فیصل آباد میں کورونا کے مثبت کیسوں کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود کچہری بازار سمیت آٹھوں بازاروں اور چوک گھنٹہ گھر میں کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، اور کچہری بازار، چنیوٹ بازار، بھوانہ بازار، جھنگ بازار، منٹگمری بازار، کارخانہ اور ریل بازار سمیت شہر کی مضافاتی مارکیٹوں و کاروباری مراکز میں رش میں کمی نہیں آرہی۔ سرکاری مقررہ وقت تک ان جگہوں پر پارکنگ، موٹر سائیکلوں اور عوام کا شدید رش رمضان کے آخری عشرے کی طرح موجود ہے۔ مقامی انتظامیہ حکومتی اقدامات کاغذوں اور پریس ریلیز میں نافذ کیے ہوئے ہے، جبکہ عملاً بعض جگہ بعض انتظامی افسران کی جانب سے اپنی فیملی کے ہمراہ ممنوعہ اوقات میں دکانیں کھلوا کر خریداری کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ مرکزی تنظیم تاجرانِ پاکستان کے مرکزی صدر کاشف چودھری نے اس پر ردعمل دیا ہے کہ حکومت فجر کے وقت بینک، حکومتی ادارے، کارپوریٹ سیکٹرز کو کھولے اور چھے بجے بند کرنے کا اعلان کرے تو تمام تاجر اس فیصلے کو خوش آمدید کہیں گے۔ مگر صرف تاجروں کو چھے بجے کا پابند کرکے اعتماد میں لیے بغیر فیصلے نافذ نہیں کرنے دیں گے۔ تاجر متحد ہیں، حکومت فیصلوں میں تاجروں کو شامل کرے تو بہتر راستہ نکلے گا، تاجرشٹرڈاؤن نہیں بلکہ شٹر کھولنے کی طرف جائیں گے۔ یکم اپریل کو پاکستان بھر کے تاجروں کے کنونشن میں اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ تاجروں کی آواز کو اوچھے ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جاسکتا۔ گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کے تاجروں سے کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوسکے۔ ایک مرتبہ پھر تاجروں کو تختۂ مشق بنا دیا گیا ہے، کورونا وائرس ایس او پیز کے نام پر حکومتی عہدیدار اور پولیس اہلکار تاجروں سے دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ مرکزی تنظیم تاجران کے عہدیداروں نے جنرل سیکرٹری انجمن تاجران سٹی و سیکرٹری اطلاعات چودھری محمود عالم جٹ، سٹی کلاتھ بورڈ رجسٹرڈ و مرکزی وائس چیئرمین عباس حیدر شیخ، شیخ جاوید اختر صدر جنوبی پنجاب، راجا ضیاء احمد شیخ، رضوان شوکت ننکانہ صاحب کے ہمراہ چوک گھنٹہ گھرکے سبزہ زار میں پریس کانفرنس کی تو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اسے ختم کرادیا گیا، جس کے خلاف تاجروں نے ردعمل دکھایا کہ موجودہ حکومت ہر اہم کام میں عوامی نمائندوں اور براہِ راست اسٹیک ہولڈر کو نظرانداز کرکے بڑی غلطی کررہی ہے۔ اس طرح بدنظمی اور انتشار پھیلے گا، وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان بھر کے تاجروں، شادی ہال مالکان، اسکولوں کے سربراہان سمیت تمام اسٹیک ہولڈر سے مکمل اور جلد مشاورت کے بعد ان کی قابلِ عمل سفارشات کے بعد کورونا ایس او پیز و فیصلے نافذ کیے جائیں۔ بزدار حکومت کا پنجاب میں کاروبار چھے بجے بند اور دو چھٹیوں کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں۔ حکومتی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں، جبکہ وزیراعظم کورونا مثبت آنے کے باوجود پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی تصویر عالمی میڈیا میں چھپوا کر احساسِ ذمہ داری نہیں دکھا سکے، اور وہ یہ ذمہ داری عوام سے پوری کرانا چاہتے ہیںجو ناممکن ہے۔ اس کے لیے حکومت اور عوام سمیت تاجروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر حل نکالنا ہوگاتاکہ کاروبار بھی چلتے رہیں اور احتیاط بھی برقرار رکھی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بازاروں میں تاجروں پر چھاپوں سے تاجر پریشان ہیں، دوسری جانب چینی، آٹا عدم دستیابی کا شکار ہوئے ہیں، حکومت صرف ایک مافیا کے لیے ہے، اسی لیے تعمیراتی پیکیج دیے جارہے ہیں، اس کا تاجروں سے کیا تعلق؟ جب کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر بے قابو ہے۔ تاجر ایکسرے اور لیبارٹریاں نہیں چلا سکتے، اپنی دکانیں ہی چلائیں گے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے ذریعے پارلیمان کو بائی پاس کرکے 140ارب روپے کا بوجھ قوم پر ڈال دیا گیا ہے۔ 700ارب بجلی سرچارج سے مہنگائی کا طوفان آرہا ہے۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن کی باتوں اور تاجروں پر پابندیوں سے کاروبار، معیشت اور تعلیم کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ اور ویکسی نیشن کرنا حکومت کا کام ہے، مگر اس غفلت کا پہلا نزلہ عوام، تعلیم اور تاجروں کے خلاف گرایا گیا ہے۔