”مسلسل گود میں ٹنگا رہتا ہے، کسی کے پاس نہیں جاتا، صرف دودھ پیتا ہے، کچھ نہیں کھاتا۔ اب تو دیواروں کو بھی چاٹنا شروع کردیا ہے۔ کہیں اس کے پیٹ میں کیڑے تو نہیں ڈاکٹر صاحب؟“
روز اس طرح کے کئی سوالات.. کئی مائیں مسلسل پریشانی کے عالم میں کلینک سے رابطہ کرتی ہیں۔
بچہ کچھ کھاتا نہیں، اس لیے کیا کریں! مجبوری میں دودھ کی بوتل بھر کر دے دیتی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں چھوٹے بچے (چھے ماہ سے چار سال) تقریباً 60-65 فیصد خون کی کمی کا شکار ہیں، اور ان میں سے تقریباً 50 فیصد خون میں آئرن کی کمی(Iron Deficiency Anemia) کا شکار ہیں۔
بچے میں شروع کے دوسال بہت اہم ہیں جس میں اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ذہنی نشوونما بہت تیز رفتار ہوتی ہے۔ اسی لیے ابتدائی سالوں میں ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ غذائی ضروریات کا بہت زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے۔
نومولود بچہ اللہ تعالیٰ کے محفوظ نظام سے اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، ماں کے پیٹ میں اس کی ضروریات اور حفاظت کا ایک بہت ہی محفوظ نظام اللہ تعالیٰ نے رکھا ہوا ہے۔
جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس میں خون (Hemoglobin) کی ایک مخصوص مقدار موجود ہوتی ہے جو عام طور پر 17Hb سےHb13.5 کم از کم تک رہتی ہے، اب ماں چاہے کتنی بھی کمزور کیوں نہ ہو، بچہ 13.5Hb اوسطاً سے کم پر دنیا میں نہیں آتا (جو اس سے کم پر پیدا ہوتے ہیں اس کی وجوہات موجود ہوتی ہیں، ہم عموماً کی بات کررہے ہیں)۔ خون بننے کا عمل ماں کے پیٹ میں جاری رہتا ہے اور پیدائش کے بعد کچھ وقت کے لیے دھیما پڑتا ہے، اور تقریباً دو ماہ کی عمر میں دوبارہ بہترین انداز میں شروع ہوجاتا ہے۔
پیدائش سے دو ماہ کی عمر تک چھوٹے بچے کا خون تھوڑا تھوڑا کم ہوتا رہتا ہے (اس کی وجہ یہ ہے کہ نومولود کا خون کا سیل/ خلیہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے جو کہ ابتدائی دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے)، وقت پر پیدا ہونے والے بچے کا تقریباً آٹھ ہفتوں میں، اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے کا تقریباً چھے ہفتوں میں کم ہوجاتا ہے، اس کو فزیولوجیکل انیمیا/ (Physiological Anemia)کہا جاتا ہے۔ جب یہ خون ایک خاص حد تک کم ہوجاتا ہے تو انسانی گردوں سے اللہ تعالیٰ ایک کیمیکل بھیجتے ہیں جس کو اریتھروپائیوٹن (Erythropioten) کہا جاتا ہے جو کہ جسم میں خون بنانے کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اب اگر دودھ پلانے والی ماں کی غذا اچھی نہ ہو تو بچے کو ماں کے دودھ میں اچھا آئرن نہیں ملے گا، اور اس بچے کے آئرن اسٹور اچھے نہیں ہوں گے، اور جب آئرن کی ضرورت ہوگی تو خالی اسٹور سے بچے کو کچھ نہیں ملے گا، اس صورت میں بچہ خون کی کمی کا شکار آخر کیوں نہ ہو! اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ بہتر طریقے سے نشوونما پاتا رہے تو ماں کی غذا اچھی رکھیں۔
چلیں اب اوپر والے بچے کا تذکرہ کرلیتے ہیں۔
وہ تمام بچے جو ابتدا ہی سے آئرن کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، یا چھے ماں کی عمر میں جب بچوں کو نرم غذا شروع کی جاتی ہے اور ان کو غذا اچھی نہیں ملتی تو وہ آئرن کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اس کی علامات بنیادی طور پر چڑاچڑا پن، بے رونق چہرہ، بھوک کا نہ لگنا، بار بار بیمار پڑنا، تھکن کا اظہار، کھیلنے میں عدم دلچسپی، مٹی چاٹنا، دیواروں سے رنگ کھرچ کر کھانا، کاغذ، دھاگے وغیرہ یعنی غیر غذائی اجزاء کو کھانا وغیرہ ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا، پاکستان میں اچھی خاصی تعداد ایسے بچوں کی ہے جن کی عمریں چار سال سے کم ہیں اور وہ خون کی کمی کا شکار ہیں، اس کی بڑی وجہ غذائیت کی کمی اور غذا کا غیر معیاری ہونا ہے۔
ابتدائی دو سال اگر غذا اچھی نہیں ملتی تو آئرن کی کمی کی وجہ سے بچے کی ذہنی نشوونما بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح ابتدائی دو سال میں اگر پانچ، چھے ماہ کی عمر سے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ بہتر ٹھوس غذائی اجزاء نہیں کھلائے جاتے اور اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ غذا متوازن ہو جس میں تمام ضروری اجزا ہوں جن میں آئرن بہت ضروری اور بنیادی جزو ہے دیگر اہم Micronutrients کے ساتھ ساتھ… تو بچے میں آئرن کی کمی کی وجہ سے مسائل بڑھیں گے۔
اس لیے وہ بچے جو چھے ماہ کی عمر کے صرف دودھ پر پلتے ہیں اور ماں کے دودھ کے علاوہ گائے، بھینس کا دودھ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں (ایک اسٹڈی کے مطابق، جو بچے تقریباً 900 ملی لیٹر دودھ ایک دن میں استعمال کرتے ہیں) ان میں آئرن کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی بہت عام ہے۔
اسی طرح بکری کے دودھ پر پلنے والے بچے بھی خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ فولیٹ (Folate) کی کمی ہے جس کی وجہ سے خون صحیح نہیں بنتا۔
اس لیے اگر آپ اپنے بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما بہتر چاہتے ہیں تو پانچ، چھے ماہ کی عمر میں اس کی غذا میں وہ اشیاء ضرور شامل کریں جو بہتر آئرن فراہم کرتی ہیں، مثلاً ہرے پتوں والی سبزیاں کھچڑی میں شامل کی جاسکتی ہیں، گوشت کو اچھی طرح پیس کر کھچڑی میں شامل کریں۔ چھے ماہ کی عمر کے بعد بچے کو کھجور کھانے کا عادی بنائیں، کھجور آئرن کی بہترین مثال ہے۔ اور بڑے بچے جو علامات کے لحاظ سے آئرن کی کمی کا شکار لگتے ہیں اُن کو ڈاکٹر کو دکھائیں، اور اگر ڈاکٹر کوئی ٹیسٹ لکھتے ہیں جیسا کہ CBC اور آئرن پروفائل(Serum Iron, TIBC) وغیرہ یا کوئی اور ٹیسٹ، جو تشخیص کے لیے ضروری ہے، تو ضرور کروائیں۔ اور عام طور پر تشخیص کے بعد ڈاکٹر آئرن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آئرن کی ادویہ لکھتے ہیں، (باقی صفحہ 41پر)
جو کم از کم تین چار ماہ استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس علاج سے آپ کا بچہ آہستہ آہستہ اس کمی سے باہر نکلنے لگتا ہے، اور آپ کچھ عرصے بعد محسوس کرتے ہیں کہ اب اس کو بھوک بھی لگ رہی ہے اور باقی علامات بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہیں۔
اس لیے آئرن کی کمی کا علاج دوا کے ساتھ ساتھ ماں باپ کا صبر بھی ہے، اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
خون کی کمی کی صرف ایک بڑی وجہ کا یہاں ذکر کیا گیا جو بچوں میں عام ہے۔ دیگر وجوہات اس مضمون کے اسکوپ سے باہر ہیں مگر بچوں میں موجود ہیں۔ اس لیے جہاں بچے میں خون کی کمی محسوس ہو، اُس کا صحیح طریقے سے جائزہ اور تشخیص، اس کے بعد علاج شروع کیا جائے۔
اپنے بچوں کا خیال کیجیے۔ مہنگی غذا اور برانڈڈ اشیاء ضروری نہیں، بلکہ متوازن غذا ضروری ہے۔