علمی و تحقیقی ادارے مجلس ترقی ادب کی سربراہی کا تنازعہ

مجلسِ ترقیِ ادب لاہور کی سربراہی کا تنازع گزشتہ دو تین ہفتوں سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، جس میں ایک طرف یہ بحث چل رہی ہے کہ اس کی سربراہی کے لیے کون موزوں ہے اور کون ناموزوں… نیز یہ کہ اس علمی ادارے کا سربراہ کسے مقرر کیا جاسکتا ہے اور کسے نہیں… ساتھ ہی یہ کہ اس کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ جس بظاہر ’’مُردہ‘‘ ادارے کی سربراہی پر اتنی لے دے ہورہی ہے اُس نے اب تک کیا کام کیا ہے؟ اپنے مقاصد کو کس حد تک پورا کیا ہے اور اپنے وجود کو کتنا درست ثابت کیا ہے؟
اس بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر کسی نے یہ پوسٹ لگائی کہ لندن میں مقیم شاعر اور کالم نگار منصور آفاق کو اچانک مجلس ترقیِ ادب لاہور کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔ منصور آفاق درمیانے درجے کے شاعر اور اسی سطح کے کالم نگار ہیں۔ اُن کا تعلق میانوالی سے ہے، اور وہ اپنے آپ کو وزیراعظم عمران خان کا دوست بتاتے ہیں۔ میانوالی کے شاعروں اور ادیبوں کا ایک قبیلہ ہے جس کے عملی بانی اور سربراہ تو ڈاکٹر اجمل نیازی ہیں، لیکن وہ خود اس قبیلے کا سردار منیر نیازی مرحوم کو قرار دیتے تھے۔ منصور آفاق کی تقرری سے پہلا تاثر تو یہ اُبھرا کہ میانوالی سے تعلق اور وزیراعظم سے دوستی کے دعوے کے باعث یہ کام وزیراعظم نے کیا ہوگا۔ لیکن چونکہ میانوالی سرائیکی بولنے والا علاقہ ہے، اس لیے فوری طور پر لوگوں کا دھیان جناب عثمان بزدار کی طرف گیا جو خود بھی سرائیکی بیلٹ کے ہیں، اور سرائیکی صوبہ تحریک کے نتیجے میں پنجاب کی وزارتِ علیا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل ’سرائیکی صوبہ محاذ‘ کے نام سے اس علاقے میں الیکٹ ایبلز کا جو سیاسی اکٹھ بنا تھا اور جس نے بعد میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی، اس سیاسی اکٹھ کا دبائو جناب بزدار کو وزیراعلیٰ بنوانے میں ایک بڑا فیکٹر تھا،اگرچہ اب وزیراعلیٰ پنجاب جو اصلاً بلوچ ہیں پنجاب کے مختلف علاقوں میں بلوچ ثقافت کو پروموٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
منصور آفاق کی مجلس ترقیِ ادب لاہور کے سربراہ کے طور پر تقرری پر لوگوں کو حیرانی تو تھی لیکن ان کی پریشانی اُس وقت بڑھی جب یہ خبر آئی کہ نیک نام استاد، اورینٹل کالج لاہور کے سابق پرنسپل، ممتاز ادیب، دانشور اور محقق جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کو اچانک اس عہدے سے ہٹاکر یہ تقرری کی گئی ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی کا کنٹریکٹ مکمل ہونے میں ابھی 13ماہ باقی تھے اور وہ معمول کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہیں کنٹریکٹ ختم کرنے کا کوئی نوٹس دیا گیا نہ اُن سے کسی کو کوئی شکایت تھی۔ ان کی کارکردگی پر بھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اُن کا علمی مرتبہ، ادبی مقام اور نیک نامی ایسی تھی کہ ہر ایک نے اس طریقۂ کار کو ایک استاد اور ادبی شخصیت کی توہین سے تعبیر کیا اور لاہور کے علمی وادبی حلقوں میں یہ سوال گردش کرنے لگے کہ جس ادارے کے سربراہ امتیاز علی تاج، پروفیسر حمید احمد خان (سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب)، احمد ندیم قاسمی اور شہزاد احمد جیسی اعلیٰ پائے کی ادبی شخصیات رہی ہوں، اور اب بھی وہاں ڈاکٹر تحسین فراقی جیسی علمی، ادبی، نیک نام شخصیت کام کررہی ہے، وہاں ایک دوسرے درجے کے شاعر اور تیسرے درجے کے کالم نگار کو لگانا نہ صرف میرٹ کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے بلکہ اس سے ادبی حلقوں میں ایک مایوسی پھیلے گی۔ خود منصور آفاق کے ساتھی یہ بتاتے ہیں کہ انہیں سرائیکی اسپیکنگ ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ بزدار، اور میانوالی کے تعلق اور مسلسل وزیراعظم کی حمایت میں وقت بے وقت کالم لکھنے کا صلہ دیا گیا ہے، لیکن اس کے لیے انتہائی بھونڈا طریقہ اپنایا گیا۔ چند روز قبل منصور آفاق ٹہلتے ہوئے مجلس ترقیِ ادب کے دفتر آئے، ڈاکٹر تحسین فراقی کو ایک سرکاری لیٹر تھمایا اور اگلے روز آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ یہ سرکاری لیٹر ایک قائم مقام سیکرٹری کی جانب سے تھا جس میں اس ادارے کے سربراہ کے طور پر منصور آفاق کی تقرری کی نوید سنائی گئی تھی۔ عمومی طور پر اس طرح کے لیٹر متعلقہ بااختیار سیکرٹری جاری کرتے ہیں، اور اتنے بڑے فیصلے مجلس کا بورڈ آف گورنرز کرتا ہے، لیکن دونوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی۔ چونکہ منصور آفاق 2018ء سے قبل ہی عمران خان کی حمایت میں کالم لکھ رہے تھے، اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ کام انہوں نے مزید تیز کردیا تھا، اس دوران وہ بار بار لندن سے لاہور اور اسلام آباد کے چکر لگاتے رہے اور دوستوں کو بتاتے رہے کہ انہیں اہم ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ انہوں نے جو پہلی ذمہ داری نبھائی وہ یہ تھی کہ جناب تحسین فراقی کی الماری کے تالے توڑ کر ریکارڈ قبضے میں لے لیا، حالانکہ اس الماری میں ان کی ذاتی کتب اور دفتری ریکارڈ موجود تھا۔ تب سے یہ بحث چل رہی ہے کہ جس نشست پر امتیاز علی تاج بیٹھتے تھے آج وہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی خواہش پر ایک ایسا شخص بٹھادیا گیا ہے جس نے اپنے کام کا آغاز دفترکی الماری کے تالے توڑ کر کیا ہے۔ nn