اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ،پاکستان کی غلامی

امریکہ نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے، پاکستان کو اپنا مکمل غلام بنانے، اور ایٹمی اثاثوں پر قبضہ جمانے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے پاکستان پر معاشی حملہ کردیا ہے، اور اسٹیٹ بینک کو نئے آرڈیننس کے تحت وائسرائے بنادیا گیا ہے، اور یہ سب کچھ مقامی امریکی ایجنٹوں کے ذریعے منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے۔ اب عمران خان کی حکومت کے اردگرد وہی پرانے آئی ایم ایف کے مسلط کردہ ماہرینِ معیشت موجود ہیں جو سابق حکمرانوں کو گھیرے ہوئے تھے۔ قوم پی ڈی ایم، بجلی، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے، مہنگائی اور بے روزگاری کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ حکومت نے بچی کھچی معیشت اور اس کی باگ ڈور اب باقاعدہ عالمی اداروں کے پاس گروی رکھ دی ہے اور آئی ایم ایف کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خودمختاری دینے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کے تحت اسٹیٹ بینک زیادہ خودمختار ادارہ بن جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق اگرچہ 1990ء کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت اسٹیٹ بینک کو خودمختاری حاصل ہے، تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خودمختار بنادیں گی اور ماہرینِ معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالیسیوں کے لیے جوابدہ نہیں ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کی زیادہ خودمختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے، یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہوگا، یعنی ایکسچینج ریٹ کا استحکام۔ جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔ ان ترامیم کے تحت اسٹیٹ بینک حکومت کو ادھار نہیں دے گا، لیکن اگر اسٹیٹ بینک میں سرمایہ اور ذخائر منفی سطح پر گر جاتے ہیں تو وفاقی حکومت کو اسے ضروری رقم فراہم کرنا پڑے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت نیب، ایف آئی اے اور دوسرے وفاقی و صوبائی اداروں کو بینک کے ملازمین، ڈائریکٹرز، ڈپٹی گورنروں اور گورنر کو ان کے فرائض کی ادائیگی پر کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے قانون کے تحت ملک کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کے لیے ایک کوآرڈی نیشن بورڈ ہوتا ہے، تاہم ترامیم کے تحت اب گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ مجوزہ ترامیم کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ اب اسٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی ترقی کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے جو معیشت کے ماہرین کے نزدیک ایک خطرناک منظرنامے کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومتی اور مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد کے نزدیک معاشی ترقی میں اسٹیٹ بینک کا کردار ایک مددگار کا تو ہوسکتا ہے تاہم اسے مکمل طور پر اس کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس وقت مملکتِ خداداد پاکستان میں سب سے بڑا، پریشان کن اور تشویش ناک ایشو اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے نام پر ترمیمی بل ہے، جسے کابینہ نے منظور کیا ہے۔ یہ حکومت کا خطرناک قدم ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ اسے آئی ایم ایف کے بورڈ کو تو بھیج دیا گیا ہے لیکن خود حکومتی ارکانِ پارلیمنٹ کو اس کا کچھ نہیں پتا ہے۔ یہ بل صرف معیشت کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اصل میں اس سے ملک کی سلامتی کے لیے خطرات دوچند ہوجائیں گے۔ ماہرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس ترمیم میں چند ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جو دنیا کے کسی ملک کے مرکزی بینک پر عائد نہیں کی گئیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ استعماری طاقتیں نئے عالمی کھیل کے تحت جوہری طاقت پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہیں، اور اس کام کے لیے وہ آئی ایم ایف اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کو تو استعمال کر ہی رہی تھیں، اب ان کو عمران خان کی کمزور حکومت، اسٹیٹ بینک اور منسٹری آف فائنانس کے اُن اہلکاروں کی معاونت بھی مل گئی جو آئی ایم ایف کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں اور اصل میں اُسی کے نمائندے ہیں۔ گزشتہ روز سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے سابق ملازم تھے، جب کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر تو ڈپٹی گورنر آئی ایم ایف کی نوکری چھوڑ کر یہاں آئے ہیں، اور اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد واپس اپنی نوکری پر چلے جائیں گے۔ اس آرڈیننس سے یہ بات واضح ہے کہ استعماری طاقتیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور واپس لانا چاہتی ہیں، اور نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف معیشت کا نہیں ہے، آئی ایم ایف تو بہت پہلے سے پاکستان کی معیشت کو کنٹرول کررہا ہے، ہمارا اسٹیٹ بینک اتنا خودمختار ہے جتنا دنیا کے بیشتر ممالک میں مرکزی بینک ہے۔ عشرت حسین جو 20 سال پہلے اسٹیٹ بینک کے گورنر تھے اور آج کابینہ میں ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے اتنا خودمختار ہوں جتنا مغربی ممالک کے بینک ہیں“۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ یہ جو ترمیمیں آرہی ہیں ان کا تعلق صرف معیشت سے ہے، اس میں کچھ ایسی ترامیم ہیں جو دنیا کے کسی ملک میں آئی ایم ایف نے نہیں کروائی ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جس کو ایف اے ٹی ایف نے ایسی شرائط دیں جو پاکستان نے مان لیں تاکہ کشمیر کا مسئلہ ختم ہوجائے۔ ان ترامیم کو دیکھا جائے تو بعض ترامیم تو خودمختاری کے زمرے میں آتی ہی نہیں ہیں، مثلاً اسٹیٹ بینک کے گورنر کی ملازمت کی مدت تین سال کے بجائے پانچ سال ہوگی اور اس میں توسیع کی گنجائش ہوگی، توگورنراسٹیٹ بینک حکومت کی آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اُسے مزید پانچ سال مل جائیں۔ لیکن اس میں زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کو کوئی ہٹا نہیں سکتا، جبکہ پارلیمنٹ وزیراعظم کو ہٹا سکتی ہے۔ اسی طریقے سے نیب اور ایف آئی اے وزیراعظم کو بلا سکتے ہیں لیکن گورنر اسٹیٹ بینک و ڈپٹی گورنر، اور اسٹیٹ بینک کے عہدے داروںکو نہیں بلا سکتے۔ جب آپ ان کو خودمختاری زیادہ دے رہے ہیں تو اصولاً ان کا احتساب اور زیادہ سخت ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ کیا کہ ریاست کا کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ہی نہیں ڈال سکتا! ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی، ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو آپ نے ایمنسٹی دے دی ہے، اس پر پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک نے مارچ سے جون2020 ء تک شرحِ سود میں جو زبردست کمی کی ،اور اس کے بعد نفع،نقصان میں کھاتے داروں کو جو منافع مل رہا تھا اس منافع میں انہیںشریک کرنے کے بجائے شرح سود سے منسلک کرکے کروڑوں کھاتے داروں کو سات سو ارب کا نقصان پہنچایا،اس اقدام میں اسٹیٹ بینک نے بینکنگ کمپنی آرڈیننس 40 اے کی خلاف ورزی کی ،پھر آئین پاکستان کی شق3 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی،کیونکہ کھاتے داروں کو منفی منافع دینا استحصال کے زمرے میں آتا ہے اور استحصال کو ہمارا آئین منع کرتا ہے، اس کے بعد تیسرا یہ کہ بڑے بڑے کھاتے داروں کی شرح سود کم کی، اور کھاتے دار کا شرح منافع کم کیا، اس طرح غریب اور امیر کا فرق بڑھایا جوکہ آئین پاکستان کی شق38 ای کی خلاف ورزی ہے۔ تو پہلے تو اسٹیٹ بینک کے گورنر کا احتساب ان غلط کاریوں پر ہونا چاہیے، اور پھر خودمختاری کی بات ہو۔ پھر اپریل 2019ء میں موجودہ اسٹیٹ بینک اور ہمارے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے مذاکراتی ٹیم کی حیثیت سے جو شرائط طے کی تھیں اس میں انہوں نے وفاقی سیکریٹری خزانہ کو نکال باہر کیا تھا کہ’’آپ بہت بول رہے ہیں‘‘۔ اس میں انہوں نے جو شرائط طے کیں وہ معیشت کے لیے بہت تباہ کن تھیں، اس کے معیشت پر منفی اثرات پڑے اور عمل کرنا ان پر ناممکن ہوگیا، اور نتیجتاً ایک سال سے زائد عرصے تک آئی ایم ایف کا پروگرام معطل رہا، اس دوران معیشت پر اتنے منفی اثرات پڑے اور کمزوری آئی کہ اب اضطراری کیفیت میں اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی شرائط منظور کرلیں۔ اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ2019ء میں انہوں نے جو شراط طے کی تھیں وہ اتنی غلط کیوں تھیں جو اتنی بڑی تباہی آئی۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے ماضی میں کم ازکم 10 ہزار ارب کا نقصان پہنچایا ہے، غلط قسم کے لوگوں کو بینکنگ کے لائسنس دیے، جعلی کھاتوں کی حوصلہ افزائی کی، جس کا بڑا مسئلہ ایف اے ٹی ایف میں چل رہا ہے۔ صرف ایک ہزار روپے میں اپنی پسند کے آدمی کو ایک بڑا بینک بیچ دیا، قرضے کی معافی کا سرکلر 29 جو ایشو کیا وہ آئین کے خلاف تھا جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں14,13سال سے پڑا ہوا ہے۔ تو پہلے ان کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے پاکستان کی تباہی کے فیصلے کیے ہیں، پھر دیکھا جائے کہ ان کو خودمختاری کس حد تک دینی ہے اور کس حد تک نہی دینی ہے۔ اس حوالے سے ماہر معیشت قیصر بنگالی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا آرڈیننس آگیا تو حکومت مفلوج ہوجائے گی، ریاست مفلوج ہوجائے گی، ریاست کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے، کیونکہ پہلا حق قرضوں کی ادائیگی کا ہوگا، جب قرضے لے کر قرضوں کی ادائیگی کریں گے تو قرضے اور بھی بڑھتے چلے جائیں گے، پولیس اور فوج کو بھی تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے، جدید دور میں ایسا آرڈیننس کہیں منظور نہیں ہوا، لیکن تاریخ میں سلطنت عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا، وہاں یہ شرط لگائی گئی تھی جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی، کیونکہ ان کے پاس جنگ لڑنے کے لیے پیسے نہیں تھے، اندرونی طور پر بغاوت کا سامنا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے، پیسوں کا کنٹرول جو تھا ان کے سینٹرل بینک کے پاس تھا۔ خدانخواستہ یہ آرڈیننس ملک کو توڑ دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے دھرنا دینا پڑتا ہے یا لانگ مارچ کرنا پڑتا ہے تو کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد ہم آج جو جنگ حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ پھر ہمیں واشنگٹن میں مالیاتی اداروں کے خلاف لڑنا پڑے گی۔
ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے اس خودمختاری پر انتہائی گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو برطانوی سامراج سے آزادی ملی، لیکن افسوس کہ اسے ابھی تک اقتصادی آزادی نہیں مل پائی۔ ہم نے اپنے آباو اجداد کی عظیم قربانیوں کو ضائع کردیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا آئی ایم ایف ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کررہا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ 90 کی دہائی سے پاکستان کا معاشی زوال اُس وقت شروع ہوا جب وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے پروگراموں میں گیا۔ اس بل میں دو چار نکات ایسے ہیں جن سے اہم خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ کہا جارہا ہے کہ اس بل کے بعد پاکستان کو اس کی دفاعی ضروریات کے مطابق رقوم مہیا ہوسکیں گی، مگر ماہر پولیٹکل اکنامک شاہدہ وزارت کا تجزیہ ہے کہ بل میں موجود ہے کہ پہلی ترجیحات کو پورا کرنے کے بعد باقی رقم ترقیاتی منصوبوں اور دفاعی ضروریات کے لیے فراہم کی جائے گی۔ مگر شاہدہ وزارت کے مطابق رقم بچے گی کہاں؟ اس طرح پاکستان کی دفاعی ضروریات متاثر ہوسکتی ہیں۔ پھر حکومت کو کوئی پروگرام رول بیک کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی بتانا ہے کہ حکومت اپنے بینکوں کا خسارہ پورا کرنے میں کوئی مالی معاونت نہیں کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستانی بینک بے یار و مددگار ہوکر دیوالیہ ہوسکتے ہیں، جن کی جگہ غیر ملکی بینک لیں گے اور وہ پھر آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں گے۔ ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمران ہمیشہ اپنی ذات اور کرسی کے بارے میں سوچتے ہیں، اور کرسی کے مفادات کے لیے بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان کو خدانخواستہ نقصان پہنچا توان کی کرسی بھی نہیں رہے گی۔
عمران خان نے 2018ء کے انتخابات سے قبل اپنے پارٹی منشور میں جس دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا تھا، اُس میں ٹیکسوں کے سلسلے میں 100 دن کے اندر عدل پر مبنی نظام دینا شامل تھا، اور توانائی کے شعبے میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر اُن وجوہات کو دور کیا جائے گا جن کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ (CIRCULAR DET) پیدا ہوتا ہے، اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ اس منشور پر عمل کیا جاتا تو موجودہ حکومت کو بجلی کے نرخ نہ بڑھانے پڑتے، اور مسئلہ حل کی طرف جاتا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ ان نکات پر عمل کرنے سے اشرافیہ اور مافیا کے مفادات پر زد پڑتی، اس لیے ان اصلاحات کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا گیا ہے۔ نتیجے کے طور پر اب بجلی کے نرخ بڑھیں گے جس سے مہنگائی بڑھے گی۔
اصل بات یہی ہے جو سب کو نظر بھی آرہی ہے اور ماہرین بھی اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اس اقدام سے ملک میں قیمتوں میں استحکام نہیں آئے گا بلکہ معیشت کی شرح نمو سست ہوگی اور بے روزگاری بڑھے گی، اور یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام نہیں ہوگا تو عمران خان کو قوم کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ جب آپ بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ معیشت کی سمت بہتر ہوگئی ہے تو پھر آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر کیوں نہیں آتے؟ اور کیوں راتوں رات شرائط منظور کرکے یہ بل پاس کروانا چاہتے ہیں؟ اس وقت عوام کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابرہے۔ ان کی کمر پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جو پہلے ہی سے ٹیکس دے رہا ہے اُس کے لیے مزید مشکل صورت حال پیدا کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں جب ہم مختلف تہذیبوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بدترین بغاوت اُس وقت ہوتی تھی جب ریاست عوام کی سکت سے زیادہ ٹیکس لگاتی تھی، اور وہ ٹیکس بھتا خوری کے زمرے میں آنے لگتا تھا۔ اُس وقت کے حکمران یہی کہتے تھے کہ آپ ہماری رعایا ہیں، اس لیے یہ ٹیکس آپ کو دینا ہی ہے۔ آج ریاست پاکستان ویسے ہی ٹیکس لے لے کر پاکستان کے عوام کا خون پی رہی ہے۔ کچھ بھی ہو، آپ کو بجلی کا بل جبری اضافے کے بعد بھی دینا ہوگا۔ اب آئی ایم ایف کے کہنے پر جس قسم کا معاشی نظام پاکستان کے اندر بن رہا ہے اُس سے وطنِ عزیز میں عام آدمی کی تکلیف بڑھے گی، اور ماہرین کے مطابق 2030ء تک بھی پاکستان میں ہر بچہ اسکول نہیں جارہا ہوگا، ہر شخص کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی، اور 2075ء تک ہماری فی کس آمدنی غریب ملکوں جیسی ہی رہے گی۔ قائداعظم نے یکم جولائی 1948ء کو کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک ہماری معاشی خودمختاری کی علامت ہوگا۔ لیکن اب ہم نے اسے بھی گروی رکھ دیا ہے اور نئے عالمی امریکی گریٹ کھیل کے تحت اُسے ایسے اختیارات بھی دے دیے ہیں جو پاکستان کی خودمختاری کا سودا بھی کرسکتے ہیں۔
وطن عزیز کی بد قسمتی ہے کہ ہماری سیاست اور معیشت عوام دشمن قوتوں کے کنٹرول میں تاریخی طور پر ہے اور ان سب لبرل سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈا، سیاسی اور معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔ ان سب کا مقصداشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور اس کے لیے امریکی ماتحت اداروں کی کاسہ لیسی اور غلامی کرنا ان کا اولین مقصد حیات ہے۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سیاسی اور ’’غیر سیاسی‘‘ اشرافیہ اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں غلامی کے طوق کو پہن کر عوام دشمن اقدامات کے تسلسل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان ایک خاص بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت اقتدار کے ایوان تک پہنچے ہیں  اور ان کی ماضی میں جتنی تقریریں ہیں آج وہ یوٹرن لگ رہی ہیں۔ وہ سیاسی نعرے بازی اور مقبولیت کے لیے ایک حکمت عملی تھی، کیونکہ موجودہ اسٹیٹ بینک آرڈیننس کے علاوہ گزشتہ سال آئی ایم ایف نے انتہائی سخت شرائط پر پاکستان کو مزید سودی قرضہ دینے کا معاہدہ بھِی کیا تھا جو موجودہ حکومت کا سب سے بڑا یوٹرن تھا۔ جب کہ اپوزیشن کے دوران عمران خان آئی ایم ایف کے قرضوں کے خلاف تقریریں کرتے نظر آتے تھے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے چلے گئے جس کے سبب بیمار ہونے کا ہمیں بتاتے تھے۔ اس طرح وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ حکومت بھی امریکی ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے، لگتا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کے لیے سیکورٹی رسک بنتی جارہی ہے۔ پاکستان غلامی کی ایک ایسی دلدل میں دھنستا جارہا ہے جس سے نکلنا ناممکن نہیںتو مشکل ضرور ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیٹ بینک آرڈیننس پر نظرثانی کی جائے، اور پارلیمنٹ اس کی منظوری نہ دے۔ اپوزیشن کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ہماری بقا اور سلامتی کا معاملہ ہے، ملک کی خودمختاری اور اس کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف پر ہمارا اتنا انحصار کیوں ہے، اور ایسی کیا
مجبوری ہے کہ ہم نے اپنی اقتصادی شہ رگ اُس کے حوالے کردی ہے؟