خون زندگی کی حرارت کی علامت ہے، اسے نہ کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک ایسا عطیہ ہے جو اگر کوئی دیتا ہے تو کسی نہ کسی انسان کی زندگی بچا رہا ہوتا ہے۔ انسانی جان بچانے والے اس اہم ترین عطیے کو دینے کا پاکستان میں رجحان بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ تھیلے سیمیا خون کی کمی کی موروثی بیماری ہے، پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد بچے اس بیماری میں مبتلا ہیں، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے- عمیر ثناء فائونڈیشن ان بچوں کے لیے ایک عرصے سے منظم انداز میں کام کررہی ہے، اور ان بچوں اور والدین کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مرض کے شکار بچوں کو خون کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جو بچہ اس بیماری میں مبتلا ہوجائے، ہر ماہ اس کا کم سے کم خرچ دس ہزار روپے کے قریب ہوتا ہے، جو غریب والدین کی پہنچ سے تو باہر ہوتا ہی ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے بہت سے ادارے موجود ہیں جو فنڈ کی کمی کا شکار رہتے ہیں، جس کے باعث اکثر غریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں آپاتی، اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ان بچوں کی تکلیف اور والدین کی اذیت کو شاید ہم سمجھ نہیں سکتے لیکن ان کے لیے آسانی ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ اور ایسے بچوں کے لیے خون کا عطیہ دینا ایک بڑا اور عظیم صدقہ جاریہ ہے۔
اس کام میں لوگوں کو شامل کرنے، ملک میں عطیہ خون کے رجحان کو فروغ دینے اور تھیلے سیمیا کا شکار بچوں کو خون کی فراہمی کے لیے عمیر ثناء فائونڈیشن کے تحت ایکسپو سینٹر گلشنِ اقبال میں گرینڈ بلڈ ڈونیشن ایونٹ منعقد کیا گیا،جس میں سیکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین، اور زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی، اور تھیلے سیمیا کے بچوں کے لیے اپنے خون کا عطیہ دیا۔ بلڈ ڈونیشن ایونٹ کا آغاز ترکی کی معروف ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کے سپر اسٹار عبدالرحمٰن غازی (جلال آل) نے اپنے خون کا عطیہ دے کر کیا۔ تقریب میں ترک قونصل جنرل تولگایوکاک،شہباز اسلام، عمیر ثناء فائونڈیشن کے صدر ڈاکٹر کاشف انصاری، ڈاکٹر ثاقب انصاری، ڈاکٹر فہیم، جنید علی شاہ، ایاز خان، ڈاکٹر فواد فاروق، یحییٰ حسینی اور دیگر نے شرکت کی۔
عبدالرحمٰن غازی نے اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عمیر ثناء فائونڈیشن تھیلے سیمیا کے خاتمے کی جو جدوجہد کررہی ہے وہ قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جنوری کے مہینے میں کراچی کے دورے کے دوران بھی اپنا خون عطیہ کیا تھا اور ایک بار پھر کررہا ہوں تاکہ نوجوانوں کو بلڈ ڈونیشن کی ترغیب ملے۔ انہوں نے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت سب سے بڑی نیکی ہے۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ آج میں تھیلے سیمیا کے بچوں کے لیے اپنے خون کا عطیہ دے رہا ہوں، اس عمل سے نہ صرف پاکستان اور ترکی کے باہمی تعلقات کو فروغ ملے گا بلکہ اس سے دوسروں کو بھی خون دینے کی ترغیب ملے گی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک قونصل جنرل تولگایوکاک نے کہا کہ اس نوع کی تقاریب کے انعقاد سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان باہمی اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ ہے جو تاقیامت قائم رہے گا۔
ڈاکٹر کاشف انصاری نے کہا کہ ہم نے بیس سال قبل تھیلے سیمیا کے خاتمے اور رضاکارانہ خون کے عطیات کے فروغ کے لیے سفر کا آغاز کیا، اور اس میں پاکستانی فنکاروں، کرکٹرز اور ڈاکٹروں کو شامل کیا تاکہ پاکستان سے تھیلے سیمیا کا خاتمہ ہو اور عطیہ خون کا رجحان فروغ پائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں دوسری مرتبہ عبدالرحمٰن کو دعوت دی ہے، کیونکہ ان کی موجودگی پاکستانی عوام خصوصاً نوجوانوں کو آگے آنے اور بیمار بچوں کے لیے خون کا عطیہ دینے کی ترغیب دیتی ہے، اور اس سلسلے میں ہم نے پاکستان میں نوجوانوں کو خون عطیہ کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے پر ترک اسٹار کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی اس کاوش اور تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور خون کا عطیہ کرنے کے جذبے کو اپنے دیگر منصوبوں اور ترجیحات کی طرح اہمیت دی جائے، عطیہ خون جہاں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، وہیں دینے والے کی صحت کے لیے بھی بہت مفید عمل ہے۔ ماہرینِ صحت کے مطابق ہر تندرست انسان کو سال میں کم سے کم دو بار خون عطیہ کرنا چاہیے، اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں، اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، جن کی کم سے کم عمر 17 اور زیادہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے، اسی پس منظر میں مجھ سے چند سال پہلے ایک انٹرویو میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، شعبہ طب نفسیات کے سابق سربراہ نے بہت خوبصورت بات کی تھی کہ ”زندگی میں دینا شروع کریں۔ آپ پیسے دیں، کسی کو وقت دیں، کسی کو مشورہ دے دیں، کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو علم دے دیں۔ دیکھیں دینے کی خصوصیت اللہ کی ہے، جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت رحمان سےجڑجاتی ہے، پھر آپ کبھی پریشان اور تنائو کا شکار نہیں ہوتے۔ جتنا زیادہ آپ دینے والے بنیں گے اتنا زیادہ آپ کی زندگی میں خوشیاں آنا شروع ہوجائیں گی۔ آپ طے کرلیں کہ ہر مہینہ کسی کو کچھ نہ کچھ دوں گا“۔آئیے ہم بھی طے کرتے ہیں کہ سال میں دو بار ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بار تو خون کا عطیہ ضرور دیں گے، اور تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کو خاص طور پر رمضان میں خون کی بہت کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔