چار سالہ ڈگری پروگرام اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس ملک، اور اعلیٰ تعلیم پر جو ستم ظریفیاں کی ہیں اس پر گفتگو سے قبل اس کے قیام کے مقاصد اور اندرونی و بیرونی عوامل پر بحث کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آج کل جو کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ان خدشات کا اظہار 2002ء میں آج سے 19 سال قبل اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے کیا جاچکا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے قبل امریکی حمایت یافتہ بوسٹن گروپ کی ایک رپورٹ پر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی تشکیلِ نو کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی ٹاسک فورس برائے اعلیٰ تعلیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ٹاسک فورس کی سربراہی آغا خان یونیورسٹی کے صدر شمس قاسم لاکھا کے سپرد کی گئی، جبکہ LUMS کے سید بابر علی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس ٹاسک فورس نے بوسٹن گروپ کی رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی تشکیلِ نو کے لیے سفارشات مرتب کیں۔ ان سفارشات کا نمایاں حصہ نجی شعبے کو تعلیم میں مراعات دلوانے، نجی جامعات کے قیام کی حوصلہ افزائی کرنے، طلبہ کا رجحان سرکاری سے نجی جامعات کی جانب کرنے کے لیے تھا، اور توقع بھی یہی تھی، کیونکہ فیصلہ ساز نجی جامعات سے تعلیم رکھتے تھے۔ اس رپورٹ کو بنیاد بناکر پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ختم کردیا گیا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے وقت 2002ء میں پاکستان میں جامعات کی کل تعداد 95 تھی جس میں 81 نجی جامعات جبکہ 14 سرکاری جامعات تھیں۔ 81 نجی جامعات میں سے 2 میڈیکل، ایک انجینئرنگ، جبکہ 51 عام جامعات (جنرل جامعات) تھیں۔ طلبہ کی تعداد کے تناسب کے لحاظ سے کُل جامعات کے طلبہ کا 58 فیصد سرکاری جبکہ 51 فیصد نجی جامعات میں زیر تعلیم تھا۔ ٹاسک فورس برائے اعلیٰ تعلیم کی رپورٹ خود یہ کہتی ہے کہ ”موجودہ حکومت کا تعلیمی شعبے میں اصلاحات کا منصوبہ جوکہ 2001ء سے 2004ء تک محیط ہے، نجی شعبے کی جامعات میں متناسب اندراج میں اضافے کا پروگرام رکھتا ہے، یعنی یہ اضافہ حالیہ 51 فیصد سے بڑھا کر 2004ء تک 40 فیصد تک لے جانا چاہتا ہے اور اس پروگرام کی تکمیل کے لیے یہ منصوبہ ایک لبرل پالیسی پر گامزن ہے تاکہ نجی شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے نئے اداروں کے قیام کی حوصلہ افزائی کرسکے۔“ آج 18 سال کے بعد 2020ء میں صورت حال یہ ہے کہ ملک میں جامعات کی کُل تعداد812 ہے جس میں سے نجی جامعات 48 ہیں۔ یعنی ان 18 سالوں میں نجی جامعات کی تعداد میں 450فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان جامعات میں زیر تعلیم ہے جوکہ 15 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 50 فیصد ہوچکی ہے۔ اس کا لامحالہ تمام کا تمام اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑرہا ہے۔ نجی جامعات کی فیس غریب تو کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ کراچی میں واقع ایک نجی جامعہ کی کم از کم سالانہ فیس 12 لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ 17 لاکھ روپے ہے۔ یہی حال ملک بھر کی جامعات کا ہے کہ جہاں اوسطاً ایک طالب علم صرف فیس کی مد میں ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کم از کم جمع کروا رہا ہے۔ وہ ملک جہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع ویسے ہی اتنے کم ہیں، اعلیٰ تعلیم کو مزید مہنگا کرکے عوام الناس کی پہنچ سے دور کیا جارہا ہے۔ 2016-17ء کے وفاقی وزارت تعلیم کے پیش کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پرائمری اسکولوں میں طلبہ کی کل تعداد ایک کروڑ 7 لاکھ ہے۔ مڈل تک آتے آتے یہ تعداد کم ہوکر 65 لاکھ رہ جاتی ہے۔ ہائی اسکولز تک پہنچتے ہوئے یہ تعدادمڈل اسکول کے طلبہ کا نصف یعنی 33لاکھ رہ جاتی ہے جس میں 58 فیصد لڑکے اور صرف 42 فیصد لڑکیاں ہیں۔کالج ایجوکیشن گیارہویں بارہویں تک تعداد مزید آدھی ہوجاتی ہے یعنی اب صرف 15 لاکھ 83 ہزار طلبہ کالجوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس سطح پر لڑکوں کا تناسب 61 فیصد اور لڑکیوں کا مزید کم ہوکر صرف 39 فیصد رہ جاتا ہے۔دوسالہ ڈگری پروگرام کالجز و جامعات میں صرف ساڑھے نو لاکھ طلبہ داخلہ حاصل کر پاتے ہیں۔ جامعات میں 1.463 ملین طلبہ زیر تعلیم ہیں یعنی صرف 14 لاکھ خوش نصیب اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پائے۔ تعلیم کا وہ سفر جو ایک کروڑ 7 لاکھ سے شروع ہوا تھا وہ اعلیٰ تعلیم تک پہنچتے پہنچتے صرف 14 لاکھ رہ گیا۔ یعنی پرائمری سے تعلیم کا آغاز کرنے والوں میں سے صرف 11 فیصد طلبہ پورے ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرپارہے ہیں۔ ابھی تو بات صرف تعلیمی اداروں تک پہنچنے والوں کی ہے، ورنہ اس وقت جو طالب علم اسکول کی سطح پر بھی تعلیم نہیں حاصل کررہے ان کی تعداد پرائمری اسکولنگ میں 21.3 فیصد، مڈل (6-8) جماعت میں کل آبادی کا 50.9 فیصد اور سیکنڈری اسکول و کالجز میں 70 فیصد ہے۔ (WENR Report 2020)
یہ بات تو صرف طلبہ کی تعداد کی ہورہی ہے جو کہ سہولیات کی عدم فراہمی، معاشی دباؤ، فیس نہ ہونے اور دیگر عوامل کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ اب ذرا تفصیل سے بات معیار پر ہوجائے۔ پاکستان کے پرائمری و سیکنڈری نظام تعلیم پر بات کرنا اس وقت موضوع نہیں، کیونکہ ہمارا موضوع اعلیٰ تعلیم ہے۔ جب ٹاسک فورس برائے تعلیم کے نتیجے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو ڈاکٹر عطا الرحمٰن سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن یہ بیان کررہے تھے کہ ہماری جامعات، جامعات نہیں بلکہ اسکول ہیں کہ جہاں صرف تعلیم دی جاتی ہے لیکن تحقیق نہیں ہوتی۔ اس لیے تعلیم و تحقیق کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی و پروپیگنڈا کرکے نجی شعبے کو آگے لایا گیا کہ اب تحقیق بھی اعلیٰ معیار کی کی جائے گی۔ نجی جامعات کی تعداد میں 450 فیصد اضافے، ان کو مراعات دیے جانے اور بھاری فیسوں کی وصولی کی چھوٹ دینے کے باوجود تحقیق کے میدان میں صورتِ حال یہ ہے کہ اب خود ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں پاکستان کی 34 سرکاری جامعات نے مجموعی طور پر 1248 پی ایچ ڈی کی ریسرچ مکمل کی، جبکہ اس کے برعکس 28 نجی جامعات نے مجموعی طور پر 103 پی ایچ ڈی کی ریسرچ مکمل کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 28 نجی جامعات کی مجموعی ریسرچ Productivity سے صرف جامعہ کراچی کی Research Productivity زیادہ ہے اورسال 2014ءمیں ملک بھر میں سب سے زیادہ 189 پی ایچ ڈی ریسرچ مکمل کرکے جامعہ کراچی سرفہرست رہی۔ تحقیق کے میدان میں نجی جامعات کی عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ ان کا ایک نکاتی ایجنڈا یعنی مال بناؤ پالیسی ہے، جبکہ تحقیق کے لیے رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ صورتِ حال اس حد تک خراب ہے کہ نجی جامعات اپنے شعبہ جات بنوانے کے لیے سرکاری جامعات کے اساتذہ کے نام تک استعمال کرتی رہی ہیں تاکہ ان کو متعلقہ مضمون میں داخلے دینے کی اجازت مل سکے۔ نجی جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت کو تحقیق کے مواقع نہیں دیے جارہے، بعض نجی جامعات تو ایسی ہیں کہ جہاں تحقیق کرنے والوں کو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ نجی جامعات کو اوپر لانے اور سرکاری جامعات کو پیچھے کرنے کے لیے ان کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے اور اس سب میں سرکاری سرپرستی شامل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے وقت جامعہ کراچی اپنے وسائل کا تقریباً 70 فیصد حصہ یونیورسٹی گرانٹ کی مد میں حاصل کرتی تھی اور تقریباً 30 فیصد وسائل خود پیدا کرتی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومتی گرانٹ میں کٹوتی کے بعد جامعہ کراچی تقریباً 63 فیصد وسائل خود پیدا کررہی ہے اور صرف 37 فیصد حکومتی گرانٹ رہ گئی ہے۔ یہی حالات ملک بھر کی سرکاری جامعات کے ہیں۔ اب ان وسائل میں اضافے کا براہ راست اثر طالب علموں پر پڑتا ہے، کیونکہ جامعات کے وسائل ان کی عائد کردہ فیس ہیں۔ اسی معاشی دباؤ کے زیر اثر صرف اس سال جامعہ کراچی نے نئے آنے والے طلبہ کی فیس برائے سال 2021ء میں 84 فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہی صورتِ حال دیگر فیس پر بھی خاص طور پر تحقیق کے لیے داخل ہونے والے طلبہ کے لیے بھی ہے۔سال 2011-12ۓ ءمیں پی ایچ ڈی کی داخلہ فیس 17500 روپے تھی جو اب بڑھا کر سال 2020ء میں 60000 روپے ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ استحصال طلبہ کا ہورہا ہے اور باضابطہ طور پر سرکاری سرپرستی میں جامعات کو نہ صرف معاشی دباؤ کا شکار کرکے تباہ کیا جارہا ہے بلکہ نت نئے منصوبوں اور متروکہ ناکام منصوبوں کے دوبارہ اطلاق سے جامعات کو ایک نئی مشکل سے دوچار کیا جارہا ہے۔
اس وقت جامعات میں داخلہ لینے والے طلبہ کی ایک معقول تعداد چار سالہ ماسٹرز کرنے کے بجائے دو سالہ گریجویشن یا تین سالہ آنرز کے بعد اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی دباؤ اور بھاری فیسیں ہیں، لیکن اس کے بعد ان کے پاس کم از کم یہ آسرا ضرور ہوتا ہے کہ وہ گریجویٹ ہیں اور کسی بھی ملازمت کے حصول کے لیے درخواست دے سکتے اور ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، لیکن موجودہ نئی اعلان کردہ پالیسی جوکہ چار سالہ ڈگری پروگرام کی ہے اس کے بعد دو سالہ گریجویشن نہ صرف ختم ہوجائے گا بلکہ دو سال کے بعد ڈگری نکلوانے والے طلبہ بھی گریجویٹ نہیں ہوں گے، جس کے سبب مزید معاشی مشکلات کا سامنا طلبہ کو کرنا پڑے گا۔ اب طالب علم نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی جانب نہیں جائے گا بلکہ کالج سے انٹر کے بعد معاش کے امکانات کو تلاش کرے گا۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سوال تاحال جواب طلب ہے کہ چار سالہ ڈگری پروگرام امریکی نظام تعلیم کے مطابق ہے تو کیا ہم اپنے بنیادی و زمینی حقائق سے صرفِ نظر کرکے محض امریکی غلامی کی بنیاد پر اُن کے نظام تعلیم کو اپنانے جارہے ہیں؟ کیا اس سے قبل بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ کو دو سالہ گریجویشن یا 4 سالہ ماسٹرز کی بنیاد پر داخلہ نہیں ملتا تھا؟ پاکستان میں اسکول کی سطح سے لے کر جامعات تک جو دس بارہ فیصد طلبہ پہنچ پاتے ہیں اس پالیسی کے اطلاق سے ان کے تناسب میں اضافہ ہوگا یا مزید کمی واقع ہوگی؟ حقائق تو یہ بتارہے ہیں کہ اس پالیسی کا انجام بھی گزشتہ پالیسیوں کی طرح ہی ہوگا۔ یہ پالیسی ناکامی سے دوچار ہوگی کیونکہ یہ صرف بنیادی حقائق سے ہی نہیں بلکہ سرکاری سطح پر موجود اعداد و شمار سے بھی متصادم ہے۔ پالیسی سازوں کو پاکستان کے بنیادی حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، اور یہ سب تب ہی ہوگا جب ہمارے پاس پالیسی ساز ”امپورٹڈ“ نہیں ہوں گے۔
nn