چند روز قبل ایک کتاب ’’مولانا مودودی ؒ کی رفاقت میں‘‘ زیر مطالعہ تھی۔ یہ کتاب مولانا کی سوانح حیات پر لکھے گئے چند واقعات پر مشتمل ہے، جن کو خواجہ اقبال احمد ندوی نے خوب صورت انداز میں قلم بند کیا۔ مولانا مودودیؒ کی سوانح پر متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، تاہم خواجہ اقبال احمد ندوی (م: 2007) کی زیر تبصرہ کتاب ’’مولانا مودودیؒ کی رفاقت میں‘‘ کا انداز ہی نرالاہے۔ اس کتاب کو ہاتھ میں لینے کے بعد دل نہیں چاہتا کہ اسے ختم کیے بغیر چھوڑ دیا جائے۔ خواجہ اقبال احمد ندوی کے متعلق سید احمد عروج قادری تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دنیا میں ایسے بہت سارے جوہر و گوہر ہوئے ہیں جو اپنی جگہ چھپے رہتے ہیں اور لوگ ان کی قدر وقیمت سے ناواقف رہ جاتے ہیں۔ حکیم خواجہ اقبال احمد ندوی بھی ایک ایسے ہی جوہر ہیں۔ ہندوستان میں ایسے لوگ شاید ہی ہوں، جنہوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی خدمت میں ان کے شاگرد کی حیثیت سے کچھ وقت گزارا ہو۔ حکیم صاحب غیر منقسم جماعت اسلامی کے پہلے بحرانی دور میں مولانا مودودیؒ کے پاس مقیم تھے۔ وہ تشکیل ِجماعت سے پہلے ہی مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پہنچ گئے تھے اور دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ مولانا کی خدمت میں رہے‘‘۔ (صفحہ: 11)
یعنی کم و بیش دوسال کے حالات و واقعات کے خواجہ صاحب چشم دید گواہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اس عرصہ میں بہت سارے لوگ آئے بھی اور گئے بھی، کچھ ایسی تلخ و شیریں یادیں بھی تاریخ بن گئی ہیں جن کو خواجہ صاحب نے الفاظ کا جامہ پہنا کر سلسلہ وار ’’زندگیِ نو دہلی‘‘ میں شائع کروایا اور اب یہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ جماعت اسلامی کے وجود میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی بعض ممتاز شخصیات جو جماعت کی تشکیل میں شامل تھیں، اس سے الگ ہوگئیں۔ ان میں مولانا منظور احمد نعمانی، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، مولانا محمد جعفر پھلواروی، محترم قمر الدین خان اور مستری محمد صدیق قابلِ ذکر ہیں۔ چونکہ ان سب حضرات نے مولانا مودودیؒ کے تصورِ دین سے اختلاف کیا جن میں مولانا منظور احمد نعمانی نے ایک کتاب ’’مولانا مودودیؒ سے میری رفاقت کی سر گزشت اور اب میرا مؤقف‘‘ لکھ ڈالی، جس کے جواب میں خواجہ صاحب نے مضامین کی صورت میں زیر تبصرہ کتاب لکھ ڈالی۔ اس کی پہلی قسط دسمبر 1983ء میں اور چودھویں قسط مئی 1985ء میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں ’’زندگیِ نو‘ُ نے تمام اقساط کو یکجا کرکے فروری، مارچ کی اشاعت ِخاص میں ’’میں بھی حاضر تھا وہاں‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا، یہی اشاعت ’’بدلتے نصب العین‘‘ کے تحت شائع ہوئی، اور آج ’’مولانا مودودیؒ کی رفاقت میں‘‘ کے نام سے محترم سلیم منصورخالد (معاون مدیر عالمی ترجمان القرآن، لاہور) نے ترتیب د ے کر علم کی دنیا میں ایک اور تاریخی باب کا اضافہ کردیا ہے۔
اب ہم کتاب کے مشمولات پر آتے ہیں۔ کتاب میں ابتدائیہ کے طور پر مرتب کی گزارشات کے ساتھ طلوعِ عنوان کے تحت مصنف اور کتاب میں شامل مضامین کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد الگ الگ ذیلی عناوین کی صورت میں مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ گزارشات کے عنوان میں جناب سلیم منصور خالد ایک جگہ کتاب کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ مضامین جناب اقبال احمد ندوی نے مولانا منظور احمد نعمانی (15 دسمبر 1905ء۔5 مئی 1997ء) اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (24 نومبر 1914ء۔ 31دسمبر 1999ء) کی زندگی ہی میں لکھے تھے۔ اخبار ’دعوت‘ اور ماہ نامہ ’زندگیِ نو‘ میں ان کی اشاعت ہوئی، اور یقیناً ان محترم حضرات کے مطالعے سے بھی گزرے، لیکن ان کی جانب سے اس سلسلۂ مضامین سے کسی اختلاف یا کسی ردعمل کا ظہور نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہاں پر لازماً اس کا جائزہ بھی شاملِ اشاعت کرتے‘‘۔
یعنی یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ جتنے بھی مضامین خواجہ صاحب نے لکھے ہیں وہ حق پر مبنی ہیں، اگر کوئی مضمون حقائق سے ہٹ کر ہوتا تو لازماً یہ حضرات اعتراض فرماتے۔
بہرکیف مولانا مودودیؒ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سبق آموز ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں ہو۔ مولانا کی کارکنان سے محبت و اپنائیت اور ہمدردی کا ثبوت ہمیں ایک واقعے سے ملتا ہے کہ جب خواجہ صاحب انتہائی مشکلات کے بعد لکھنؤ سے لاہور کا سفر کرتے ہیں تو مولانا کے گھر کی جانب جاتے ہوئے ایک تانگہ لے لیتے ہیں، تانگے میں چڑھ کر جیسے ہی مولانا کے مکان کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’تانگہ جب مولانا مودودیؒ کے مکان پر پہنچ کر رُکا تو اس کی آواز پر مولانا نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا اور مجھے دیکھتے ہی مسرت بھرے لہجے میں فرمایا: ’’اخاہ، اقبال صاحب آگئے‘‘۔ میرے لیے مولانا کا یہ اندازِ تخاطب ہی توقع سے بہت زیادہ تھا، اور اس سے آگے کی کوئی بات تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا (صفحہ: 23)۔ بس خواجہ صاحب کی قسمت کا کھل جانا تھا جو مولانا ؒ کی رفاقت نصیب ہوئی، اور اس رفاقت کے انتہائی قیمتی واقعات کے گواہ کے طور پر صدیوں خواجہ صاحب یاد رکھے جائیں گے۔ مولاناؒ کے مطالعے کا شوق وجذبہ اور علوم کی تہ تک جانا کوئی مولانا سے سیکھے۔ ایک دفعہ مولانا نے وکلا حضرات کو دعوت دی تاکہ قوانین کے متعلق ان کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ اس مجلس میں مولانا نے تمام قوانین کی جڑوں تک علمی انداز میں گفتگو کی تو خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’پھر تنقید جیسے جیسے آگے بڑھنے لگی، یہ عزیز اپنے دل میں کہنے لگے یا اللہ! یہ مولوی ہے یا کوئی جن، جس نے نہ صرف یہ کہ گریک اور رومن لا کو پڑھ رکھا ہے، بلکہ اس پر اتنی گرفت ہے کہ ماہرینِ قانون کے مجمع میں اس پر ایسے پُر اعتماد لہجے کے ساتھ تنقید کررہا ہے (ص: 29)۔ مذکورہ کتاب میں مولانا کی زندگی کے مختلف رنگ ملتے ہیں، کبھی وہ درسِ قرآن کی محفلیں سجائے ملتے ہیں تو کبھی علم کی دنیا میں گُم… کبھی تحقیق و تصنیف میں مشغول، تو کبھی دنیا بھر سے خطوط کے جوابات لکھنے میں ہمہ گوش… کبھی کھانا پکانے اور جنگل سے لکڑیاں ڈھونے میں ایک عام مزدور کی طرح، تو کبھی میزبانی کا حق ادا کرتے ہوئے۔ ایک روز جنگل جا کے لکڑیاں لانے کا واقعہ خواجہ صاحب پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مولانا کا حصہ بھی دوسروں سے زیادہ ہی تھا، کم نہ تھا۔ پھر اقلیم علم و عرفان کا یہ شہریار، کہ جس کی تحریریں لاتعداد دل و دماغ پر حکمرانی کررہی تھیں، روزانہ ململ کا صاف و شفاف کرتا زیب تن کیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ خراماں خراماں عصر کے بعد جنگل جاتا اور اپنے کاندھوں پر موٹی موٹی لکڑیاں لاتا، یہاں تک کہ کہیں سے کافی مقدار میں لکڑی آگئی تو یہ سلسلۂ شوق بند کرنا پڑا۔ (ص: 50)
مولانا مودودیؒ کی دیگر عادتوں کے ساتھ ساتھ پان کھانے کی عادت کا تذکرہ بھی شاملِ کتاب ہے، اسی طرح سے مولانا کا اندازِ تنقید دشمن کی تلوار کے بجائے ایک ماہر سرجن کے نشتر کی طرح تھا۔ کتاب میں قمرالدین خان صاحب کے جماعت سے الگ ہونے کا تذکرہ بھی آیا ہے کہ کس طرح سے جماعت سے الگ ہونے کے بعد وہ درس و تحقیق کی دنیا سے جُڑ گئے اور اپنی صلاحیتوں کو کیسے اقامتِ دین کے نظریے کے خلاف استعمال میں لانا شروع کردیا، بلکہ ایک کتاب بھی political concepts in the quran لکھ ڈالی جس میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ قرآن کوئی سیاسی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ کتاب میں مولانا منظور احمد نعمانی اور مولانا مودودیؒ کے درمیان اختلاف کی وجہ پر بھی گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح سے منظور نعمانی صاحب مولانا کے خلاف دوسرے ساتھیوں کو بدظن کررہے تھے اور مولانا کے نظریۂ اقامتِ دین و فکر پر کس طرح سے تنقید کررہے تھے۔ اسی سلسلۂ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مصنف نے ایک ذیلی عنوان ’’پیش رفت‘‘ میں فرمایا ہے کہ ’’دارالاسلام میں مولانا منظور احمد نعمانی، مولانا مودودی کے خلاف ’’فردِ جرم‘‘ مرتب کرتے ہیں تو وہ خود ان کے خلاف ایسی فردِ جرم بن جاتی ہے کہ سولہ سال تک یہ اُن کے قلم کا منہ بند رکھتی ہے۔ پھر غالباً یہ اطمینان ہوجانے کے بعد کہ اب وہ فردِ جرم مولانا کے پاس محفوظ نہیں رہ گئی، مولانا نعمانی صاحب کے قلم کا منہ کھلتا ہے، تو اس طرح کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کا ضلال ثابت کرنے کے لیے وہ سیدھا ’’ملاے اعلیٰ‘‘ پہنچ جاتا ہے۔ اس پر امیر جماعت اسلامی بھارت جناب مولانا ابواللیث ندوی فلاحیؒ (14 فروری 1913ء۔ 5 دسمبر 1990ء) گرفت کرتے ہیں تو مولانا نعمانی صاحب اس کی ذمے داری قبول کرنے سے اجتناب برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کبھی فرصت ہو تو جناب نعمانی کو غور کرنا چاہیے کہ آخر کیا بات ہے کہ ہر مرتبہ ان کی کوشش کیوں خود انہی کے خلاف گواہ بن جاتی ہے (صفحہ: 128)۔ اسی طرح سے ایک اور صاحب مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کی جماعت سے علیحدگی کا تذکرہ ملتا ہے۔ مولانا شاہ محمد پھلواروی نے بینک کا سود، پردہ، حکومتِ اسلامی کا قیام… ان تمام مسائل میں مولانا مودودیؒ سے اختلاف کیا ہے، بلکہ جماعتوں کے سربراہ کو امیر کہنے سے بھی اختلاف کیا ہے۔ اسی حوالے سے مصنف موصوف نے ایک جگہ مولانا پھلواروی کے اختلاف کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ’’اس مقالے میں انہوں نے حکومت کو بھی اُکسایا ہے۔ فرماتے ہیں: لفظ امیر یا امام کو exploit کرنے کا اب کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ اگر ہم لفظ کی چند تاویلات کے ساتھ آج گوارا کرلیتے ہیں تو کل ہمیں ’خلیفۃ المسلمین‘ کے لفظ کو بھی، بلکہ نبی و رسول کے لفظ کو بھی بے مغز توجیہات و تاویلات کے ساتھ گوارا کرنا پڑے گا۔ اسلام کے نام لیوائوں کو غیر اسلامی اصطلاح وضع کرکے پھیلانے سے پرہیز کرنا چاہیے، اور خود اس حکومت کا بھی فرض ہے کہ اس طرح کی شرعی اصطلاحات کو غلط تصرفاتِ معنوی کی زد میں آنے سے محفوظ رکھے اور صدرِ انجمن کو امیر و امام و خلیفہ کہے جانے سے باز رکھے (صفحہ: 141)۔ اس اقتباس سے آپ اندازہ کریں کہ کس طرح سے غیر ضروری اور لایعنی باتوں کی بنا پر اختلاف کے نام پر وقت کے طاغوتی حکمرانوں سے مدد لے کر مخلص ترین کارکنانِ اسلام اور اقامتِ دین کی جدوجہدکرنے والے سرفروشوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کی ناکام کوششیںکی جاتی رہی ہیں۔ ازل سے ہی غلبۂ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف وقت کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر اُن کو ستایا گیا ہے، لیکن مولانا مودودیؒ اس شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے موت کی رسیوں سے بھی خوف نہیں کھایا، وقت کے حکمرانوں اور لایعنی باتوں پر تنقید کرنے والوں سے خوف کھانے یا مرعوب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط بھی شامل کیا گیا ہے جو انہوں نے جولائی 1942ء میں مولانا منظور نعمانی کو ارسال کیا تھا۔ ضمیمہ نمبر دو میں حکیم خواجہ اقبال ندوی سے ڈاکٹر عبدالباری کی ایک گفتگو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسی گفتگو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’چناں چہ مولانا مودودی ؒ اپنے کمرے میں آتے تو وضو کرکے آتے، اور بیٹھنے کے ساتھ ہی متعلقہ حصے کی تلاوت شروع کردیتے اور بار بار اسی کو پڑھتے اور اس پر غور و فکر کرتے رہتے۔ میں نے مولانا کو چند رکوع کئی کئی گھنٹے تک بار بار تلاوت کرتے دیکھا ہے۔ یہ کام جب ہوجاتا تو یہی مضامین قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، ان سب کو مولانا اکٹھا کرلیتے اور ان پر غور و فکر کرتے‘‘ (صفحہ: 201)۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ کے تحت ماخذ و مراجع کے حوالہ جات بھی درج کیے گئے ہیں۔
بہرحال کتاب کو خوبصورتی سے ترتیب دینے میں سلیم منصور خالد صاحب نے خاصی محنت کی ہے۔ کتاب کا دیدہ زیب سرورق اور اس پر مولانا مودودی ؒ کی تصویر کا عکس نظروں کو بھا جاتا ہے۔ کتاب املا اور پروف کی غلطیوں سے لگ بھگ پاک ہے۔ ضخامت کے لحاظ سے کتاب کی قیمت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ کم ازکم اقامتِ دین اور اسلام کو بحیثیت نظریۂ حیات تسلیم کرنے والوں کو اس دستاویز کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاریخ کا مطالعہ تحریک دے سکتا ہے اور تحریک پسند انسان میں مزید نکھار بھی لا سکتا ہے، اس لحاظ سے اس تاریخی دستاویز کا مطالعہ کیا جانا چاہیے، تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے کہ بدلتی دنیا میں تاریخ کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور آئندہ ہمارا لائحہ عمل کیسا ہونا چاہیے۔
nn