پاکستان نصف صدی قبل (مارچ 1971ء)

نصف صدی قبل وطنِ عزیز سنگین بحران سے گزر رہا تھا اور اس کی شکست وریخت کا عمل جاری تھا۔ مشرقی پاکستان میں برسوں سے لاوا پک رہا تھا۔ لیکن دسمبر 1970ء میں ہونے والے ملک کے پہلے عام انتخابات کے بعد وہ لاوا پھٹ پڑا اور اپنوں کی غداری اور غیروں کی دشمنی نے وطن عزیز کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔
یہ تلخ حقائق ہیں کہ ان انتخابات میں عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ انہوں نے اپنے جن نمائندوں کو منتخب کیا تھا، انہیں اقتدار منتقل کرنے سے گریز کیا گیا۔ عوامی لیگ نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی، لیکن مغربی پاکستان کی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی لیگ کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، جبکہ اُن کی پارٹی نے 80 نشستیں حاصل کی تھیں۔
چنانچہ محلاتی سازشیں کامیاب ہوئیں اور یکم مارچ 1971ء کو فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا فطری ردعمل ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہونا تھا اور وہ ہوا، وہاں پُرتشدد مظاہرے، ہنگامے اور فسادات شروع ہوگئے، اگلے ہی روز ڈھاکا میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ مظاہروں کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کو اقتدار سے دور رکھا جارہا تھا، جبکہ مغربی پاکستان میں اس کا کوئی ردعمل نہیں ہوا کیونکہ یہاں کے سیاست دانوں اور حکمراں طبقے کی بھرپور کوشش تھی کہ بنگالیوں کو اقتدار نہ ملے۔ ڈھاکا کے بعد مشرقی پاکستان کے دیگر شہروں رنگپور، کھلنا اور سلہٹ میں بھی کرفیو لگا دیا گیا۔
صدرِ مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے یکم مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان کے گورنر وائس ایڈمرل ایس ایم احسن کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کو زون بی (مشرقی پاکستان) کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی جاری کیا گیا کہ ملک کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کے گورنر بھی ان صوبوں کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہلائیں گے اور ان صوبوں کی سول انتظامیہ کے سربراہ ہوں گے۔
مگر ابھی اس اعلان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 6 مارچ 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان کو اُن کے عہدے سے ہٹائے جانے کا اعلان ہوا اور لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو اُن کی جگہ مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کردیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان 7 مارچ کو ڈھاکا پہنچے۔ اگلے روز صاحب زادہ یعقوب علی خان نے اپنے اختیارات اُن کے حوالے کیے اور مغربی پاکستان روانہ ہوگئے۔ جنرل ٹکا خاں نے اختیارات فوری طور پر سنبھال لیے، لیکن حالات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس بی اے صدیقی نے اُن سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ یہ صورت حال بڑی تشویش ناک تھی، مگر فوجی حکمرانوں کو اس کی ذرا بھی پروا نہ تھی۔ جنرل ٹکا خان کو یقین تھا کہ وہ جلد ہی حالات پر قابو پالیں گے اور مغربی پاکستان کا کوئی جج مشرقی پاکستان جاکر ان کے عہدے کا حلف لے لے گا۔ لیکن حالات کی سنگینی کی وجہ سے مغربی پاکستان کے کسی جج نے مشرقی پاکستان جانے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ بالآخر 9 اپریل 1971ء کو جسٹس بی اے صدیقی ہی کو مجبوراً جنرل ٹکا خان سے مشرقی پاکستان کے گورنرکے عہدے کا حلف لینا پڑا۔
حالانکہ صدر جنرل یحییٰ خان کو اکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن سے بات چیت کرنا چاہیے تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ اقلیتی پارٹی کے لیڈر مسٹر بھٹو سے صلاح مشوروں میں مصروف تھے۔ 5 مارچ کو صدر یحییٰ نے مسٹر بھٹو سے پانچ گھنٹے طویل بات چیت کی جس میں پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما جے اے رحیم، عبدالحفیظ پیرزادہ اور غلام مصطفیٰ کھر بھی شریک ہوئے۔
اس اجلا س کے اگلے ہی دن فوجی حکمران صدر یحییٰ نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو ہوگا۔ اس اعلان کے بعد اکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے چار شرائط پیش کردیں۔ اس کے بعد پراسرار اور ناقابلِ فہم بیان بازی شروع ہوگئی، یعنی 10 مارچ کو مسٹر بھٹو نے شیخ مجیب کے نام پیغام بھیجا کہ ملک کو ہر حال میں بچایا جائے۔ اسمبلی کے اجلاس اور حکومت سازی کے حوالے سے ملکی سلامتی کا کیا تعلق تھا؟ دنیا بھر میں مروجہ قاعدہ ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس میں لیت و لعل اور تاخیری حربے استعمال کرنا اور پھر ملک بچانے کی باتیں ناقابلِ فہم ہیں۔
بہرحال شیخ مجیب الرحمن نے 13 مارچ کو اعلان کیا کہ وہ صدر یحییٰ خان سے مذاکرات کے لیے رضامند ہیں۔ چنانچہ صدر یحییٰ ڈھاکا گئے اور 16 مار چ کو شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کیے۔ اسی دوران انہوں نے قومی اسمبلی میں مغربی پاکستان سے کامیابی حاصل کرنے والے مسٹر بھٹو کو بھی ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی، لیکن مسٹر بھٹو نے ان مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکا جانے سے انکار کردیا۔ اگر مسٹر بھٹو مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکا چلے جاتے تو اقتدار عوامی نمائندوں کو پُرامن طور پر منتقل ہوجاتا، اور ملک بچ جاتا۔ بہرحال 19مارچ کو صدر یحییٰ اور شیخ مجیب میں انتقالِ اقتدار پر اتفاقِ رائے ہوگیا۔ لیکن حکمرانوں کی نیتوں میں کھوٹ تھا۔
اسی دوران 14 مارچ 1971ء کو کراچی کے نشتر پارک میں مسٹر بھٹو نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں جو 85 منٹ جاری رہا، دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک کے دونوں بازوؤں میں اکثریتی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کردیا جائے۔ انہوں نے ایک متحدہ پاکستان کی پُرزور حمایت کی اور کہا کہ 6 نکات کے مطالبے کے پس منظر میں ملک کے دونوں حصوں کی اکثریتی پارٹیوں کو ایک سمجھوتا کرنا چاہیے۔
اگلے دن بھٹو کی یہ تقریر کم و بیش ان ہی الفاظ کے ساتھ تمام اخبارات میں شائع ہوئی، مگر لاہور کے ایک اخبار ’آزاد‘ نے جو سنسنی خیز سرخیاں لگانے کا شوقین تھا، اپنے اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں لگائی ’’اُدھر تم، اِدھر ہم… بھٹو نے انتقالِ اقتدار کا فارمولا پیش کردیا۔ دونوں بازوؤں میں اکثریتی پارٹیوں کو اقتدار سونپ دیا جائے‘‘۔ اُدھر تم، اِدھر ہم کی تاریخی سرخی آزاد کے نیوز ایڈیٹر عباس اطہر کی ذہنی اختراع تھی۔
جوں ہی اس سرخی کا بھٹو کو علم ہوا تو اس کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے فوری طور پر وضاحتی بیان جاری کیا۔ اگلے دن ان کی یہ وضاحت روزنامہ ’آزاد‘ سمیت تمام اخبارات میں شائع ہوئی ۔ روزنامہ آزاد نے ان کا یہ بیان پہلے صفحے پر شائع کیا۔ اِس مرتبہ آزاد نے اس بیان پر یہ سرخی لگائی ’’نہ میں۔ نہ تم۔ ہم دونوں… اور ایک پاکستان۔ بھٹو نے وضاحت کردی‘‘۔ مگر یہ وضاحت بھی بھٹو کو ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کی سرخی کے منفی اثرات سے نجات نہ دلا سکی اور یہ سرخی ان کے گلے کا طوق بن گئی۔ آج بھی جب بھٹو کو سقوطِ مشرقی پاکستان کا مجرم قرار دیا جاتا ہے تو یہ سرخی ان سے منسوب کردی جاتی ہے۔ خود بھٹو کو بھی اپنے خلاف اس پروپیگنڈے کا احساس تھا۔ اپنی آخری کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں انہوں نے اس سرخی کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’میں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اُدھر تم، اِدھر ہم۔ لیکن آج صورت یہی ہے کہ اُدھر بنگالی عوام ظلم وستم کا شکار ہوئے، اِدھر ہم سنگ دلی کا شکار ہیں۔ اُدھر بنگالی سیاست دانوں کو حکومت کے لیے نااہل قرار دیا گیا، اِدھر ہمیں حکومت کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگال میں جمہوریت قابلِ عمل نہیں۔ یہی صورت یہاں ہے کہ جمہوریت اِدھر قابل عمل نہیں ۔ اُدھر بڑے صنعت کاروں نے عوام کا استحصال کیا، اِدھر بھی بڑے صنعت کار ہمارے آقا ہیں۔ اُدھر بنگالی ڈنڈے کا شکار ہیں۔ اِدھر ہم ڈنڈے کا شکار ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘۔
22مارچ کو ڈھاکا میں صدر یحییٰ سے شیخ مجیب الرحمن اور مسٹر بھٹو نے الگ الگ مذاکرات کیے، اور اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ 25 مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔ اجلاس دوسری بار ملتوی کیا گیا تھا اور اس میں سازش کی بو آرہی تھی۔ کیونکہ عام انتخابات کے بعد اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنا حکمرانوں کا سنگین جرم ہوتا ہے، جس کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے عوام میں احساسِ محرومی تھا، جس کے لیے بھارت 14 اگست 1947 ء سے کام کررہا تھا۔ پھر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے پے درپے اقدامات نے بھارت کے کام کو آسان کردیا تھا۔ اس حوالے سے بہت سی باتیں ہیں، جن کی تفصیل اس حوالے سے تاریخ کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مغربی پاکستان اوّل روز سے مشرقی پاکستان پر حکومت کرتا رہا، جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی۔ آبادی اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلح افواج میں ان کی تعداد دس بارہ فیصد تھی، دارالحکومت ڈھاکا نہیں بلکہ کراچی تھا اور پھر اسلام آباد ہوگیا۔ اس طرح کے متعدد اقدامات سے مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ احساس پختہ ہوتا چلاگیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ مغربی پاکستان کے غلام بن گئے ہیں۔ اور یہ احساس 1970ء کے انتخابات کے تین ماہ بعد بھی اقتدار اکثریتی پارٹی یعنی عوامی لیگ کو منتقل کرنے میں ٹال مٹول اور پھر دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے سے مزید پختہ ہوگیا۔ان حالات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے عوام کو یقین ہوگیا کہ وہ ابھی تک غلام ہیں، کیونکہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا جارہا، چنانچہ لاوا پھٹ پڑا ۔
عوامی لیگ نے سول نافرمانی کا اعلان کردیا، 23 مارچ کو مشرقی پاکستان میں اعلانِ بغاوت کردیا گیا اور عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا گیا۔ شیخ مجیب نے ہتھیار بند دستوں کی سلامی لی اور کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام پر کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔
بنگلہ دیش کا شوشا بھارت نے چھوڑا تھا، اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بھارت قیام پاکستان کے بعد سے اس پر کام کررہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ نفرت کے بیج بو رہے تھے اور کلکتہ میں اس حوالے سے بہت مربوط انداز میں کام ہورہا تھا۔ لیکن غیروں یا دشمنوں کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے ہمارا رویہ کیا تھا۔ ہم نے تو خود بھارت کے کام کو آسان کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے بنگالیوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی کرکے اور آخری کیل 1970ء کے انتخابات کے بعد اقتدار ان کے حوالے نہ کرکے ٹھونک دی۔ چنانچہ بنگالیوں کی یہ سوچ برحق تھی کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ رہ کر غلام ہی رہیں گے، اس لیے انہیں آزادی حاصل کرنا ہوگی ۔ اس کا راستہ بھارت نے انہیں بنگلہ دیش کی صورت میں دکھایا۔
چنانچہ 25 مارچ کو شیخ مجیب نے اعلان کردیا کہ آزاد ہوں گے یا تباہ ہوجائیں گے لیکن جھکیں گے ہرگز نہیں، سیاسی عمل میں تاخیر مزید خطرناک ہوگی۔
اس کے جواب میں مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان نے فوجی ایکشن کا منصوبہ تیار کیا، اسے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے نگراں میجر جنرل راؤفرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجا تھے۔ آپریشن کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو رات ایک بجے ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا، لیکن ان کے تمام ساتھی بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کو وزیراعظم بنانے کے بجائے گرفتار کرلیا گیا۔ فوجی آپریشن کے بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس بلوانا چاہیے تھا، ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ ملک کا آئین 6 نکات پر بنتا، کیونکہ عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل تھی، دوتہائی اکثریت نہیں… اور دوتہائی اکثریت کے بغیر ملک کا آئین منظور نہیں ہوسکتا تھا۔ اس سے بھی بڑا جرم جنرل ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کرکے کیا تھا۔ اگر ملک کا آئین موجود ہوتا تو 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی عوامی لیگ کی حکومت آئین میں ترمیم کرسکتی تھی اور اس کے لیے اسے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی۔ اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ اگر شیخ مجیب برسر اقتدار آجاتا تو چھ نکات کی بنیاد پر ملک تقسیم کردیتا۔
مشرقی پاکستان میں سیاسی عمل کو جاری کرنے کے بجائے فوجی آپریشن کے ذریعے عوامی رائے کو کچلا گیا۔ مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کا یہ بیان اُس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا کہ ہمیں زمین چاہیے، انسان نہیں۔ چنانچہ عوام بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔
عوامی لیگ کی عسکری تنظیم مکتی باہنی نے، جس کے سربراہ کرنل عثمانی تھے، بھارتی ہتھیاروں کے بل بوتے پر پاک فوج کا بھرپور مقابلہ کیا۔ فوجی آپریشن کی پہلی رات ہی ڈھاکا میں بغاوت کو کچل دیا گیا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چاٹگام، راجشاہی اور پبنہ میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاک فوج کو ان تمام علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑی۔
26مارچ 1971ء کو شام چھ بجے کے لگ بھگ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکا سے کراچی پہنچے، انہوں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا۔ ان کا یہ بیان بہت معنی خیز تھا، یعنی سیاسی عمل ختم ہونے اور عوامی رائے کا احترام کرنے کے بجائے اسے طاقت سے کچلنے کے مذموم فعل اور تاریخی جرم کو انہوں نے پاکستان بچنے سے تعبیر کیا۔ جب سیاسی عمل کا راستہ روک دیا گیا تومشرقی پاکستان کے عوام بھارت کے فریبی جال میں پھنس گئے اور اپنے اسی ملک کو ختم کرنے کے درپے ہوگئے جس کے قیام کے لیے دسمبر 1906ء میں انہوں نے ڈھاکا میں مسلم لیگ قائم کی تھی۔
nn