ اقبال سرسید سے بھی زیادہ وسیع المشرب تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں شری کرشن کی تعریف کی ہے، گوتم بدھ کو سراہا ہے، اور ہندوئوں کے دیوتا شری رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ اقبال نے بانگ درا میں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کا نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے ہمالیہ پر ایک بڑی نظم تحریر کی اور ایک قوم پرست ہندو کی زبان میں خاکِ وطن کے ہر ذرے کو ’’دیوتا‘‘ قرار دیا۔ لیکن اقبال کے خیالات بھی دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئے۔ انہوں نے فرمایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
…٭…٭…
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
…٭…٭…
بازو مرا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
یہ اقبال کی مکمل قلبِ ماہیت کی مختلف جھلکیاں ہیں، اور ان کی نظریاتی و تاریخی اہمیت غیر معمولی ہے۔ جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو وہ عملاً کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا کرتی تھیں، اور یہ بات غلط نہیں تھی۔ لیکن قائداعظم نے فرمایا کہ گول میز کانفرنس میں کانگریس کے رہنمائوں کے خیالات نے ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیا کہ ہندوستان میں ہندوئوں کے ساتھ مل کر نہیں رہا جا سکتا۔ چنانچہ قائداعظم دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی نظریہ ترک کرکے دو قومی نظریے کے سب سے بڑے وکیل بن گئے۔ پاکستان کا کوئی سیاسی رہنما یا جرنیل نہ سرسید، اقبال اور قائداعظم کی اجتماعی بصیرت سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے، نہ وہ ان تینوں شخصیات سے زیادہ وسیع المشرب اور وسیع القلب ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ قائداعظم نے پاکستان لعل کرشن ایڈوانی اور مودی کے زمانے میں نہیں، بلکہ گاندھی اور نہرو کے زمانے میں بنایا۔ گاندھی اور نہرو اسلام اور مسلمانوں کے لیے نرم ہوتے تو قائداعظم کبھی قیامِ پاکستان کی جدوجہد نہ کرتے۔
قائداعظم طویل عرصے تک متحدہ ہندوستان کے دائرے میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے، مگر گاندھی اور نہرو ہر قدم پر انہیں بتاتے رہے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی سربلندی کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان کو اپنا مقصد بنا لیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو ذہن نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اور اس نے پاکستان کو کمزور کرنے اور توڑنے کی کوشش جاری رکھی۔ ہمارے حکمرانوں کی حماقتوں اور ضلالتوں کی وجہ سے 1971ء میں ہندوستان کو پاکستان توڑنے کا موقع مل گیا اور اُس نے یہ موقع ضائع نہ کیا۔ بھارت نے پاکستان توڑ دیا، یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یہ بھارت کی بہت بڑی کامیابی تھی، مگر بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی اس کامیابی پر مطمئن نہ ہوئیں۔ انہوں نے پاکستان کی بنیاد پر حملہ ضروری سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اصل میں ہندو ذہن کبھی یہ بات نہیں بھول سکتا کہ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے اور انہوں نے بالآخر اپنے دین کی بنیاد پر بھارت کو دولخت کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اندرا گاندھی کے زیر بحث بیان کو دیکھا جائے تو اندرا گاندھی بھی انتہا پسند ہندو اور آر ایس ایس یا بی جے پی کی رکن نظر آتی ہیں۔ اسی لیے ہم تواتر کے ساتھ اپنے کالموں میں عرض کررہے ہیں کہ اسلام، بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان کی دشمنی کے سلسلے میں بھارت کی تمام جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ اصل ’’بی جے پی‘‘ بی جے پی نمبر ایک ہے، کانگریس بی جے پی نمبر دو ہے، اور باقی ہندو جماعتیں بے جے پی نمبر تین ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو بھارت اندراگاندھی کے عہد میں پاکستان نہ توڑتا، اور کانگریس کے رہنما نرسمہا رائو کے عہدِ حکومت میں بابری مسجد شہید نہ ہوتی۔ بھارت قیامِ پاکستان کے بعد اگر بھارت کی مسلم اقلیت سے بہتر سلوک کرتا تو قیامِ پاکستان کا مقدمہ کمزور پڑ جاتا۔ مگر بھارت نے قیامِ پاکستان کے مقدمے کو کمزور نہ پڑنے دیا۔ اس نے 73 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرا دیے۔ معاشی اعتبار سے بھارت کے مسلمانوں کو ’’شودر‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس نے مسلمانوں کی تعلیم کو تباہ کردیا۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا، لیکن اس نے بنگلہ دیش کو بھی اپنی کالونی بنا لیا۔ یہ تمام حقائق بتا رہے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں دوستی ’’مصنوعی‘‘ ہے، دشمنی ’’حقیقی‘‘ ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں امن ’’مصنوعی‘‘ ہے، جنگ ’’حقیقی‘‘ ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے پاک بھارت مذاکرات کراتا رہا ہے، مگر ان مذاکرات کا کبھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر تیار ہے۔ ایسا ہے تو دوستی، امن اور امید کو ایک موقع دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا نہیں تو پیارے پھر سب کہانیاں ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جنرل باجوہ ایک جانب تو یہ کہتے ہیں کہ قومی سلامتی پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ دوسری جانب وہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے امریکی عزائم کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ برصغیر میں ہندو مسلم کشمکش کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ کشمکش اُس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک ایک قوم دوسری قوم پر غالب نہ آجائے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے غلام رہے ہیں، مگر مسلمان ایک ہزار سال میں دس سال بھی ہندوئوں کے غلام نہیں رہے۔