تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال کی نصف مدت مکمل کرچکی ہے، اور اگلی نصف مدت میں اسے گفتار نہیں بلکہ کردار کا غازی بننا پڑے گا، اپنی خامیاں تلاش کرکے انہیں دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ مگر جس طرح یہ حکومت تعمیراتی مافیا سمیت شوگر اور آٹا مافیا کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اس سے اگلی نصف مدت میں بھی کسی کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ تعمیراتی مافیا دھوکہ دے رہا ہے کہ ملک کی ستّر سے زائد صنعتیں اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت ذرا زراعت پر توجہ دے تو پورا ملک ہی زراعت سے وابستہ نظر آئے گا۔ جو ملک آج کی تازہ ترین کورونا وبا میں اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہے، وہ کبھی کسی قیمت پر بحران کا شکار نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ ہو، حکومت ہو یا اپوزیشن… ان میں سے کوئی بھی ملک کی غذائی خودکفالت کے لیے زراعت کی جانب توجہ نہیں دے رہا۔ بدقسمتی سے جہاں سیاست صرف دھوکا دہی کا کھیل بن کر رہ گئی ہو وہاں سیاست میں عوامی شمولیت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام ابھی تک جمہوریت کے باریک رموز سے واقف نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کے مرکزی بینک سے متعلق قانون میں ترامیم کرکے معاشی ترقی کے نام پر جو اقدامات کیے ہیں، اس سے بینک پوٹلی میں باندھ کرآئی ایم ایف کی دہلیز پر گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان جب قائم کیا گیا تو اس کے مقاصد بھی واضح کیے گئے کہ یہ ملک کی معاشی خودمختاری کا ضامن ہوگا۔ یہی بات ایکٹ 1956کے دیباچہ میں بھی لکھی گئی، مگر اب بنیادی مقصد سے ہٹ کر قانون میں ایسی ترمیم کی گئی ہے جس سے قیمتوں اور مالیاتی امور کا استحکام مرکزی بینک کی پہلی اور دوسری ترجیح ہوگی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ معاشی ترقی کے لیے ترجیح تیسرے درجے پر چلی گئی ہے۔ یہی بنیادی خرابی ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک معاشی ترقی میں حکومت کی مدد نہیں کرے گا تو ملک میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ مرکزی بینک افراطِ زر کو کنٹرول کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے، اسی سے معاشی ترقی کے پہیّے کی رفتار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی اشاریے بالکل مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں، جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ملکوں میں صورتِ حال اور مسائل کے حل مختلف ہیں۔ کسی معیشت کو استحکام دینے کے لیے حکومتیں مالی حکمتِ عملی پر توجہ دیتی ہیں اور مرکزی بینک کا دائرۂ اختیار مانیٹری پالیسیاں ہوتی ہیں، لیکن مجوزہ ترمیم میں دونوں کاموں کو گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ ہماری پالیسیاں ایسی ہونی چاہئیں جو ترقی کی رفتار کو تیز کریں۔ اسٹیٹ بینک ایکٹ میں آئی ایم ایف کی مجوزہ ترامیم غلط، غیرضروری اور ضرورت سے زیادہ مداخلت پر مبنی ہیں، اس سے بھی برا یہ کہ یہ نصیحت کسی مضبوط بنیاد پر نہیں دی گئی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ کسی معاشرے میں ترقی کا انحصار بڑی حد تک اشیا کی قیمتوں اور مالی استحکام پر ہوتا ہے۔ اب اسٹیٹ بینک کو بتانا ہوگا کہ مارکیٹ کے حوالے سے اس کا کیا خیال ہے اور اس کے لیے اسے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔
اس اہم ترین پیش رفت پر وفاقی وزارتِ خزانہ نے وضاحت دی ہے کہ اس اقدام سے اسٹیٹ بینک کے مقاصد واضح ہوں گے اور اسے مزید خودمختار بنانے کے علاوہ بینک کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس فیصلے کا پہلا اثر کیا ہوگا؟ قانون کے تحت حکومت اسٹیٹ بینک سے خاص حد تک قرض لے سکتی ہے، جبکہ بل میں حکومت کو اس سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک قرض نہیں دے گا تو حکومت یا تو ملک کے کمرشل بینکوں سے پیسہ لے گی، یا غیر ملکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خسارے پورے کرے گی۔ دونوں صورتوں میں ملکی معیشت پر برا اثر پڑے گا اور افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔ قانون یہ کہتا ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے تین ماہ کے لیے قرض لے سکتی ہے، لہٰذا کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ مجوزہ ترامیم سے احتسابی عمل متاثر ہوا ہے، کوئی بھی حکومتی ادارہ بشمول نیب اور ایف آئی اے اسٹیٹ بینک کے کسی بھی اہلکار کے خلاف بورڈ آف گورنرز کی پیشگی اجازت کے بغیر مقدمہ قائم کرنے یا احتسابی کارروائی کے مجاز نہیں ہوں گے۔ اس طرح اسٹیٹ بینک ہر قسم کے احتساب سے آزاد ہوجائے گا۔
تحریک انصاف حکومت احتساب کا نعرہ لے کر آئی ہے، ان تجاویز میں ایک اہم ادارے کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے، ترامیم میں احتساب کا عمل بورڈ آف گورنرز کی اجازت سے مشروط کردیا گیا ہے، بل میں گورنر اسٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز ہے، جبکہ اسے مزید پانچ سال کی توسیع بھی دی جا سکتی ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ مدت ملازمت آٹھ سال ہے۔ ان تجاویز پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایما پر کی جا رہی ہیں اور ان کا مقصد اس ادارے کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ ترامیم کی منظوری کی صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بہت زیادہ خودمختار ادارہ بن جائے گا، حتیٰ کہ وفاقی حکومت بھی اسے کنٹرول نہیں کرسکے گی۔
حکومت اس جانب حالیہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے لائی ہے جب ملک میں بجلی کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ عذاب بن کر نازل ہوا ہے۔ اس فیصلے کا ملبہ سب سے پہلے کابینہ پر پڑا، اور وفاقی وزیرخزانہ حفیظ شیخ اس کی زد میں آئے ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور بجٹ کے لیے منتخب نمائندے کو وزیر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر حماد اظہر وزیراعظم کا اگلا انتخاب ہیں۔ حفیظ شیخ سے وزیر خزانہ کا عہدہ واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ دوسرا بڑا استعفیٰ ہے۔ اس سے قبل ندیم بابر سے استعفیٰ لیا جاچکا ہے اور سیکرٹری پیٹرولیم کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ندیم بابر کو جون 2020ء میں پیدا ہونے والے پیٹرولیم بحران کا براہِ راست ذمے دار تو نہیں سمجھا گیا، تاہم انہیں ہٹایا گیا ہے۔ اب ایف آئی اے فرانزک تحقیقات کرے گی۔ اسد عمر نے پریس کانفرنس کی اور بتایاکہ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق پیٹرولیم بحران میں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے، اور اب تیل کی غیر قانونی فروخت میں ملوث افراد کا تعین بھی کیا جائے گا۔ پیٹرولیم ڈویژن، اوگرا، وزارتِ میری ٹائم افیئرز اور پورٹ اتھارٹی کے شریک افسران اور ملازمین کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ جن سرکاری ملازمین نے معاونت کی اور شراکت دار رہے اُن کی بھی تحقیقات ہوں گی۔
پیٹرول کا بحران بنیادی طور پر غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا، ظاہر ہے یہ فیصلے اُنہی لوگوں نے کیے جو یہ اختیار رکھتے تھے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ایسے فیصلے انہوں نے کیونکر کیے! اُن سے سہو ہوگیا، یا دانستہ ایسے فیصلے کیے! البتہ تیل کے اس بحران کی قیمت ملک و قوم نے اربوں روپے کے نقصان کی شکل میں ادا کی۔ ملک میں منظر یہ تھا کہ کم و بیش ایک مہینے تک پیٹرول کا بحران رہا، وجہ اس کی یہ تھی کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمتیں کم کیں تو کمپنیاں اس نرخ پر پیٹرول فروخت کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں، پھر جونہی قیمت بڑھائی گئی آناً فاناً پیٹرول دستیاب ہونا شروع ہوگیا۔ سارا چکر قیمتوں میں کمی کا تھا۔ پیٹرول بحران کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن بنایا گیا تھا اُس نے تین ماہ قبل رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وزارتِ پیٹرولیم اور ڈائریکٹر جنرل تیل اس بات کو یقینی بنانے میں ناکام ہوئے کہ تیل کمپنیاں فروری سے لے کر اپریل (2020ء) کے مہینوں میں تیل خریدتیں اور ذخیرہ کرتیں، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے تیل صاف کرنے کے مقامی کارخانوں سے باقاعدہ کوٹہ لینے سے انکار کردیا، لیکن اس معاملے پر نہ تو وزارتِ پیٹرولیم نے توجہ دی اور نہ ہی ریگولیٹری ادارے اوگرا نے۔ پیٹرولیم کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 25 مارچ 2020ء کو وزارتِ پیٹرولیم نے ایک حکم کے ذریعے تمام تیل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے امپورٹ آرڈر منسوخ کردیں، یہ حکم اپنی جگہ حیران کن بھی تھا اور متنازع بھی، کیونکہ یہی وہ وقت تھا جب تیل آسانی سے اور سستا دستیاب تھا، اور اگر ان دنوں خریداری کی جاتی تو آنے والے دنوں میں اس سے فائدہ ہوتا، اور نہ صرف حکومت کو زرمبادلہ کی بچت ہوتی بلکہ تیل کے صارفین کو بھی سستا تیل کچھ عرصے ہی کے لیے سہی، میسر آجاتا۔ لیکن پراسرار طور پر درآمدی آرڈر منسوخ کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ وزارتِ پیٹرولیم مقامی آئل ریفائنریوں سے اسٹاک کی منتقلی کو یقینی بناتی تو ایسی پابندی کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ لیکن ہوا یہ کہ درآمد پر پابندی اور بعد میں اسے بحال کرنے سے سپلائی میں تعطل آگیا، آئل کمپنیوں کی غفلت کا سارا بوجھ وزارتِ پیٹرولیم نے پاکستان اسٹیٹ آئل(پی ایس او) پر ڈال دیا، پھر لطیفہ یہ ہوا کہ جون کے مہینے میں اس سرکاری کمپنی سے کہا گیا کہ وہ تیل درآمد کرے جو اُس وقت تک مہنگا ہوچکا تھا۔ کمپنی گراں نرخوں پر منگوایا گیا یہی تیل نسبتاً سستے داموں صارفین کو فروخت کرنے پر مجبور ہوئی، اس طرح اسے سات سے آٹھ ارب تک کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ گویا سرکاری کمپنی کے مقابلے میں پرائیویٹ کمپنیوں کو اس طرح فائدہ پہنچایا گیا کہ انہوں نے تیل درآمد کرکے ذخیرہ کرنا شروع کردیا، اور جب حکومت نے قیمتیں بڑھا دیں تو سستا درآمد کیا گیا یہی تیل مہنگے داموں فروخت کیا گیا۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ ندیم بابر کو اس لیے ہٹایا گیا ہے کہ وہ تحقیقات پر اثرانداز نہ ہوں۔ ندیم بابر نے کچھ عرصہ پہلے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا جو منظور نہیں کیا گیا۔ اگر اُس وقت حکومت کے پاس استعفیٰ نامنظور کرنے کا جواز موجود تھا تو اب یکایک اُن سے استعفیٰ طلب کیوں کیا گیا ہے، اس کی وضاحت بھی ہونی چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ جاتے جاتے اپنی فائلیں درست کرگئے ہوں!
ملک میں دوسرا بڑا معاشی ایشوگندم اور چینی اسکینڈل ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے ابتدائی نتائج ابھی تک سامنے نہیں لائے گئے، تاہم نیب میں بھی یہ معاملہ رہا۔ جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق صارفین کو لوٹنے کے اس مکروہ دھندے میں حکومت اور اس کے اتحادیوں سمیت شوگر ملوں کی مالک متعدد معروف سیاسی شخصیات اور اس کاروبار سے منسلک کھرب پتی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں نے بھی شوگر ملوں کو غیرمعمولی منافع کمانے کے مواقع مہیا کیے۔ گزشتہ ہفتے ہی شوگر مافیا کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز ہوا ہے اور متعلقہ افراد کے درجنوں بینک کھاتے منجمد کردیے گئے ہیں، 9 شوگر ملوں کو بلیک لسٹ قرار دے دیاگیا ہے۔ بلیک لسٹ قرار دی گئی شوگر ملوں نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ چینی کی سپلائی جاری رکھیں گی، لیکن ان ملوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چینی فراہم نہیں کی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن نے ان ملوں کو ٹی سی پی ٹینڈر میں شرکت سے بھی روک دیا ہے۔ بلیک لسٹ قرار دی جانے والی ملوں میں عبداللہ شوگر ملز، حبیب وقاص شوگر ملز، ٹنڈو محمد خان شوگر ملز، حق باہو شوگر ملز، سیری شوگر ملز، تاندلیانوالہ شوگر ملز، مکہ شوگر ملز، عبداللہ شاہ غازی شوگر ملز شامل ہیں۔ چینی کے نرخ ایک سو پانچ روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں اور اس رجحان کے جاری رہنے کے خدشات واضح ہیں۔ شوگر مافیا کے خلاف کارروائی بے نتیجہ کیوں ہے؟ وفاقی حکومت نے چینی کی درآمد کے یکے بعد دیگرے دو ٹینڈر مبینہ طور پر مہنگی بولیاں ملنے کے باعث منسوخ کردیے ہیں جس کی وجہ سے رمضان سے پہلے یوٹیلٹی اسٹورز کو پچاس ہزار ٹن درآمدی چینی کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے اور چینی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ کہیں تھمتا نظر نہیں آرہا۔ وفاقی ادارۂ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 15.35فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مہنگائی کے اس سیلاب کے سامنے کسی نہ کسی طرح بند باندھنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، ورنہ خدشہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد فاقہ کشی پر مجبور ہوجائے گی۔