جب نواب صاحب مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن سے ملنے گئے تھے اُس وقت سے نواب اور نیپ میں کشمکش کا آغازہوگیا تھا۔ اس موقع پر نیپ نے بیان جاری کیا کہ نواب نیپ کے نمائندے نہیں ہیں۔ یہ بیان نواب کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا۔ نواب کوئٹہ لوٹ آئے، اور یوں ایک ایسی کشمکش نے جنم لیا جو مستقبل میں خطرناک ہوسکتی تھی۔ نیپ کی اندرونی کہانی اور اُس کے اندرونی تضادات نواب صاحب کی نگاہ میں تھے۔ اب انہوں نے نیپ سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا اور وہ سیاسی دوستی جو نواب بگٹی، نواب خیر بخش خان مری اور سردار مینگل کے درمیان تھی، کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔ پنجابی زبان کا ایک خوبصورت شعر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ
’’میری دوستی ٹوٹی تو اس کو پوری دنیا جانتی ہے…جو محبت اور تعلقات کی دنیا تھی اس کو تو لوگ نہیں جانتے تھے‘‘۔
نواب کی حیثیت مشرقی پاکستان سے لوٹنے کے بعد ایک بپھرے ہوئے شیر کی طرح تھی، جو شکاری کی کچھار میں گِھر گیا تھا۔ نواب صاحب اس جال کو توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ وزیراعظم بھٹو کی نظر اس کشمکش پر تھی، نواب صاحب کوئٹہ لوٹ آئے تو بھٹو نے اس کشمکش کو تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا اور انہیں دورۂ ماسکو میں ساتھ لے گئے۔ واپسی پر نواب ایک منصوبے کے تحت لندن میں رُک گئے یا اُنہیں وہاں ٹھیرنے کا کہا گیا۔ دوسری طرف چند ماہ گزرنے کے بعد بلوچستان میں بھٹو اور نیپ میں کشمکش شروع ہوگئی۔ بلوچستان میں B.S.O جو نیپ کی ذیلی طلبہ تنظیم تھی اُس نے شاہ ایران کے خلاف مہم چلانا شروع کردی، اور نوجوان طلبہ ایران کے خلاف نعرے لگاتے پھرتے تھے۔ جب نواب بگٹی گورنر بلوچستان بنادیے گئے تو ہم چند دوست اس اقدام کے خلاف کوئٹہ میں ڈان ہوٹل کے سامنے چوک پر احتجاجی جلسہ کررہے تھے۔ جب میری تقریر شروع ہوئی تو B.S.O کے طالب علموں نے شاہ ایران کے خلاف فلک شگاف نعرے لگانے شروع کردیے۔ میں نے اپنی تقریر روک کر اُن سے کہا کہ پہلے ہم اپنے ’’شہنشاہ‘‘ سے نجات حاصل کرلیں، پھر آپ شاہ ایران کے خلاف نعرے لگائیں۔ میری اس بات پر نوجوانوں نے شاہ کے خلاف نعرے لگانا بند کردیے اور بگٹی اور بھٹو کے خلاف نعرے گونجنے لگے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اُس وقت نواب بگٹی لندن سے لوٹ آئے تھے۔
اپنے قارئین کو ذرا ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں جو ایک تاریخی موڑ تھا، اس موڑ نے بلوچستان کو آگ اور خون کے دریا میں پھینک دیا۔ نواب بگٹی لندن سے لاہور پہنچے اور وہیں رک گئے۔ حکومت نے موچی دروازے میں نواب کا جلسہ رکھا۔ جناب پروفیسر غفور احمد مرحوم نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ جلسہ بھٹو حکومت کی ایما پر رکھا گیا تھا۔ بگٹی نے اس جلسے کے بعد کوئٹہ آنے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو نے اپنے منصوبے کے تحت بلوچستان میں گورنر رائج کا اعلان کردیا، اُس وقت تک سردار عطا اللہ مینگل وزیراعلیٰ تھے۔ جب بگٹی صاحب کے آنے کا اعلان ہوا اور بھٹو نے جناب غوث بخش بزنجو کو ہٹاکر نواب بگٹی کو گورنر لگادیا، اور حکومت نے اعلان کیا کہ نواب بگٹی بطور گورنر حلف لینے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں تو سردار عطا اللہ مینگل نے جو وزیراعلیٰ تھے، احتجاج کا فیصلہ کیا اور کوئٹہ میں ڈان ہوٹل کے سامنے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم نواب بگٹی کو اس چوک سے گزرنے نہیں دیں گے۔ اس موقع پر ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہ دور تھا جب بھٹو نے نواب غوث بخش رئیسانی کو گورنر بلوچستان نامزد کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھٹو صاحب سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے اور انہوں نے ایک حکم کے ذریعے نواب غوث بخش رئیسانی کو جو بلوچستان اسمبلی کے رکن تھے گورنر نامزد کردیا تھا، اور جب انہوں نے کوئٹہ لوٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ جناح روڈ سے کوئٹہ آنا چاہتے تھے، اُس وقت نیپ اور بی ایس او کے ورکروں نے کوئٹہ میں جلوس نکالا اور جناح روڈ کے چوک پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ اس چوک سے نواب غوث بخش رئیسانی کو گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ اور نواب غوث بخش رئیسانی جناح روڈ سے گزر نہیں سکے۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھا بذریعہ زرغون روڈ گورنر ہائوس پہنچے۔
زرغون روڈ کی بھی دلچسپ داستان ہے۔ تاجِ برطانیہ جو برصغیر ہند پر حکمران تھا، اُس نے اِس روڈ کا نام لٹن روڈ رکھا جو لارڈ لٹن کے نام پر تھا۔ اس کے بعد اس روڈ کا نام بدلتا رہا۔ جب شاہ ایران سے تعلقات درست تھے تو اس کا نام شاہ ایران کے نام پر رکھا۔ جب شاہ کی حکومت کا امام خمینی نے تختہ الٹ دیا اور شاہ ملک سے فرار ہوگیا تو ایران سے دوستی کے حوالے سے اس روڈ کا نام امام خمینی کے نام پر رکھ دیا گیا۔ یہ دور تاج محمد جمالی مرحوم کی وزارتِ عُلیا کا تھا۔ انہوں نے اس کی رونمائی کی۔ میں اس تقریب میں شریک تھا۔ پہلے اس کی نقاب کشائی ایران کی ریزیڈنسی میں کی گئی جہاں ایران کے سفیر اور دیگر زعما موجود تھے۔ اس کے بعد روڈ پر جو بورڈ لگایا گیا تھا اسے کسی نے راتوں رات توڑ دیا اور حکومت نے خاموشی اختیار کرلی، اور تاج محمد جمالی کو کہہ دیا گیا کہ اس روڈ کا نام وہاں تک ہونا چاہیے جو کینٹ کے شروع ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے تاج محمد جمالی خاموش ہوگئے۔ بعد میں اس کا نام زرغون روڈ رکھ دیا گیا۔ حالانکہ تہران ایئرپورٹ سے قریب روڈ کا نام قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے، اور انہوں نے اس کے ردعمل میں قائداعظم کا نام نہیں ہٹایا۔ ہم اس دور کے شاہد ہیں۔
ذکر ہورہا تھا جناح روڈ پر سردار عطا اللہ مینگل کی احتجاجی تقریر کا جس میں سردار عطا اللہ مینگل نے اعلان کیا تھا کہ اس روڈ سے نواب بگٹی کو گزرنے نہیں دیا جائے گا، اور انہوں نے نواب بگٹی پر بڑا سخت جملہ کسا۔ ابھی سردار عطا اللہ مینگل کی تقریر جاری تھی کہ ریڈیو پر حکومتِ پاکستان کا اعلان نشر ہوا کہ بلوچستان میں گورنر راج قائم کردیا گیا ہے اور نیپ کی حکومت ختم کردی گئی ہے۔ اس دوران آغا ظاہر نے جو بعد میں ڈپٹی اسپیکر بنے، ریڈیو پر جو سنا وہ ایک چٹ پر لکھا اور سردار عطا اللہ مینگل کو اسٹیج پر جاکر یہ چٹ تھمادی۔ جب چٹ سردار صاحب نے پڑھی تو وہ تقریر کرنا بھول گئے اور اسٹیج سے بغیر کچھ کہے اُتر گئے۔ حکومت نے یہ اعلان بھی کردیا کہ نواب بگٹی کل کوئٹہ پہنچ رہے ہیں اور بطور گورنر حلف اٹھائیں گے۔ میں نے ارادہ کیا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ جائوں گا۔ میں اس منظر کو دیکھنا چاہتا تھا جو ہونے والا تھا۔ ایک دوست کی کار میں بیٹھا اور ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ وہاں جو منظر تھا بڑا حیران کن تھا۔ ہزاروں لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو نواب کے استقبال کے لیے چشم ِبراہ تھا۔ میرے ساتھ کوئٹہ کے DC حیات اللہ موجود تھے، اُن سے شناسائی تھی۔ اُن کے قریب گیا، ہاتھ ملایا۔ وہ خاموش کھڑے تھے، انہوں نے نواب کا استقبال نہیں کیا، وہ جہاز کے قریب بھی نہیں گئے اور پروٹوکول کی لائن میں بھی کھڑے نہیں ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بھٹو نے غلط فیصلہ کیا، یہ درست نہیں ہے۔ اور خاموشی سے واپس ہوگئے۔ میں اس پُرہجوم جلوس میں شامل تھا، جب نواب بگٹی جناح روڈ پر پہنچے تو ہزاروں لوگ اُن کے استقبال کے لیے کھڑے تھے جبکہ نیپ کا کوئی ورکر وہاں موجود نہیں تھا۔ شہر نواب بگٹی زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا اور نواب بگٹی کو کوئی روکنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ جب اس ہجوم کے ساتھ گزر رہا تھا تو میرے کانوں میں سردار عطا اللہ مینگل کے الفاظ گونج رہے تھے کہ ’’نواب بگٹی کو جناح روڈ سے گزرنے نہیں دیں گے‘‘۔ اور نواب بگٹی ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں بگٹی ہائوس جارہے تھے اور انہیں کوئی روکنے والا وہاں موجود نہیں تھا۔ نواب بگٹی لوگوں کے نعروں کی گونج میں ہاتھ ہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ میں بگٹی ہائوس پہنچ رہے تھے۔ اکبر خان، اکبر خان تھا۔
(جاری ہے)