براڈشیٹ کمیشن رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی۔ رپورٹ میں براڈ شیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ انکوائری کمیشن رپورٹ میں بتایا گیاکہ براڈشیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر رقم کی غلط ادائیگی کی گئی ہے، غلط شخص کو غلط ادائیگی ریاست پاکستان کے ساتھ دھوکا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزارتِ خزانہ، قانون، اٹارنی جنرل آفس سے فائلیں چوری ہوگئیں، جبکہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن سے بھی ادائیگی کی فائل سے اندراج کا حصہ غائب ہوگیا۔ براڈشیٹ کمیشن کو تمام تفصیلات نیب کی دستاویزات سے ملیں۔ براڈشیٹ کمیشن آصف زرداری کے سوئس مقدمات کا ریکارڈ بھی سامنے لے آیا ہے۔ کمیشن نے نیب کو سوئس مقدمات کا سربمہر ریکارڈ کھولنے کی بھی سفارش کردی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب ریکارڈ کو ”ڈی سیل“ کرکے جائزہ لے کہ اس کا کیا کرنا ہے، جبکہ سوئس مقدمات کا تمام ریکارڈ نیب کے اسٹور روم میں موجود ہے۔ رواں سال جنوری کے آخری عشرے میں براڈشیٹ کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت کی طرف سے اس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی، اور پھر اسی کمیٹی کو زیادہ اختیارات تفویض کرتے ہوئے کمیشن کی شکل دے دی گئی۔ اس کمیشن نے مقررہ مدت میں رپورٹ مکمل کرکے حکومت کو پیش کردی، جس کی کچھ جزئیات سامنے آئیں۔ حکومت کی طرف سے اس رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو مناسب قرار دیا جانا چاہیے۔ رپورٹ کے اجراء کے بعد مکمل حقائق سے آگاہی ہوسکے گی۔
2000ء میں پاکستان میں جنرل پرویزمشرف اقتدار میں تھے۔ شروع میں انھوں نے بے لاگ احتساب کا نعرہ لگایا تھا، اُن کے دور میں نیب اور برطانوی اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ کے درمیان سابق وزرائے اعظم نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور اُن کے شوہر آصف زرداری اور کئی طبقات کے مبینہ کرپٹ عناصر سمیت 200 پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کی چھان بین کے لیے معاہدہ ہوا۔ معاہدے میں طے پایا کہ بیرونِ ملک سے برآمد ہونے والی رقم کا 20 فیصد حصہ براڈشیٹ کو دیا جائے گا۔ تاہم 2003ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے معاہدہ ختم کردیا گیا۔ یک طرفہ معاہدہ ختم کرنے پر براڈشیٹ نے لندن کی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا دعوی دائر کردیا۔ حکومتِ پاکستان اور نیب اس معاہدے کی بدولت کسی بھی سیاست دان کے غیر ملکی اثاثے تو حاصل نہ کرسکے، مگر براڈشیٹ نے مقدمہ جیت لیا۔ برطانوی عدالت نے حکومتِ پاکستان کو حکم دیا کہ براڈشیٹ کو ساڑھے 4 ارب روپے سے زائد کا جرمانہ ادا کیا جائے۔ حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل کی، جسے 2019ء میں مسترد کرتے ہوئے فیصلہ برقرار رکھا گیا۔ فیصلے کی روشنی میں دسمبر 2020ء میں آف شور فرم براڈشیٹ کو لندن ہائی کمیشن پاکستان کے اکائونٹ سے ساڑھے 4 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔ اس رقم کے علاوہ کروڑوں روپے غیر ملکی وکلا کو فیس کی مد میں بھی ادا کیے گئے۔ براڈشیٹ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ معاہدے کے تحت اس نے کرپشن سے بنائے گئے جن اثاثوں کی نشاندہی کی اُس کا 20 فیصد اتنا ہی بنتا ہے جتنے کا برطانوی عدالت نے ادائیگی کا حکم دیا۔
اس کہانی میں نیا موڑ اُس وقت آیا جب براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موساوی نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ نیب تحقیقات کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے نمائندے نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔ براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ اس دوران ہوا جب جنرل امجد نیب کے چیئرمین تھے۔ معاہدے کے تحت کوئی بھی فریق خود سے معاہدہ ختم نہیں کرسکتا تھا، اسی بنا پر پاکستان کو جرمانے کی مد میں بھاری رقم ادا کرنی پڑی۔ اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے حکومت نے جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا۔ مکمل رپورٹ سامنے آنے پر پتا چلے گا کہ یک طرفہ طور پر معاہدہ کیوں ختم کیا گیا، اور معاہدہ کیا گیا تو یک طرفہ اسے ختم نہ کرنے کی شق کیوں رکھی گئی؟ اور رکھی گئی تو اس سے صرفِ نظر کیوں کیا گیا؟
جن دو سو لوگوں کے ناجائز اثاثے بیرونِ ملک موجود ہیں کمیشن کی طرف سے اس حوالے سے مزید تفصیلات بھی سامنے آئیں۔ کمیشن کی رپورٹ آنے پر براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موساوی کا کہنا ہے کہ کمیشن نے مجھے طلب نہیں کیا، اس حوالے سے کمیشن کی سنجیدگی سے مدد کرسکتا تھا، پاکستان کو 70 ملین ڈالر کا نقصان کیوں ہوا، مکمل کہانی سنا سکتا ہوں، خیال تھا کہ کمیشن نیک نیتی سے بنایا گیا، مگر وہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔
اسکینڈل کے مرکزی کردار کی گواہی کے بغیر حقائق کیسے سامنے آسکتے ہیں! گواہی دینے کے لیے بے چین نظر آنے والا شخص کمیشن پر سوال اٹھا رہا ہے، کیس کے ایک فریق پر رشوت دینے کا الزام لگارہا ہے جس نے اپنے پیسے کھرے کرلیے۔ شاید اسی بنا پر اسے طلب نہیں کیا گیا، مگر فائلوں کی چوری اور ریکارڈ کا غائب ہونا ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ براڈشیٹ کے بجائے غلط لوگوں کو ادائیگی بھی ایسے ہی لوگوں کی طرف سے کرائی گئی۔ کمیشن کی طرف سے بہت کچھ منظرعام پر لایا گیا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس کیس میں اگر ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر عبدالباسط سے پوچھ گچھ کی جائے تو معاملہ واضح ہوجائے گا۔ کیا یہ کام ہوسکے گا؟