کراچی دنیا کا ساتواں اور پاکستان کا سب سے بڑا اور ملک کو چلانے کے لیے سب سے زیادہ وسائل فراہم کرنے والا شہر رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے، اور سندھ کی معیشت کا دار و مدار بھی اسی کے اوپر ہے۔ لیکن اس کا تاریخی طور پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اس وقت کراچی کے ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں، شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ مختلف عنوانات سے پیسے بٹورنے کے بڑے کام میں لگی ہوئی ہے۔ شہر کے لوگوں کو ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں، ان کے لیے ایک طرح سے ملازمتیں ناپید ہیں۔ جو ملتی بھی ہیں تو اس کے لیے بڑی رشوت دینی پڑتی ہے۔ ماضی میں عروس البلاد کراچی ریاستی سرپرستی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کی نذر رہا، اور اب ریاستی سرپرستی میں ہی مختلف مافیاز کے شکنجے میں ہے۔ حیرت ہوتی ہے اس قدر وسائل والے شہر میں بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ اس وقت تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نااہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام ہیں۔ یہاں کی قیمتی زمینوں پر مافیاز کا قبضہ ہے۔ چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہو، یا عظیم تر آب رسانی منصوبہ K-4… گرین لائن بس پروجیکٹ ہو یا سرکلر ریلوے کی بحالی… کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ یہاں کس کس مسئلے کا رونا رویا جائے! اس وقت شہر سلگتے اور گمبھیر مسائل کا شکار ہے جن کے حل کے لیے جماعت اسلامی شہر کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے جو تاریخی طور پر تین کروڑ سے زائد شہریوں کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے میدانِ عمل میں ہے، اور اس نے اپنی ’’حقوق کراچی تحریک‘‘ کے سلسلے میں اتوار 28مارچ کو شارع فیصل پر قائدآباد تا گورنر ہاؤس عظیم الشان اور تاریخی ’’حق دو کراچی ریلی‘‘نکالی، جس میں شہر بھر سے عوام نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔ ریلی میں نوجوان، بزرگ، طلبہ و اساتذہ، محنت کش اور مزدور سمیت شہر کے ہر طبقے اور زبان بولنے والے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد جوق در جوق شریک ہوئے۔ ریلی میں بعض شرکاء اپنے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ بھی شریک ہوئے جن میں خواتین اور چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ ریلی کے شرکاء نے مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، اور منتظمین کی ہدایت کے مطابق ہزاروں گاڑیاں شارع فیصل پر مخصوص رفتار سے سڑک کے ایک ٹریک پر رواں دواں رہیں، اور ریلی نے قائد آباد سے گورنر ہاؤس تک تقریباً 22 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ شارع فیصل پر بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے جھنڈے اور ’’حقوق کراچی تحریک‘‘ کے مطالبات پر مشتمل بڑے بڑے بینر آویزاں کیے گئے تھے اور جگہ جگہ ”حق دو کراچی ریلی“ کے شرکاء کے لیے خیر مقدمی بینر بھی لگائے گئے تھے۔ شہر کے مختلف مقامات سے لوگ جوق در جوق قافلوں کے ساتھ ریلی میں شریک ہونے آرہے تھے۔ امیر ضلع ملیر محمد اسلام کی قیادت میں کارکنوں اور عوام کا جلوس منزل پمپ پر پہنچا، ضلع کورنگی سے آنے والے جلوس امیر ضلع عبدالجمیل کی قیادت میں ملیر کورٹ سے ریلی میں شامل ہوئے، امیر ضلع ایئرپورٹ توفیق الدین صدیقی کی قیادت میں جلوس اسٹار گیٹ پہنچ کر ریلی کا حصہ بنا، ضلع شرقی، ضلع گلبرگ، ضلع وسطی، ضلع شمالی کے جلوس راشد منہاس روڈ سے ہوتے ہوئے ڈرگ روڈ سے شارع فیصل پر شامل ہوئے،جن کی قیادت امرائے اضلاع فاروق نعمت اللہ اور محمد یوسف کررہے تھے۔ ضلع وسطی، ضلع غربی اور ضلع کیماڑی سے آنے والے جلوس امرائے اضلاع وجیہ حسن، مدثر حسین انصاری اور فضل احمد حنیف کی قیادت میں اسٹیڈیم روڈ سے ہوتے ہوئے کارساز فلائی اوور سے شارع فیصل پر ریلی میں شامل ہوئے۔ امیر ضلع قائدین سیف الدین ایڈووکیٹ کی قیادت میں جلوس شارع فیصل پر ”حق دو کراچی ریلی“ میں شامل ہوا۔ قائم مقام امیر جماعت اسلامی ضلع جنوبی سفیان دلاور کی قیادت میں جلوس شاہراہ قائدین سے ہوتے ہوئے شارع فیصل پر ریلی میں شامل ہوا۔ منزل پمپ ملیر، اسٹار گیٹ، عوامی مرکز، مسجد رومی اور فوارہ چوک پر استقبالیہ کیمپ قائم کیے گئے تھے۔
ریلی کے شرکا سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ٹیلی فونک خطاب کیا اور کہا کہ ”کراچی آج بھی 25سو ارب سالانہ ریونیو ملک کو دیتا ہے، لیکن افسوس کہ اس شہر کے اپنے لوگ بے روزگار، پیاسے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ اہلِ کراچی کے ساتھ بڑا ظلم اور ناانصافی ہے جسے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ کراچی کے عوام کا مطالبہ ہے کہ یہاں پر مردم شماری دوبارہ کرائی جائے کیونکہ شہر کی آبادی تین کروڑ ہے اور حکمران کہتے ہیں کہ دو کروڑ بھی پوری نہیں ہے۔ جب کراچی کی آبادی درست شمار نہ ہو تو پھر اس کے مسائل کیسے حل ہوسکیں گے، اور ان کو ضرورت کے مطابق وسائل کیسے مل سکیں گے! ہم اہلِ کراچی کے مطالبے کے حق میں اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کراچی میں بلدیاتی ادارے مفلوج کیے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی میں ایک بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔ کراچی میں طویل عرصے سے کوئی نئے عوامی فلاحی منصوبے نہیں بنائے گئے۔ تفریح گاہیں اور کوئی نئے پارک نہیں بنے، یہاں کی سڑکیں تباہ ہیں، عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں، گردو غبار کی وجہ سے شہری روزانہ اذیت اور کرب کا شکار ہوتے ہیں اور بیماریاں عام ہیں۔ ڈپریشن، معدہ، یرقان اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ اہلِ کراچی کو پینے کا صاف پانی دیا جائے، عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا مؤثر نظام بنایا جائے۔ پہلے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، مگر اب یہاں تعلیمی اداروں کا بھی برا حال ہے۔ شہر کی آبادی تو دگنی ہوگئی لیکن نہ کوئی نیا اسپتال بنا اور نہ کوئی نئی یونیورسٹی بنی۔ اہلِ کراچی نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو دیکھا ہے، اور گزشتہ 11سو دنوں سے پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی دیکھ رہے ہیں جس میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے، لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہر حکومت نے اہلِ کراچی کے زخموں، دکھوں اور مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ اس شہر میں نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے، لیکن ان نوجوانوں اور عوام کے چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہوچکی ہیں۔ یہ مسکراہٹیں کس نے چوری کیں، کس نے اس شہر کے لوگوں کو بجلی جیسی نعمت سے بھی محروم رکھا، کس نے اس شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا، کس نے کے الیکٹرک کو ایک اژدھا بنا دیا جو لوگوں سے پیسے لوٹ رہا ہے؟ یہ سب کچھ اُن حکومتوں اور اُن حکمران پارٹیوں نے ہی کیا ہے جو ماضی میں اور آج بھی برسراقتدار ہیں۔ جماعت اسلامی عوام کی خوشحالی، نوجوانوں اور شہریوں کی کامیابی چاہتی ہے۔ وہ عوام کو انصاف اور صاف پانی کی فراہمی چاہتی ہے، شہریوں کے بنیادی مسائل حل کروانا چاہتی ہے۔ اس عظیم مقصد اور جدوجہد کے لیے عوام کو آگے بڑھنا ہوگا، اٹھنا ہوگا، تبدیلی کے نام پر دھوکہ کھانے کے بجائے حقیقی تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دینا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے اہلِ کراچی کے مسائل کو سینیٹ میں بھی اٹھایا ہے اور اسلام آباد کی سڑکوں سمیت ملک کے ہر حصے اور گوشے میں کراچی کے حقوق کی آواز اٹھائی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ ہے، وہ شہرِ قائد کے لوگوں کو ہرگز تنہا نہیں چھوڑے گی۔ کراچی عالمِ اسلام اور ملک کا دل ہے، یہ دل امن و سلامتی کے ساتھ پُرسکون ہوگا تو پورے ملک میں بھی امن و سلامتی اور خوشحالی ہوگی۔ ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام بھی جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور یقین رکھیں کہ فتح عوام کو ضرور حاصل ہوگی۔“
انہوں نے اپنے مفصل خطاب میں یہ بھی کہا کہ ”کراچی پر مصنوعی قیادت مسلط کی گئی جس نے اپنے بینک بیلنس میں تو اضافہ کیا لیکن افسوس کہ اس مصنوعی قیادت نے شہرِ قائد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انتہاپسندوں، دہشت گردوں نے اس شہر کو یرغمال بنایا اور اسے تباہ و برباد کردیا اور کھنڈر اور کچرے کا ڈھیر بنادیا۔ کراچی کو اس کی حقیقی قیادت سے محروم کیا گیا، سازش کے تحت مافیاؤں کے حوالے کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بڑے بڑے دعوے کیے، وزیراعظم نے گیارہ سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا، لیکن انہوں نے آج تک اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ شہر کے گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، شہر کا ماحول تباہ ہوگیا ہے، سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ پہلے کراچی کے کچھ علاقے پس ماندہ ہوتے تھے، لیکن اب تو پورا شہر پس ماندہ ہوگیا ہے اور اس میں پوش علاقے بھی شامل ہیں۔ عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کراچی میں ملک بھر سے آنے والے لوگ رہ رہے ہیں اور اس شہر نے پورے ملک کو سہارا دیا، اس شہر نے حکیم محمد سعید، عبدالستار افغانی، شاہ احمد نورانی، سید منور حسن، پروفیسر غفور احمد اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ جیسی شخصیات دی ہیں، کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہ رگ ہے اور یہاں کے لوگوں نے ملک کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس شہر کے بزرگوں نے ملک کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑے اور طویل جدوجہد اور ہجرت کرکے یہ ملک اور شہر بسایا۔ اس شہر کی خوشحالی پاکستان کی خوشحالی ہے۔ اس شہر کا ملک پر بڑا احسان ہے، اور اس نے ہمیشہ پاکستان میں تحریکوں کی قیادت کی۔ نظام مصطفیٰ، ختمِ نبوت، بنگلہ دیش نامنظور تحریک، فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا… کوئی بھی مسئلہ ہو اِس شہر نے امت کے تصور کو اجاگر کیا ہے اور اسلامی تحریکوں کی آواز بنا ہے۔“
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے قائد آباد تا گورنر ہاؤس ’’حق دو کراچی ریلی‘‘ کے اختتام پر گورنر ہاؤس پر دیے جانے والے دھرنے کے شرکاء سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کراچی کا ایک تاریخی دن ہے اور تاریخ ساز ’’حق دو کراچی ریلی‘‘ نے تین کروڑ عوام کو امید، حوصلے اور عزم کا پیغام دیا ہے۔ عوام مایوس ہونے کے بجائے گھروں سے نکلیں اور حکمرانوں سے اپنا حق حاصل کریں۔ آج کی ریلی نے حکمرانوں اور حکمران پارٹیوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ لیں، کراچی کو مزید دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔ کراچی امتِ مسلمہ کے ماتھے کا جھومر ہے اور پورے ملک کی معیشت چلاتا ہے۔ یہاں ہر زبان بولنے اور ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے رہتے ہیں۔ کراچی غریبوں کی ماں ہے اور سب کو پالتا ہے، لیکن حکمرانوں نے اسے صرف مال بنانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ کراچی کے عوام کے ساتھ یہاں سے ووٹ لینے والوں نے ہی ظلم و ناانصافی کی ہے، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے مل کر کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کیا اور اس جعلی متنازع مردم شماری کی وفاقی کابینہ سے منظوری دی گئی جس میں کراچی کی آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کو تین کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں نمائندگی دی جائے۔ کراچی ڈھائی سو ارب روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہے، قومی خزانے میں تقریباً 70 فیصد ریونیو دیتا ہے اور صوبائی بجٹ میں بھی تقریباً 90فیصد بجٹ فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ صاف پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں۔ اسلام آباد، لاہور، ملتان اور پشاور میں تو میٹرو بسیں چل رہی ہیں لیکن کراچی کے عوام کے لیے سب سے بڑی ٹرانسپورٹ آج چنگ چی رکشہ بن چکی ہے۔ ایک گرین لائن منصوبے کو 5 سال ہوگئے، لیکن وہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔ کراچی کو کوئی پارٹی اون نہیں کرتی۔ پیپلز پارٹی کے خمیر میں کراچی دشمنی ہے، 12سال سے مسلسل پیپلزپارٹی سندھ میں اقتدار میں ہے لیکن اس کے باوجود اُس نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا، وہ کراچی کو سندھ کا حصہ تو کہتی ہے اور کراچی سے اپنا حصہ بھی لیتی ہے، لیکن کراچی کو اس کا حصہ نہیں دیتی۔ ہم بلاول بھٹو، آصف زرداری اور مراد علی شاہ سے سوال کرتے ہیں کہ انہوں نے اندرون سندھ کے غریبوں اور ہاریوں کی تو حق تلفی کی ہے، وہ بتائیں کہ سندھ کے دارالحکومت کو مسلسل کیوں نظرانداز اور حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے؟ 2018ء میں کراچی سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں لیں، ایم کیو ایم نے 4 نشستیں لیں اور پیپلز پارٹی نے بھی کراچی سے قومی اسمبلی کی نشستیں لیں، لیکن ان تینوں جماعتوں نے اقتدار میں ہونے کے باوجود کراچی دشمنی کا تسلسل برقرار رکھا،16سال ہوگئے کراچی کے لیے پانی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے K3مکمل کرکے K4 کا آغاز کیا، لیکن بدقسمتی سے اس کے بعد مصطفیٰ کمال کے دور میں جس میں وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی ان کے ساتھ تھیں، اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا۔ ”حق دو کراچی تحریک“ دیہی اور شہری وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف اہلِ کراچی کے جائز اور قانونی حق کی تحریک ہے۔ 7ماہ ہوگئے 11سو ارب روپے کے پیکیج میں سے عملاً کچھ خرچ نہیں کیا گیا۔ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی… جس میں تینوں حکمران جماعتیں شامل ہیں… عوام کو بتائے کہ اس نے 7ماہ میں کیا کیا؟ جماعت اسلامی نے ہی ماضی میں بھی کراچی کے عوام کے مسائل حل کیے تھے اور آئندہ بھی ہم ہی عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی کی تعمیر وترقی اور روشن و تابناک مستقبل جماعت اسلامی سے ہی وابستہ ہے، آج ہم گورنر ہاؤس پر پہنچے ہیں تو پیپلز پارٹی یہ نہ سمجھے کہ اُس سے سوال نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس بھی قریب ہے، ہم اہلِ کراچی کے حق کے لیے ہر جگہ جائیں گے اور ہر ذمہ دار سے حساب اور جواب لیں گے۔“ انہوں نے اعلان کیا کہ اہلِ کراچی کے گمبھیر مسائل حل نہ ہوئے اور تین کروڑ عوام کو اُن کے جائز و قانونی حقوق نہ ملے، حقوق کراچی تحریک کے مطالبات پورے نہ کیے گئے اور شہر کی ابتر حالت میں بہتری نہ آئی تو جماعت اسلامی عیدالفطر کے بعد یا رمضان المبارک میں بھی وزیراعلیٰ ہاؤس پر زبردست دھرنا دے گی۔“ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ”حقوق کراچی تحریک ظلم و ناانصافی اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے اور جدوجہد کی تحریک ہے، جو ایک دینی تقاضا بھی ہے، اور ہم اسی دینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم چیف جسٹس سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اہلِ کراچی کو انصاف دلائیں، کے الیکٹرک کی لوٹ مار سے نجات دلانے کے لیے اہلِ کراچی کی حقیقی آواز بھی سنیں۔“ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”تجاوزات کے خاتمے کے دوران شہریوں کو بے گھر تو کیا جارہا ہے، لیکن ری سیٹلمنٹ پلان کے تحت متبادل جگہ اور معاوضہ فراہم نہیں کیا جارہا جو سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔“
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم میں عوام کی بڑھتی دلچسپی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی طرف دیکھنا شہر کے مستقبل کے لیے اچھا شگون ہے، اور ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے مسائل حل کرنے ہیں، شہر کو خوبصورت دیکھنا، صاف و شفاف پانی کے حصول، اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے نجات سمیت بے روزگاری و دیگر ایشوز کو حل کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کو اچھا اور پُرسکون مستقبل دینا ہے تو پھر آج اس شہر کے جائز حقوق کو واپس دلوانے کے لیے اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوگا، اور جماعت اسلامی کا اس حوالے سے جہاں جہاں ساتھ دے سکتے ہیں گلی محلوں اور سڑکوں پر، تو انہیں دینا چاہیے، کیونکہ حرکت میں برکت ہے اور جماعت اسلامی نے یہ ثابت کیا ہے کہ کم وسائل میں بھی بہت کچھ کرسکتی ہے، اور جماعت اسلامی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس نے کراچی کے عوام کو کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ ہی حقیقت میں اپنے لوگ ہیں، باقی تو دھوکہ اور سراب ہے جس کی طرف سے کئی بار دھوکہ کھانے اور تذلیل اٹھانے کا عمل شہر کراچی کے تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ اب فیصلہ شہر کے عوام کو خود کرنا ہے اور جماعت اسلامی ان کی خدمت کے لیے گلی محلوں میں ہر وقت موجود ہے۔