مسئلہ کشمیرکا حل بذریعہ سی پیک؟

وزیراعظم عمران خان کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بھارت کو اچھے تعلقات کی ایک اور مشروط پیشکش کی ہے۔ یوں یہ حقیقت عیاں ہورہی ہے کہ اِس وقت ملک کی سویلین اور فوجی قیادت بھارت سے تعلقات کی بہتری اور بڑھوتری چاہتی ہے، اور یہ جذبۂ تجارت سے مغلوب کسی حکمران کی جذباتی اور ذاتی خواہش نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی طے شدہ پالیسی اور رائے ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو اچھے تعلقات کے قیام کی دعوت اسلام آباد میں اسٹرے ٹیجک ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کے دوران دی ہے۔ ہر دو شخصیات نے بھارت کو مشروط پیشکش کی، اور دونوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کرتے ہوئے بہتر تعلقات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی مواقع اور امکانات کی بات کی۔ جنرل باجوہ کا یہ کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھیں، اس کے لیے مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہوگا، کشمیر سب سے اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے یہ یاد دلانا ضروری سمجھا کہ پُرامن ذرائع سے یکسوئی کے بغیر یہ عمل کبھی بھی سیاسی محرکات کی وجہ سے پٹری سے اُتر سکتا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ صرف ایک ہے، اور اس کا نام کشمیر ہے۔
پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کا بہتر تعلقات کے لیے یک زبان ہوکر بھارت کو کشمیر سے مشروط پیشکش کرنا ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑنے کی ایک اور کوشش ہے۔ یہ پاکستان کی ماضی کی کوششوں کا تسلسل ہے، اور اس میں کوئی نیا پن نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب عالمی اور علاقائی حالات میں ایک واضح تبدیلی آچکی ہے۔ سی پیک کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر دنیا میں مفادات اور تعلقات کی ایک نئی تقسیم اُبھر چکی ہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کی بات کرنا بھارت کی دُم پر پائوں رکھنے کے مترادف ہے۔ بھارت کسی بھی وقت کشمیر کی تکرار سے بِدک کر اور چِڑ کر اچھے تعلقات کی اس دعوت کو ٹھکرا دے گا۔ یوں معاملات بدستور پھنس کر رہ جائیں گے۔ ابھی تک پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے کشمیر کی تکرار کو بھارت نے خاموشی سے برداشت کیا ہے۔ یہ مصلحتاً ہورہا ہے یا بھارت کے رویّے میں مستقبل میں تبدیلی کا اشارہ ہے؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ میں کچھ بھی اچھا نہیں رہا ۔
عمران خان اور جنرل باجوہ کی طرف سے پیشکش ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے امن عمل کی ابتدا ہورہی ہے۔ تعلقات کے جمود کے بعد برف پگھلنے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔ ماضی کے مُردے کی تدفین اور تجہیز وتکفین کی کوششیں پہلے بھی متعدد بار ہوتی رہی ہیں، مگر ہر بار یہ مُردہ کفن پھاڑ کر بولنے لگتا ہے۔ اِس بار بھی امریکہ اور چین کی سہولت کاری کے باعث اس مُردے کو پیوندِ خاک کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ اس عمل کو شروع کرنے میں امریکہ اور چین کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کا نام بھی سامنے آرہا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں امارات کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت بیک چینل رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی اقدامات تجویز ہوئے۔ سب سے پہلے عمران خان کو مودی کو ہٹلر کہہ کر مغربی دنیا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی پالیسی میں نرمی لانا پڑی، جواب میں بھارت کو دہشت گردی کا منترا چھوڑنا پڑا۔عمران خان کے ٹویٹر اور زبان سے مودی کو بار بار ہٹلر کہنا اور لکھنا بھارت کو مغربی دنیا میں بدنام کررہا تھا۔مغرب کے لیے ہٹلر کا تصور آج بھی کسی خوفناک بھوت پریت سے کم نہیں۔مغرب جنگ ِعظیم دوئم کی یادوں کو اپنی لوحِ حافظہ پر تازہ رکھے ہوئے ہے۔اس کے ساتھ بھارت کے انگریزی محاورے ’’ریڈ ریگ آف بُل ‘‘ یعنی سانڈ کے آگے سرخ رومال کی حیثیت رکھنے والے حافظ سعید قید اور سزاکے عمل سے دوچار ہوئے۔اب پے در پے پاکستان اور بھارت کے نمائندے عالمی اور علاقائی کانفرنسوں میں ایک دوسرے کا سامنا کرنے کو تیار ہو رہے ہیں۔سیزفائر معاہدے کی تجدید ہوچکی ہے اور انڈس واٹر کمیشن کے تحت مذاکرات کے لیے پاکستان کے ایک وفد نے 23 اور 24 مارچ کوبھارت کا دو روزہ دورہ کیا۔اگست2018ء کے بعد یہ اس فورم پر دونوں ملکوں کے نمائندوں کا پہلا آمنا سامنا تھا۔30مارچ کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ تاجکستان کے شہر دوشنبے میں ایک چھت تلے جمع ہوں گے۔یہ افغانستان سے متعلق ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ پروسیس کا حصہ ہوگا۔بالواسطہ ہی سہی پاکستان کی طرف سے بھارتی کووڈ ویکسین کی خریداری کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ کپاس کی خریداری کی فائل بھی حتمی منظوری کی منتظر ہے۔پاکستانی کھلاڑیوں کے دو گروپ بھی ویزے کے بعد بھارت جانے کو تیار ہیں۔ یوں اس وقت پاکستان اور بھارت 2003ء میں واپس لوٹتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں جب سیز فائر معاہدہ ہوتے ہی خوش گوار تعلقات کے چشمے اُبلنا شروع ہو گئے تھے۔اس طویل اور تھکا دینے والے عمل کا انجام اچھا نہیں ہوا تھا، کیونکہ بھارت کشمیر پر کوئی بڑی زمینی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوا تھا۔
اب بھی جنرل باجوہ نے امن عمل کے سیاسی محرکات کی وجہ سے پٹری سے اُتر جانے کی بات کرکے ماضی کے تجربات و حوادث کی بات کی ہے۔نئے پیس پروسیس میں ماضی کی اس حقیقت کو سامنے رکھا گیا تو ایک روشن اور تابناک مستقبل برصغیر کے عوام کا بانہیں کھول کر منتظر ہوگا۔ لیپا پوتی سے کام چلایا گیا تو ماضی کا مُردہ پھر کفن پھاڑ کر بولے گاُ کیونکہ یہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ جاوید حقیقت ہے۔ بیس پچیس سال کے برعکس کشمیر پر ایک نئی تبدیل شدہ حقیقت یہ ہے کہ اب چین دنیا کے مسائل اور اختلافات کو’’ بیلٹ اینڈ روڈ ‘‘کی گیدڑ سنگھی سے حل کرنا چاہتا ہے، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ چین نے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت دونوں کو مشترکہ فوجی مشقوں پر آمادہ کیا ہے۔ یہ مشقیں شنگھائی تعاون تنظیم کے بینر تلے ہوں گی، جن میں روس، چین، بھارت، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان،کرغیزستان،قازقستان کے فوجی شریک ہوں گے۔یہ مشقیں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے مقابلے کے نام پر منعقد ہوں گی۔ ازبکستان کے شہر تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں دہشت گردی، علیحدگی
(باقی صفحہ 41پر)
پسندی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے 2022ء سے 2024ء تک تعاون کے ایک پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔ چین کی دلچسپی یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت کے زاویے کے بجائے براہِ راست سی پیک میں شریک کرنا چاہتا ہے۔ محبوبہ مفتی بھی دبے لفظوں میں کئی بار یہ بات کہہ چکی ہیں کہ کشمیری بھی سی پیک سے فائدہ اُٹھانے کا حق اور خواہش رکھتے ہیں۔ کشمیر کو سی پیک میں ایک ضمیمے اور معاون کے بجائے ایک شراکت دار کے طور پر شامل کرنے کی چینی خواہش پاکستان اور بھارت کو اپنے مؤقف سے کئی قدم پیچھے ہٹنے پر آمادہ و مجبور کرسکتی ہے۔